مذہب

میلاد النبی ؐ قرآن کریم کی روشنی میں

انبیا ء علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت عظمٰی ہے ۔ ہر نبی کی ولادت کی نعمت کے طفیل اس کی امت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادت مصطفی ﷺ کے صدقے امت محمدی ﷺ کو بعثت یعنی نبوت و رسالت کی نعمت، نزولِ قرآن اور وحی کی نعمت، ہدایت و سیرت کی نعمت، ان کے علاوہ جتنی بھی نعمتیں ہیں تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

متعلقہ خبریں
پرانے شہر میں پولیس کا فلیگ مارچ
چاند نظر آنے سے قبل ہی میلاد جلوس کو ملتوی کرنا دور اندیشی نہیں بلکہ عجلت پسندی

انبیا ء علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت عظمٰی ہے ۔ ہر نبی کی ولادت کی نعمت کے طفیل اس کی امت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادت مصطفی ﷺ کے صدقے امت محمدی ﷺ کو بعثت یعنی نبوت و رسالت کی نعمت، نزولِ قرآن اور وحی کی نعمت، ہدایت و سیرت کی نعمت، ان کے علاوہ جتنی بھی نعمتیں ہیں تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں۔ ان ساری نعمتوں کا اصل موجب وہ مبارک دن ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی اور اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی، لہٰذا حضور ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوش ہو کر جشن منانا ایمان کی علامت اور حضور ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

ولادت یا پیدائش تو ہر انسان کے لئے خوشی کا باعث ہے، یوم پیدائش کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے، قرآن مجید کے نقطہ نظر سے ہر نبی کا یومِ ولادت خاص اہمیت کا حامل ہے، حضرت یحییٰ ؑ کے حوالے سے سورۃ مریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ سَلَامٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا – (سورہ مریم) ’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید کلام کی نسبت ان کی طرف کر کے فرماتا ہے: وَ السَّلامُ عَلّي یَوْمَ وُلِدْتُ وَ یَوْمَ اَمُوتُ وَیَوْمَ أَبْعَثُ حَیًّا – (سورہ مریم) ’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں دوبارہ اٹھایا جاؤں گا‘‘ اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن بطور خاص سلام بھیجنے کا بیان چہ معنی دارد؟

سیدنا موسی علیہ السلام کی پیدائش کو اللہ رب العزت نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کا موضوع بنایا، حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا، چنانچہ : وَأَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیْہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَأَلْقِیْہِ فِيْ الْیَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْ إِنَّا رَادُّوہُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (سورہ قصص)’’اور ہم نے موسیؑ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کردییٔ جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم ( اس صورت حال سے ) خوف زدہ ہونا نہ رنجیدہ ہونا بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں شامل کرنے والے ہیں۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں سیدنا موسی علیہ السلام کی پیدا ئش سے پہلے کے حالات ، ان کی پیدائش پھر دودھ پلائے جانے کا بیان تفصیل سے کیاگیا۔

حضرت مریم علیہا السلام کی ولادت سے متعلق آیات اور ترجمہ پر غور کریں جس سے خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم وتربیت اور رشد و ہدایت کے لئے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان کررہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ سے تعبیر کر رہے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: اِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مِنِي إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ فَلَمَّا وَضَعَتہَا قَالَتْ رَبِّ اِنّی وَضَعْتُہَا أنثی وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالانثی وَ إِني سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَ إِنِّي اعِیْدُہَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطَنِ الرَّجیمِ (سورہ اٰل عمران)’’ اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے بیشک تو خوب سنے والا خوب جاننے والا ہے پھر جب انہوں نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو کچھ انہوں نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہو سکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے) اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں‘‘ یہ حضرت مریم علیہا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا، آگے ان کے بچپن کا بیان ہو رہا ہے۔

سیدنا عیسیؑ کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام جو اللہ رب العزت کی پاک باز ولیہ تھیں ان کے میلاد نامہ کے بیان کے بعد ان کے فرزند اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت عیسیؑ کا میلاد نامہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ سورہ مریم کا ایک مکمل رکوع میلاد نامہ عیسیؑ پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ محترمہ کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی اس کا تفصیلی بیان بھی قرآن مجید میں مذکور ہے: إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِکَۃُ یَمَرْیَمُ إِنَّ اللہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ وَ یُکَلَّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلا و مِنَ الصَّلِحِیْن ’’جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بیشک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمہ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسی بن مریم ہوگا وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکو کار بندوں میں سے ہو گا۔

مطالعہ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے نبیوں کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا اور یہی میلا د نامۂ انبیاء ہے۔ ابوالانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت وولادت کی دعا مانگی تھی ۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم (سورہ بقرہ)’’ اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ )رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کردانائے راز بنا دے )اور ان (کے نفوس اور قلوب )کو خوب پاک صاف کر دے ،بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

اسی طرح حضرت عیسیؑ نے خود نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوش خبری اپنی امت کو دی، چنانچہ ارشاد باری ہے: وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِيْ إِسْرَائِیْلَ إِنِّيْ رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْکُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِيْ مِن بَعْدِيْ اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاء ہُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (سورہ صف) ’’اور وہ وقت بھی یاد کرو جبکہ مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہو گا ان کی بشارت سناتا ہوں‘‘۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل پر صاف صاف الفاظ میں واضح کیا تھا کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور جس طرح تم اس کو مانتے ہوں میں بھی مانتا ہوں اور اس پر عمل کرتا ہوں اور خوش خبری سناتا ہوں کہ میرے بعد ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نام احمد ہو گا۔ حضور رحمت عالم ؐ کی آمد سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑنے حضور ﷺ کے ولادت کی خوش خبری سنائی۔

قرآن مجید کے حوالے سے یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے میلادنامے اور ان کی ولادت کے واقعات، قبلِ ولادت اور بعدِ ولادت پیش آنے والے خلافِ عادت حیرت انگیز قصے، کمالات وبرکات اور ان پر الوہی عنایات کا تذکرہ یہ سب اللہ کی سنت ہے جن کو خود قرآن مجید میں بار ہااللہ رب العزت نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کا ذکر بھی سنت الٰہی کے زمرے میں آتا ہے جس کو ظاہر ہے قیامت تک آنے والے دہراتے رہیں گے۔

یہ ذکر کیسے ہوگا ؟ اس ذکر ولادت کا طریقہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے سمجھا دیا ہے لہٰذا یہ گمان بھی نہ کیا جائے کہ ولادت کا ذکر کرنے سے فائدہ کیا ہے ؟ ایسی سوچ سے تو قرآن مجید کی سینکڑوں آیات کا انکار لازم آئے گا ۔ پس جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر بعنوانِ میلاد کرتے ہیں تو ایسا کرنے سے اللہ کی سنت اداہوتی ہے اور جب ہم میلاد کے حوالے سے میلاد النبی ﷺ کے حالات وواقعات کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ بھی اللہ رب العزت کی سنت اور منشائِ قرآن کے عین مطابق ہوتا ہے ۔

یہاں ایک نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ میلاد منانا واقعی عمل توحید ہے، یہ ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ میلاد منانے سے یہ امر خود بخود ثابت ہوجاتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد منانے والے آپ ؐ کو اللہ کا بندہ، اللہ کی مخلوق مانتے ہیں اور جس کی ولادت مانی جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا، کیونکہ خدا کی ذات لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَد (سورہ اخلاص) ’’ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اورنہ ہی وہ پیدا کیا گیا ‘‘ ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوں تذکرہ کیا ہے :

کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُون (سورہ بقرہ)’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا )رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور تمہارا (ظاہر وباطن) پاک کرتے ہیں اور تم کو کتاب (قرآن مجید) اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور م کو ایسی ایسی باتیں بتاتے ہیں جو تم پہلے نہیں جانتے تھے ۔‘‘ لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِم(سورہ اٰل عمران)’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔‘‘ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّکُمْ فَآمِنُواْ خَیْراً لَّکُم (سورہ نساء)’’اے لوگو !بیشک تمہارے پاس یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لائے ہیں سو تم (ان پر )اپنی بہتری کے لئے ایمان لے آئو ۔‘‘ لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم (سورہ توبہ) ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت )رسول تشریف لائے ۔تمہارا تکلیف ومشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا )ہے ۔ (اے لوگو !)وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے )بڑے طالب وآرزومند رہتے ہیں (اور ) مومنوں کے لئے نہایت (ہی )شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘۔ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن (سورہ انبیاء) ’’اور (اے رسول محتشم )ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا‘‘

اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے حبیب ؐ کی محبت سے منور فرمائے آمین بجاہ سید المرسیلنؐ۔
٭٭٭