مضامین

سیکولرازم کے علمبردار نتیش کماراوربہار کی اقلیتوں کے مسائل

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بی جے پی سے ناطہ توڑ کر سیکولر ووٹوں کے انتشار کو روکنے ، سیکولر سیاسی پارٹیوں کومتحد کرنے کے ساتھ ساتھ فسطائی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں منہمک ہو گئے ہیں۔اس لیے ان دنوں وہ پورے ملک میں توجہ کے مرکز بنے ہوئے ہیں ۔خاص طور پر مرکزی سیاست میں بڑھتی دلچسپی نے مرکزی حکومت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک منجھے ہوئے ایماندار، با شعور ، باصلاحیت ،سیاسی بصار ت اور بصیرت والے سیاست داں ہیں ،جو اپنے منصفانہ عمل سے کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ۔اور نہ ہی ایسا کوئی سطحی بیان دیتے ہیں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے ۔ بی جے پی کے ساتھ مرکز میں وزیررہنے کے ساتھ ہی ریاست بہار میں دو بار حکومت سازی میں بی جے پی کے حلیف رہتے ہوئے بھی اپنے سیکولر کردار کو داغدار نہیں ہونے دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ نتیش کمار کی حزب مخالف کے درمیان مقبولیت ہے اور وہ بی جے پی مخالف پارٹیوں کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں ۔ابھی ابھی جب انھوں نے بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کیا تو سیاسی گلیاروں میں کافی بے چینی دیکھی گئی ،لیکن بحالت سیاسی مجبوری اور مصلحت ریاست بہار کی بی جے پی کو بھی اس مردم شماری کی حمایت کرنے پر مجبور ہونا پرا ۔ نتیش کمار کی یہ کوشش آنے والے پارلیمانی انتخاب کے کئی اہم ایشوز میں ایک اہم ایشو تصور کیا جا رہا ہے ۔
اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ نتیش کمار خود کو مرکزکی سیاست میں رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام حزب مخالف سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوششوں کے درمیان وزیر اعظم کی کرسی پر بھی ان کی نظر ہے ،گرچہ وہ دبی زبان سے اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بننے کے خواہش مند نہیں ہیں لیکن سمجھنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اعلان اور پلان کے مطابق بہار کی باگ ڈور راشٹریہ جنتا دل کے جواں سال اپنے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کے حوالے کر کے مرکزی سیاست میںمتحرک ہونا چاہتے ہیں۔ اس امر میںبھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ نتیش کمار میں وہ تمام خوبیاںہیں جو انھیں حزب مخالف، رہنما¿ کے طور پر قبول کر سکتی ہیں ۔ اسی پس منظر میں ذات پر مبنی مردم شماری کا کارڈ کھیلا گیا ہے تاکہ وہ ریاست میں حاشیہ پر پڑے لوگوں کی بد تر حالت دکھا کر قومی سطح پر دلتوں اور دیگر نچلی ذات کے لوگوں کی ہمدردی اور حمایت حاصل کر سکیں، ساتھ ساتھ ان کے ذہن میں ریاست کے اقلیتوں کے سترہ فی صد ووٹوں پرٹِکی ہے ،گرچہ ان کے درباریوں نے انھیں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ اقلیتی طبقہ تو آپ کے ساتھ ہے ہی ہے وہ جائیں گے کہاں۔ میرے خیال میںاس سلسلے میںلوگوں نے نتیش کمار کو اپنی چاپلوسی میں خوش فہمی میں مبتلا کر نے کی کوشش کی ہے ۔ نتیش کمارنے اس سلسلے میں وقت اور حالات کے دھارے کو سمجھنے کی کئی بار کوشش کی ہے، لیکن ہر بار ان کے حمایتیوں نے انھیں یہ سمجھا دیا کہ بہار کے مسلمان بس آپ کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ انھیں 2020ءکے ریاستی انتخاب جو وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑ ے تھے اور کئی مسلمان امیدوار وں میں ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ اسی وقت انھیں اپنی ریاست کے مسلمانوں کی خفگی کا اندازہ ہو جانا چاہیے تھا، لیکن ان کے درباریوںنے انھیں سمجھا دیا کہ بی جے پی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کی وجہ سے بہار کے مسلمانوں نے ان کاساتھ نہیں دیاہے ، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ وہ یہ کہ ٹھیک انتخاب سے قبل بہار کے اقلیتوں اور اقلیتی اداروں کے ساتھ ان کے سوتیلے رویہ کے باعث مسلمانوں میں زبردست خفگی تھی ۔جسے دانستہ طور پراور ان کی حمایت میں ہوا بنانے کے نام پر مختلف دورہ کرنے والے ان کے نادان دوستوں نے لا علم رکھا اور زبردست حمایت کی خوش فہمی کا گھونٹ پلاتے رہے لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو لوگوں نے دیکھا کہ جے ڈی یو کا ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا ،تب خفّت مٹانے کے لیے مایا وتی کی پارٹی بی ایس پی کے ایک کامیاب امیدوار زماں خاں کو وزارت کی لالچ دے کر اپنی پارٹی میں لایا گیا، تاکہ ان کی پارٹی اور حکومت میں مسلمانوں کی نمائدگی کسی طرح باقی رہے ۔بعد میں نتیش کمار نے سیاسی نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے بی جے پی سے ناطہ توڑا اور آر جے ڈی اور دیگر سیکولر پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور اب ان کا مستقل ایسا بیان سامنے آ رہا ہے کہ بہار کی باگ ڈور اپنے نائب وزیر اعلیٰ کو سونپ کر وہ مرکز کی سیاست میں متحرک ہونے کی خواہش مند ہیں ۔ان کے ایسے بیان سے ان کی پارٹی میں ناراضگی بھی دیکھی جا رہی ہے کہ کیا وہ جے ڈی یو کو لالو یادو کی آر جے ڈی میں ضم کرنے والے ہیں ؟ کیا جے ڈی یو کا وجود ختم ہونے والا ہے ۔ ابھی جے ڈی یو کے نیتا اور آر جے ڈیو کے وزیر تعلیم کے بیانات سے گھمسان مچی ہوئی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے کہ نتیش کمار مرکز کی سیاست میں سرگرم ہوتے ہیں اور انھیں سیکولر پارٹیوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو پورے ملک کی کافی بڑی آبادی اور ہر انتخاب میں فیصلہ کن قوت رکھنے والے مسلمان ان پر کس طرح اعتماد کریں۔ اس لیے کہ بہار میں گزشتہ کئی برسوں سے یہاں کی اقلیتوں اور اقلیتی اداروں کے ساتھ ان کا رویہ منصفانہ نہیں رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بہار کے اقلیتی طبقہ اور اقلیتی اداروں کو نظر انداز کیے جانے کے باعث گزشتہ ماہ میں ہونے والے دو ضمنی انتخاب میں بھی اقلیتوں کی ناراضگی دیکھنے کو ملی۔یہی وجہ رہی کہ بہار کے مسلمانوں کے ذہن کو ٹٹولنے کے لئے نتیش کمار نے گزشتہ ۲ جنوری کو مسلم دانشوروں ، خانقاہوں کے سجادگان اور کئی علماءکو مسلم مسائل سے واقفیت کے لیے اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا تھا۔ اس میٹنگ کی خبر پھیلتے ہی بہار کے مسلمانوں کے درمیان خوشی کی لہر اس لیے دوڑ گئی تھی کہ گزشتہ کئی برسوں سے بہار کے مسلمان نتیش کمار سے اپنے در پیش مسائل کو گوش گزار کرنے کے لیے بے چین تھے ۔ کئی مسلم رہنماوں اور مسلم تنظیموں نے کئی بار اپنے مسائل اور مطالبات سے وزیر اعلیٰ کو روبرو کرانے کے لیے ملاقات کا وقت مانگا، لیکن افسوس کہ وزیر اعلیٰ نے وقت نہیں دیا ،جس کے باعث بہار کے مسلمانوں میں مایوسیاں دیکھی گئیں۔ اس لیے مسلم دانشوروں ، علماءاور کئی خانقاہوں کے سجادگان کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے مدعو کئے جانے پر عام مسلمانوں کی خوشی فطری تھی اور لوگ بہت پُر امید بھی تھے ۔ لیکن افسوس کہ اس وقت امیدوں پر اوس پڑ گئی جب یہ بات سامنے آئی کہ اس میٹنگ میں، میٹنگ کی نظامت کرنے والے بہار سنّی وقف بورڈ کے چیئرمین ارشاد اللہ نے وزیر اعلیٰ کے سامنے جنھیں بولنے کا موقع دیا ، توقع تھی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے سامنے مسلم مسائل اور گزشتہ کئی برسوں سے معطل پڑے اقلیتی اداروں کے بدتر حالات سے روبرو کرائیں گے، لیکن افسوس کہ مسلم رہنماءمسلم مسائل کو بھول کر سب کے سب وزیر اعلیٰ کی تعریف و توصیف میں خوبصورت جملوں کے پھول برساتے نظر آئے۔ ایسے تعریفی کلمات کو سن کر وزیر اعلیٰ خوش ہوگئے کہ ان کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ مسلم رہنماءاور دانشور ضرور روشناس کراتے ۔ مسلم رہنماوں اور علمائ¿ کی خوبصور ت باتوں سے متاثر ہوتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار اپنی تقریر میںیہ کہتے نظر آئے کہ ” ابھی سب لوگ کہہ ہی رہے تھے کہ ہم نے کتنا کام کیا ہے ۔جب سے کام کرنے کا موقع ملا ہے ،ہم کام کر رہے ہیں کام کرنا میرا فریضہ ہے لیکن ووٹ دینا سب کا اپنا اختیار ہے۔ “ وزیر اعلیٰ نے بڑی خوبصورتی اور ایک منجھے ہوئے سیاست داں کی طرح مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ احساس کرا دیا کہ وہ تو اقلیتوں کے لئے مسلسل کا م کر رہے ہیں لیکن ووٹ کا صلہ نہیں مل رہا ہے ۔ یہ ان کا اندرونی درد و کرب ہے جس کا اظہار انھوں نے اشارے کنائے میں کیا ، لیکن کاش کہ وہ اس پہلو پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرتے کہ آخر ایسا کیوں ہوا یا ہو رہا ہے کہ ان کی ریاست کے مسلمان ان سے دورہوتے جا رہے ہیں ۔ مانا کہ ان کے حاشیہ بردار انھیں خوش فہمی میں رکھے رہے اور ہنوز رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ تو خود بہت ہی تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاست داں ہیں ،انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے درباریوں کی بجائے خود حالات کا جائزہ لیتے اور مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دیتے تو بہار کے مسلمان انھیں بلا شبہ سر آنکھوں پر بٹھاتے ، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ انھیں سمجھایا گیا کہ مسلمان جائیں گے کہاں ؟ یہ ضرور ہے کہ بہار میں بھی مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے منظم منصوبہ کے تحت بہار میں مسلم قیادت کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا گیا تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ شروع کر دیںاور اگر ان کے جائز مطالبات پر توجہ نہیں دی گئی تو ممکن ہے کہ یہ صاف طور پر یہ نہ کہہ دیں کہ ہمارے حقوق پر توجہ نہیں دی گئی تو ہم سے بھی کسی مثبت توقع نہ رکھیں۔ہمارے لیے متبادل کھلے ہیں۔کبھی کانگریس اور اس کے بعد لالو یادو کو بھی اسی طرح کا گمان تھا ،لیکن وقت نے دکھا دیا کہ بقول مرزا غالب
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھرا
تو پھر ائے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی مذکورہ میٹنگ کی ناکامی کے بعد میٹنگ میں شامل ہونے والے مسلم دانشوران علمائے کرام اور سجادگان اپنی خفت کے باعث خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ، لیکن جو لوگ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے اور مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتے رہے ہیں انھیں ضرور بولنے کا موقع مل گیا ہے ۔ اس ضمن میں ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اختر الایمان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اپنی قیادت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ووٹ کے بکھراو¿ کے لئے پریشان ہیں ، تو اس کے لیے انھیں سبب بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلم ووٹ کو متحد کرنے کے لیے لازم ہے کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ آل انڈیا ملّی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے بھی موجودہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو بے وقعت کیے جانے کے جواب میں متنبہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ جو حکومت عوام کے مسائل حل کرے گی، ان کی حمایت خود بخود حاصل رہے گی ، ساتھ ہی انھوں نے گزشتہ کئی برسوں سے فائلوں میں بند مسلمانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی بھی گزارش کی ہے۔ طویل انتظار کے بعد وزیراعلیٰ کی جانب سے ریاست کی اقلیتوں کے مسائل سے واقفیت کے لیے منعقد ہونے والی اس میٹنگ کے حوالے سے معروف صحافی ریحان غنی نے اپنی مایوسیوں کا اظہار کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ مسائل سے دانشوروں کی عدم واقفیت یا خوشامدانہ انداز کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کے مثبت نتائج برآمدنہیں ہو سکے ۔ اردو آبادی کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعدمسلم دانشوروں کو وزیر اعلیٰ کے روبرو ہونے کا موقع ملا تھا جس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اردو کونسل کے سکریٹری اسلم جاوداں جو گزشتہ کئی برسوں سے اردو اداروں کے معطل رہنے اور اردد زبان کے ساتھ غیر منصفانہ عمل پر پُر زور آواز اٹھاتے رہتے ہیں، انھوں نے بھی کہا کہ اس میٹنگ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن میٹنگ بری طرح سے فلاپ ہونے کا انھیں افسوس ہے۔انجمن محافظ اردو کے جنرل سکریٹری سید فضل وارث نے بھی مذکورہ میٹنگ میں اردو کے درپیش مسائل پر گفتگو نہیں کیے جانے پر اپنے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے بہار میں اردو کی لازمیت ختم کرنے سے اردو آبادی میں زبردست بے چینی ہے، جس کے تدارک کے لیے وزیر اعلیٰ بلا تاخیر اردو جو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، اس کی لازمیت بحال کریں نیز اردو اکاڈمی ، مدرسہ بورڈ ، اردو مشاورتی کمیٹی وغیرہ کی تشکیل نو کریں ۔ اقلیتی اداروں کی بدحالی پر بہار اسٹیٹ مومن کانفرنس کے صدر مولانا ابوا کلام قاسمی نے خزاں رسیدہ مسلم ادارے سے تعبیر کیا ہے ۔
اس لیے بہتر ہے کہ نتیش کمار وقت رہتے بہار کی اقلیت اور اقلیتی اداروں کے تعلق سے جو مسائل درپیش ہیں انھیں براہ راست دیکھیں اور مثبت فیصلہ لیں تاکہ بہار کے مسلمان انھیں اپنا سچّاہمدرد تصور کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مثبت پیغام دور تک جائے گا اور پورے ملک میں فرقہ پرستی کے خلاف لڑنے والے اور سیکولر ازم پر یقین رکھنے والے ان کی حمایت پر مجبور ہوں گے۔
٭٭٭٭٭