مضامین

بلقیس بانو کیس : انصاف کی بھی عصمت دری ہوئی ہے

شہاب مرزا

جب انصاف کو قتل کردیا جاتا ہے تو پھر وہاں لا قانونیت جنم لیتی ہے۔ کسی بھی مذہب کا سماج کا ہو اگر زانیوں اور قاتلوں کا استقبال اور احترام ہونے لگے تو اس کے جلد برباد ہونے میں کوئی شک نہیں ،یہ خدائی قانون ہے۔ جب منصف ہی مفادات کو آگے رکھ کر فیصلے کرنے لگ جائیں تو معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے، انصاف میں تاخیر اور مجرم کو چھوڑنا معاشرے میں قانون شکنی کو عام کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ سال 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان 11 مجرموں کو 15 آگست کو گودھرا جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ ان کی رہائی کے بعد ان مجرموں کو مبارکباد دینے اور مٹھائی کھلائے جانے کی کئی تصویریں منظر عام پر آئیں۔ایک اور انکشاف نے اس معافی پر غور کرنے والی کمیٹی کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مجرموں کی رہائی کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس کمیٹی نے متفقہ طور پر ان 11 مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے دو ممبران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے، ایک ممبر بی جے پی کا سابق میونسپل کونسلر اور ایک بی جے پی کی خواتین ونگ کی رکن ہیں۔ اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے، اس کمیٹی نے گجرات حکومت کی 1992 کی معافی کی پالیسی کی بنیاد رکھی ہے، جس میں کسی بھی قسم کے مجرموں کی رہائی پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ گجرات حکومت نے سال 2014 میں تعزیت کی ایک نئی پالیسی بنائی، جس میں کئی زمروں کے مجرموں کی رہائی پر پابندی لگانے کی دفعات ہیں۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ عصمت دری اور قتل کے مجرم پائے جانے والوں کو معافی نہیں دی جائے گی۔تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا اس معاملے میں 2014 کی پالیسی کے بجائے 1992 کی پالیسی کی بنیاد پر فیصلہ لینا درست تھا؟ یعنی اس طرح حکومت خواتین کے تحفظ کا وعدہ پورا کرے گی؟ لعنت ایسی حکومت پر ، اس میں بیٹھی خواتین وزیروں پر اور اس سب کی خاموشی پر۔اب سے جب بھی پی ایم مودی خواتین کے احترام کی بات کریں تو سمجھ لیں کہ ملک میں جلد ہی ایک بڑا زانی رہا ہونے والا ہے۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس بشیر احمد خان نے کہا کہ اس معاملے میں ”مجرموں کو معاف کرنے کا فیصلہ عصمت دری کے قانون کے تحت زیادتی کے مترادف ہے۔“ ان کے مطابق یہ فیصلہ ”بد نیتی پر مبنی، غیر منصفانہ، حوصلہ افزائی، من مانی اور انصاف کے تمام اصولوں کے خلاف تھا۔“ جسٹس بشیر احمد خان کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ بری نیت سے کیا گیا ہے، یہ ایک جانبدارانہ فیصلہ ہے کیوں کہ فیصلہ لینے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی ہے، اس میں ایک ہی سیاسی جماعت کے لوگ اور سرکاری ملازمین شامل ہیں جو اس جماعت کی حکمران حکومت کے ماتحت ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ مجرموں پر لگام لگانے کی بجائے پھولوں کے ہاروں سے استقبال کیا جا رہا ہے، انتہائی شرمناک عصمت دری کرنے والوں کا، ایسا پاگل پن اس وقت عوام میں محسوس کیا جا رہا ہے، یہ ہے نیا ہندوستان۔کدھر ہیں وہ انسانی حقوق کے دعویدار اور پرائم ٹائم پر عورتوں کے حق کے لیے لڑنے والے، مسلم خواتین کو تین طلاق قانون سے انصاف دلانے والے جو مسلمان ملک میں اگر کسی عورت کے پاﺅں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں-آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ انسانی حقوق، خواتین کمیشن، اور خواتین کی علمبردار تنظیمیں انصاف کی متلاشی بلقیس بانو کی آواز بن پائیں گی؟ اس فیصلے سے انصاف کی بھی عصمت دری ہوئی ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک انوکھا اور بدنما فیصلہ ہے۔مجرموں کی رہائی کے فوراً بعد، اس کمیٹی میں شامل بی جے پی کے گودھرا کے ایم ایل اے سی کے راو¿ل جی کا بیان آیا، جس میں انہوں نے ان مجرموں کے بارے میں کہا تھا کہ ”ویسے بھی وہ برہمن لوگ تھے، ان کا کلچر بھی بہت اچھا تھا“ اور ”ہو سکتا ہے کہ وہاں ہوں۔ سزا پانے کے پیچھے بری نیت ہے۔”
میں نے پہلی بار سنا ہے کہ ریپ کرنے والا بھی مہذب ہوتا ہے۔واقعی میرا ملک بدل رہا ہے۔ اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے دماغ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نربھیا کی ماں آشا دیوی نے بی جے پی ایم ایل اے کی طرف سے مجرموں کی حمایت میں کئے گئے بیہودہ ریمارکس کے بارے میں کہا کہ یہ ایک گندی ذہنیت ہے۔ جس کی میں حمایت نہیں کرتی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے آشا دیوی نے کہا کہ قصوروار قیدی برہمن تھے تو انہوں نے ریپ کیوں کیا؟ انہوں نے تین سال کی بچی کے ساتھ 14 لوگوں کو کیوں قتل کیا، اگر یہ مجرم برہمن تھے اور اچھے اخلاق کے مالک تھے تو جیل میں سزا کیوں کاٹ رہے تھے؟ نربھیا کی ماں آشا دیوی نے مزید کہا کہ مجرموں کی رہائی پر جو لوگ آج ان کا استقبال کر رہے ہیں انہیں پھول، ہار اور مٹھائیاں کھلا رہے ہیں۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے۔