یوروپ

حکومت کی عدم کارکردگی پر استعفیٰ دوں گا:بورس جانسن

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے آج یہاں کہا ہے کہ وہ اگر محسوس کرلیں کہ حکومت کام کرنے کے موقف میں نہ ہو تو وہ مستعفی ہوں گے۔

لندن: برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے آج یہاں کہا ہے کہ وہ اگر محسوس کرلیں کہ حکومت کام کرنے کے موقف میں نہ ہو تو وہ مستعفی ہوں گے۔

انہوں نے اس طرح کا بیان اس وقت دیا جبکہ کئی وزراء اور عہدیداروں نے دو دنوں کے دوران استعفی دیدیاہے۔ بتایا جاتاہے کہ کرسٹوفر کو ڈپٹی چیف وہپ مقرر کئے جانے کے بعد تنازعہ پیدا ہوگیا اور حالیہ اسکینڈل کی وجہ سیاسی بحران میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ یہ بات خبر رساں ادارہ اسپوتنک نے بتائی۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر صورتحال غیر یقینی رہی اور حکومت خدمات انجام دینے کے موقف میں نہ ہوتو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات بتائی۔

قبل ازیں موصولہ اطلاع کے بموجب برطانیہ کے وزیر خزانہ اور صحت نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ جانسن نے اپنی انتظامیہ کی ساکھ کو خراب کرنے والے تازہ ترین اسکینڈل پر معافی مانگنے کی کوشش کی تھی۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ رشی سنک اور وزیر صحت ساجد جاوید دونوں نے یکے بعد دیگرے چند منٹوں کے فرق سے وزیر اعظم کو استعفیٰ بھیجا جس میں دونوں نے معیار کے مطابق حکومت چلانے کی ان کی اہلیت پر سوالات اٹھائے۔

یہ استعفے اس وقت سامنے آئے جب بورس جانسن نے جنسی بدسلوکی کی شکایات کا سامنا کرنے والے رکن پارلیمنٹ کرسٹوفر پنچر کو اہم وزارت دی اور پھر بعد میں انہیں یہ عہدہ سونپنے پر معافی مانگی۔

بعدازاں وزیر اعظم نے بعد میں ندیم زہاوی کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔رشی سنک اور ساجد جاوید دونوں نے پہلے ہی بورس جانسن کی انتظامیہ کے طرز عمل اور ان کے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر اور رہائش گاہ پر پارٹیوں کے سبب ہونے والے اسکینڈل میں ان کی برملا حمایت کی تھی۔

رشی سنک نے کہا کہ میرے لیے چانسلر کا عہدہ چھوڑنا آسان نہیں تھا لیکن عوام توقع کرتے ہیں کہ حکومت قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے حکومت چلائے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری بطور وزیر آخری نوکری ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس معیار کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اور اسی لیے میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔

ساجد جاوید نے کہا کہ بہت سے قانون سازوں اور عوام کا حکومت کرنے کے حوالے سے بورس جانسن پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔بورس جانسن پر کابینہ اور حکومتی عہدیداروں کے عدم اعتماد کا سلسلہ جاری ہے، کابینہ میں نئے وزراء کی تعیناتیوں کے باوجود استعفوں کا سلسلہ نہ رک سکا۔

منسٹر فار چلڈرن ول کوئنس اور سالسٹر جنرل الیکس چاک بھی عہدوں سے مستعفیٰ ہوگئے، منسٹر برائے اسکولز رابن واکر نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔پارلیمانی پرائیوٹ سیکرٹری برائے ٹرانسپورٹ لارا ٹروٹ کے ساتھ ساتھ پارلیمانی پرائیوٹ سیکریٹری برائے ویلز ورجینیا کروسبی بھی عہدہ سے مستعفی ہونے والوں میں شامل ہیں۔کینیا اور مراکش کے لئے تجارتی ایلچیوں تھیو کلارک اور اینڈریو موریسن نے بھی عہدوں سے استعفی دے دیا ہے۔اس دوران بتایاگیا ہے کہ وزراء اور عہدیدار مستعفی ہوگئے جن کی جملہ تعداد18 ہے۔