زکریا سلطان۔ دبئی
دانائی بڑی نعمت ہے۔ اس کے برعکس خبط بڑی بری بلا ہے، اللہ بچائے خبط سے اور خبطیوں سے۔خبطی کو انگریزی میں کریزی کہتے ہیں،لوگ الک الگ قسم کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ خبط انہیں لے ڈوبتا ہے۔کسی کو ہاتھ دھونے کا خبط ہوتا ہے تو وہ مسلسل ہاتھ دھوتا رہتا ہے، بار بار ہاتھ دھوتا ہے، کسی کو نہانے کا خبط ہوتا ہے تو وہ دن میں کئی بار نہاتا ہے، ہر تھوڑی دیر بعد تولیا پکڑ کر حمام میں گھس جاتا ہے ، نہاتے نہاتے صابن کی ساری بٹی ختم کردیتا ہے مگر اس کو تشفی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ بے چارہ خبط میں مبتلا ہوتا ہے، لوگ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے مگر وہ بے چارہ نہاتا ہی رہتا ہے۔ایک لحیم شحیم خان صاحب تولیا پکڑ کر حمام میں داخل ہوئے ہی تھے کہ دھڑام سے ایک زوردار دھماکہ خیز آواز آئی، لوگ دوڑے دوڑے آئے، کھٹکا مارکر پوچھا خان صاحب کیا ہوا؟ بولے کچھ نہیں! ارے بھئی کچھ تو ہوا ہوگا، اتنی زور دار آواز آئی، بولے نہیں جی کوئی خاص بات نہیںہے۔ ارے ایسا کیسا خان صاحب سچ سچ بتائیے کیا ہوا؟ بولے وہ ذرا تولیا گرگیا تھا ۔ تولیا گرا اور اتنا بڑا دھماکہ ، تعجب ہے ۔بولے توال میں میں بھی تو تھا!!!ایک صاحب بینک کے مینیجر تھے اور انہیں بار بار کپڑے بدلنے کا خبط تھا ، وہ اپنے ساتھ بریف کیس میں کئی جوڑے لے جاتے اور ہر تھوڑی دیر بعد اپنا ڈریس تبدیل کرتے! لوگ حیران کہ یہ شخص ابھی ایک دوسرے قسم کے لباس میں تھا اور اب یکایک اس کا لباس تبدیل ہوگیا اس طرح وہ دن بھر خود بھی پریشان رہتا اور دوسروں کو بھی پریشان کرتا کیو ںکہ وہ بے چارہ خبط میں مبتلا تھا۔
اپنے مضمون چٹ نکاح پٹ ولیمہ میں ہم نے بالکل واضح اور دو ٹوک الفاظ میںلکھا تھا کہ "خدارا شادیوں میں اسراف مت کیجئے، نکاح کو آسان بنائیے،مسابقت اور دیکھا دیکھی مت کیجئے۔ لڑکی والوں سے جہیز،طعام اور شادی خانہ کا مطالبہ مت کیجئے، یہ غلیظ رواج ختم ہونا چاہیے، لڑکی والوں سے بھیک مانگنا بری بات ہے، ان پر کسی قسم کا دباﺅ مت ڈالیے۔ اللہ سے ڈریے۔لڑکی والے استطاعت کے باوجود شادی میں اگرکھانے کا انتظام نہیں کرنا چاہتے ہوںتب بھی کوئی بات نہیں، انہیں مکمل اختیار ہے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ مسجد میں یا گھر پر نکاح ہو اور دولہن سیدھے اپنے سسرال جائے اور خلوت صحیحہ کے بعد دوسرے دن حسب استطاعت ولیمہ کیا جائے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔بغیر کسی دباﺅ کے کوئی والدین اگر اپنی مرضی اور خوشی سے شادی میں مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ کوئی حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے، غیر ضروری شک اور تجسس میں مت پڑئیے۔ دعوت قبول کرنا سنت ہے جائیے اور اطمینان سے بریانی، بگھارے بینگن ،شاہی ٹکڑے اور جو کچھ بھی میسر ہو دبائیے” الحمدللہ بہت سے لوگوں نے ہماری بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے پسند کرکے سراہا کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا کیوں کہ یہ برسوں بلکہ صدیوں پرانا رواج اور مسلم تہذیب رہی ہے ، کئی بڑے بڑے جید علماءاس قسم کی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں، ظاہر ہے یہ کوئی بری بات ، بدعت اور حرام حلال کا مسئلہ ہے ہی نہیں، صرف اپنی اپنی پسند اور نا پسند کی بات ہے۔ ہاں! البتہ پورے شہر حیدرآباد میں صرف ایک ” دانشور“” ایسے ہیں جن سے ہماری کہی ہوئی باتیں ہضم نہیں ہورہی ہیں، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ انکی کھجلی کس طرح دور کی جائے۔وہ بڑے بے چین ہیں ۔چاہتے ہیں کہ خطبہ نکاح کے فوری بعد ولیمہ کا دستربچھادیا جائے!!! ارے بھئی کھانے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے، دوسرے دن آرام سے سوٹ بوٹ پہن کر آئیے اور ولیمہ کھائیے ، بے صبرا پن اچھا نہیں ۔ انّ اللہ مع الصابرین۔ ویسے بھی حیدرآباد کی روایت رہی ہے کہ لوگ شادی کے دن عموماً شیروانی اور ولیمہ کے دن سوٹ بوٹ پہن کر آتے ہیں، کتنا اچھا لگتا ہے ۔اگر چٹ نکاح اور پٹ ولیمہ کے نئے شوشے پر عمل شروع کردیا جائے تو پھر اُس بینک مینیجر کی طرح اپنے ساتھ بریف کیس میں سوٹ لے کر آنا ہوگا اور نکاح کے فوری بعد شیروانی اتارکر سوٹ زیب تن کرکے ولیمہ کا کھانا انجوائے کرنا پڑے گا ، مگر عملی طور پر یہ ذرا مشکل لگتا ہے۔
میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں،برسوں پرانی بات ہے۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کا رقعہ لے کر مجلس تعمیر ملت کے دفتر گیا وہاںمولانا عبدالرحیم قریشی صاحب اور مولانا سلیمان سکندر صاحب آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے ، میں نے پہلے رحیم قریشی صاحب کو دعوت نامہ دیا تو دیکھ کر بولے میں شادی میں آﺅں گا مگر کھانا نہیں کھاﺅں گا، صرف مبارکباد دے کر چلا جاﺅں گا، اس کے بعد مولانا سلیمان سکندر صاحب نے رقعہ دیکھ کر کہا میں اس تاریخ پر حیدرآباد سے باہر رہوں گا، اگر میں حیدرآباد میں ہوتا تو شادی میں ضرور آتا اور کھانا بھی کھاتا ، یہ مولانا (رحیم قریشی صاحب) کا اپنا ذاتی اصول ہے کہ وہ شادی میں کھانا نہیں کھاتے!!! یہ سن کر مولانا عبدالرحیم قریشی صاحب نے ایک لفظ نہیں کہا اور بالکل خاموش رہے ۔ یہ ہوتا ہے اختلاف رائے کا احترام۔ ہمارے علماء، ائماءاور اکابرین نے ہمیں ادب و احترام سکھایا ہے، وہ ایک دوسرے پر جھپٹ کر حرام حلال اور بدعت کے غیر ذمہ دارانہ اور بھونڈے فتوے صادر نہیں کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کی رائے اور اصول کا احترام کرتے تھے۔ ایک بے وزن پھسپھسی اور بے جان تحریک کو جس میں کوئی دم خم ہی نہیں، زبردستی نافذ کرنے کے لیے پوری جان لگادینا اور اتفاق نہ کرنے والوں پر لعن طعن کرتے ہوئے برس پڑناکوئی دانشمندی نہیں بلکہ خبط ہے۔٭٭