طنز و مزاحمضامین

ہوا کے دوش پر

سید محمد جلیل

سننے سنانے کا عمل کبھی کبھی خاص مصیبتیں بھی کھڑی کردیتا ہے۔ مثلاً ایک بزرگ تھے ہمارے پڑوسی۔ ریڈیو سے ان کے مضامین اکثر نشر ہوتے ۔ ایک دن سر راہ ملاقات ہو گئی۔ خدا جانے ستارہ گردش میں تھا یا عقل کہ میں نے ان کے ایک مضمون کی تعریف کردی جو ریڈیو سے ابھی حال ہی میں انہوں نے پڑھا تھا ۔ پھر کیا تھا ان کی تو بانچھیں کھِل گئیں، آنکھیں یوں چمکنے لگیں جیسے کسی شکاری کی شکارمل جانے پر چمکتی ہیں۔ مجھے جلدی تھی اس لےے ان کی چمکتی آنکھوں اور نکلے ہوئے دانتوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا لیکن جاتے جاتے ان کی یہ دھمکی سنائی دی ….”اچھا پھر ملیں گے“…. اور کچھ ہی دنوں بعد ایک روز صبح صبح دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں چہرے پرشیونگ کریم پوتے نیم لباسی کی حالت میں جب دروازے پر پہنچا تو ”پھر ملیں گے“ کی دھمکی پر عمل در آمد کرتے ہوئے وہی بزرگ نظر آئے ۔ آنکھوں میں اسی دن والی چمک اور اپنی بغل میں ایک ٹرانزسٹر دبائے ہوئے جیسے کسی گروہ سے بچھڑا کوئی شاعر اپنی بیاض لے کر سامع کی تلاش میں نکلتا ہے ۔ موصوف کو دیکھتے ہی مجھے خطرے کا احساس ہو گیا ۔ کہاں تو میں جلدی جلدی باہر نکلنے کی تیاری کررہا تھا اور کہاں یہ مصیبت۔
اپنے بزرگوں پر بڑا غصہ آیا جن کی تربیت کے مطابق مجھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہی تھا ۔ انھیں اندر لایا ، کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور ان کے آنے کی غرض جاننے کے لےے گوش بر آواز ہوگیا۔ وہ بولے….”آج میرا ایک مضمون ریڈیو سے نشر ہو گا ۔ میں نے سوچا اکیلے سننے سے اچھا ہے کسی اہل ذوق کے ساتھ بیٹھ کر سنا جائے۔ “ لفظ ”اہل ذوق“پر انھوںنے خاص طورپر زور دیا اور اس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا کہ میں اپنی تیاری چھوڑ کر ان کے سامنے کی کرسی پر با ادب با ذوق بن کر بیٹھ گیا۔جب ان کا نشریہ شروع ہوا تو انھوں نے وولیوم اتنا تیز کردیا کہ سوائے ان کی آواز کے اور کوئی صدائے احتجاج سنائی نہ دے سکے۔ اپنی آواز سن سن کر ان کا چہرہ تھا کہ کھلا جا رہا تھا اور گھڑی دیکھ کر میرا دل تھا کہ بیٹھا جا رہا تھا۔بیچ بیچ میں وہ مجھے ہدایتیں بھی دیئے جا رہے تھے …. ”ذرا اس پیرا گراف کو دھیان سے سنےے گا ۔ اس جملے پر غورکیجیے ، اس میں میں نے پورے مضمون کو سمیٹ لیا ہے….آپ سن رہے ہیں نا؟….الفاظ کا کتنا مناسب استعمال کیا ہے میں نے….!“ وغیرہ وغیرہ۔ اب انھیں کیا بتاتا کہ نامناسب الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت تو مجھے محسوس ہو رہی تھی۔ بہر حال میں جبراً قہراً ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ اور جب وہ رخصت ہوئے تو مجھے ایک گھنٹہ کی تاخیر ہو چکی تھی۔
کبھی کبھی دوسری طرح کے لوگوں سے بھی پالا پڑ سکتا ہے ۔ مثلاً ایک اور صاحب ہیں جو خیر سے صحافی ہیں اور بڑے پرانے صحافی ۔ پرانے یوں کہ اپنے اخبار کی ادارت کی کرسی انھیں اس وقت سنبھالنی پڑی تھی جب کہ انھوں نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا ۔ بہرکیف ایک دن راستے میں روک کر بڑی مسرت بھرے لہجے میں فرمانے لگے:
”کل ریڈیو پر میرا ایک تبصرہ نشر ہوگا ، ضرور سنئے اور اپنی رائے دیجےے گا۔“
میں متعجب ہوا کیونکہ اس سے قبل بھی وہ کئی بار ریڈیو پر آچکے تھے ، لیکن ”ضرور سننے اور رائے دینے“ کی فرمائش کبھی نہیں کی…. وہ میری وضاحت طلب نظروں کا مدّعا غالباً سمجھ گئے اور کچھ دیر تک میری حیرت رفع کرنے کے لےے الفاظ ڈھونڈتے رہے ، پھر یوں گویا ہوئے:
”دراصل یہ تبصرہ میں نے خود….یعنی کہ ….یعنی کہ ….آپ سمجھ گئے ہوں گے۔“
میں سمجھ تو گیا ،لیکن ناسمجھ بن کر پوچھ بیٹھا:
”آپ نے خود….یعنی کہ ….“
اب ان کے چہرے کی مسرت خجالت اور شرمندگی میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ شاید وہ میری نا سمجھی پر شرمندہ ہورہے تھے۔ ادھر اُدھر دیکھ کر کہنے لگے ۔ ”آئےے ہوٹل میں بیٹھ کر باتیں کریں“….اور پھر جب وہ ہوٹل کی میز سے اٹھے تو ایک کپ چائے کے ساتھ تھوڑے شکرپارے اور یہ راز ہضم کرنے کے لےے میرے معدے کو ارسال فرماکر اٹھے کہ در اصل اس سے پہلے وہ بہت زیادہ عدیم الفرصت واقع ہوئے تھے اور یہ پہلا موقع ہے جب انھوں نے یہ تبصرہ ”بقلم خود“ لکھنے کا احسان فرمایا ہے۔
ریڈیو پر نشر ہونے میں ایک بڑی الجھن تلفظ کی ادائیگی بھی ہوا کرتی ہے ۔یعنی جو الفاظ ہم آپ جس تلفظ سے ادا کرتے ہیں لغات میں ان کا تلفظ کچھ اور ہی درج ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے ایک مصروف اور مشغول انسان کے لےے ممکن نہیں کہ سارے الفاظ کے تلفظ لغات سے دیکھ کر اس کی تصدیق کرتا پھرے ۔یقینی ہے کہ نشریہ کے دوران کچھ الفاظ اپنے ہی ڈھنگ سے ادا ہو جائیں گے ۔ ایسے موقع کے لےے آسان اور کارآمد نسخہ یہ ہے کہ جس لفظ پر اس طرح کا شبہ ہو، اسے اتنی جلدی اور مبہم پڑھا جائے کہ سننے والے کو اندازہ ہی نہ ہوسکے کہ کن حروف پر کیا اعراب استعمال کےے گئے ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی غلطی کسی کی پکڑ میں آہی جائے تو اصل تلفظ سے لاعلمی کا اظہار کبھی مت کیجئے…. بلکہ یہ کہےے کہ صحیح تلفظ آپ جانتے ہیں لیکن اس لفظ کو اس طرح ادا کرنے کی کوشش کی ہے جس طرح عوام میں رائج ہے اور یوں آپ نے زبان کی ثقالت کو کم کرنے کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے۔
٭٭٭