مضامین

بہار کی سیاسی تاریخ اور نتیش کمار

محمد عاقل حسین

سال 1952 سے بہار میں اسمبلی انتخابات کا آغاز ہوا۔ اب تک (سال 2020 تک) بہار میں 17 اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں۔ سال 2005 میں بہار کی سیاست میں ایسا پہلی بار ہوا جب بہار میں ایک ہی سال میں 2 مرتبہ اسمبلی انتخابات کرانے پڑے تھے۔ سال2003 میں جنتا دل کے شرد یادو کی جماعت، لوک شکتی پارٹی اور جارج فرنانڈز اور نتیش کمار کی سمتا پارٹی نے مل کر جنتادل یونائٹیڈ تشکیل دی تھی۔ اس وقت لالو پرساد یادو کے قریبی رہے نتیش کمار نے انہیں اسمبلی انتخابات میں بڑا چیلنج دیا تھا۔ فروری 2005 میں ہوئے انتخابات میں، رابڑی دیوی کی قیادت میں آر جے ڈی نے 215 سیٹوں پر انتخاب لڑا جس میں سے اسے 75 سیٹیں ملیں۔ وہیں جے ڈی (یو) نے 138 سیٹوں پر انتخاب لڑا جس میں اسے 55 سیٹیں ملیں اور بی جے پی نے 103 میں سے 37 سیٹیں حاصل کیں۔ کبھی بہار میں حکومت کرنے والی کانگریس انتخابات میں 84 میں سے صرف 10 سیٹ ہی جیت سکی تھی۔ ان انتخابات میں 122 سیٹوں پر واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی حکومت نہیں بن سکی۔ جب اکثریت واضح نہیں تھی تو سال 2000 میں وجود میں آئی لوک جن شکتی پارٹی کے سپریمو رام ولاس پاسوان نے اپنی 29 سیٹوں کے ساتھ بہار میں مسلم وزیر اعلیٰ بنانے کی شرط پر حمایت دینے کی بات شروع کی۔ جس کے بعد بہار میں حکومت نہ بنتی دیکھ کر چند ماہ کے لیے صدر راج لگا دیا گیا۔ چند ماہ کے صدر راج کے بعد اکتوبر نومبر میں دوبارہ اسمبلی انتخابات کرائے گئے۔ اس انتخاب میں جے ڈی یو اور بی جے پی اتحاد کو اکثریت ملی۔ فروری میں جہاں آر جے ڈی کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں وہیں 8ماہ کے وقفہ سے ہوئے دوبارہ انتخابات میں بہار کی سیاسی صورتحال پوری طرح بدل گئی۔ اس انتخاب میں عوام نے سیاسی تبدیلی کے حوالے سے واضح اشارے دیے۔ حکومت سازی کا معاملہ جو فروری میں الجھا ہوا تھا وہ اکتوبر میں پوری طرح واضح ہوگیا۔ فروری میں ہوئے انتخابات میں آر جے ڈی کو 75 سیٹیں ملی تھیں وہیں اکتوبر میں یہ گھٹ کر 54 پر آگئیں۔ جے ڈی یو کو 55 کی جگہ 88 اور بی جے پی کو 37 کی جگہ 55 سیٹیں ملیں۔ اسی طرح کانگریس کو 10 کی جگہ 9 اور ایل جے پی کو 29کی جگہ صرف 10 سیٹیں ملیں۔ جس کے بعد نتیش کمار نے پہلی بار بہار کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ سال 2010 میں، اسمبلی کی 243 سیٹوں کے لیے 6مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں نتیش کمار کی جے ڈی یو سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ یہ الیکشن این ڈی اے اتحاد میں جے ڈی یو اور بی جے پی نے مل کر لڑا تھا اور ان کے سامنے آر جے ڈی اور لوک جن شکتی پارٹی کا اتحاد تھا۔ ان انتخابات میں جنتا دل یونائیٹڈ کو 141 میں سے 115 اور بی جے پی کو 102 میں سے 91 سیٹیں ملی تھیں۔ وہیں آر جے ڈی نے 168 سیٹوں پر انتخاب لڑکر 22 سیٹیں جیتی تھیں جب کہ ایل جے پی 75 میں سے صرف 3 سیٹ ہی جیت سکی تھی۔ حالانکہ کانگریس نے پوری 243 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا لیکن وہ صرف 4 سیٹیں ہی جیت سکی۔ تب سے کانگریس نے عظیم اتحاد میں ہی الیکشن لڑا ہے۔ ان انتخابات میں بہار کی سب سے بڑی پارٹی سمجھی جانے والی آر جے ڈی نے بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو فروری 2005 کے انتخابات میں 75 سیٹوں کے مقابلے 22 سیٹوں پر رہ گئی اور سال 2010 میں این ڈی اے کی حکومت بنی اور نتیش کمار کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ سال 2015 کے اکتوبر-نومبر کے انتخابات کی بات کریں تو اسمبلی انتخابات پانچ مرحلوں میں مکمل ہوئے تھے۔ اس انتخاب میں حکمراں جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو)، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کانگریس، جنتا دل، سماج وادی پارٹی، راشٹروادی کانگریس پارٹی، انڈین نیشنل لوک دل اور سماج وادی جنتا پارٹی نے عظیم اتحاد بنا کر انتخاب لڑا تھا۔ وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور ہندوستانی عوام مورچہ کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی۔ 2015 کے انتخابات میں کل 243 سیٹوں پر انتخاب ہوا تھا جس میں حکومت بنانے کے لیے 122 سیٹیں درکار تھیں۔ ان انتخابات میں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی اور نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی یو نے 101-101 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا۔ کانگریس نے 41 اور بی جے پی نے 157 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ انتخابی نتائج کے بعد آر جے ڈی 80 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ اس کے بعد جے ڈی (یو) کو 71 اور بی جے پی کو 53 سیٹیں ملیں۔ ان انتخابات میں کانگریس کو 27 سیٹیں ملیں۔ ان انتخابات میں عظیم اتحاد کی حکومت بنی اور نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ تاہم، سال 2017 میں جے ڈی یو نے بدعنوانی کے مدعے پر عظیم اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی اور نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ مل کر نئی این ڈی اے حکومت بنائی۔ اسی طرح سال 2020 کے اکتوبر-نومبر میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے نے کل 243 سیٹوں میں سے 125 سیٹیں جیتیں۔ جبکہ عظیم اتحاد کو 110 سیٹیں ملیں۔ اس میں بی جے پی کو 74، جے ڈی یو کو 43، ہم کو 4 اور وی آئی پی کو 4 سیٹیں ملی تھیں۔ جب کہ آر جے ڈی کو 75، کانگریس کو 19، مالے کو 12، بھاکپا کو 2 اور ماکپا کو 2 سیٹیں ملی ہیں۔ اسی طرح اویسی کی پارٹی کو 5 سیٹیں ملیں۔ اس میں سب سے بڑے اتحاد این ڈی اے نے نتیش کمار کی قیادت میں حکومت بنائی۔ اگر ہم بہار کی سیاسی تاریخ کی بات کریں تو سال 2000 میں ہونے والے انتخابات سے قبل بہار میں کافی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ لالو یادو نے اپنی جگہ رابڑی دیوی کو بہار کی وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور سال 1997 میں تقریباً 3ہفتوں کے لیے صدر راج بھی نافذ ہوا تھا۔ اس کے بعد مارچ 2000 میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہار سے علیحدہ کرکے جھارکھنڈ ریاست نہیں بنائی گئی تھی۔ جھارکھنڈ کی تشکیل نومبر 2000 میں ہوئی تھی۔ اس وقت بہار میں 324 سیٹیں ہوا کرتی تھیں اور جیتنے کے لیے 162 سیٹیں درکار ہوتی تھیں۔ ان انتخابات میں آر جے ڈی نے 293 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور اسے 124 سیٹیں ملیں۔ وہیں بی جے پی کو 168 میں سے 67 سیٹیں ملی تھیں۔ اس کے علاوہ سمتا پارٹی کو 120 میں سے 34 اور کانگریس کو 324 میں سے 23 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ سال 2000 کے انتخابات میں رابڑی دیوی وزیر اعلیٰ بنیں۔ سال 1995 کے اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو یہ وہ انتخابات تھے جب بہار میں نہ تو آر جے ڈی تھی اور نہ ہی جے ڈی یو۔ تاہم، 1994میں نتیش کمار نے ضرور سمتا پارٹی بنا کر لالو یادو سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ پھر لالو پرساد یادو کی قیادت میں جنتا دل نے بہار میں 264 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور 167 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی نے 315 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے لیکن صرف 41 سیٹوں پر ہی جیت سکی۔ کانگریس 320 سیٹوں پر انتخاب لڑکے صرف 29 سیٹیں جیت سکی۔ اس وقت بھی بہار میں 324 سیٹوں پر الیکشن لڑا گیا تھا۔ پھر جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) بھی بہار سے ہی انتخاب لڑی تھی۔ جے ایم ایم نے انتخابات میں 63 میں سے 10 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ سمتا پارٹی کو 310 میں سے 7 سیٹیں ملی تھیں۔ ان انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ لالو پرساد یادو بہار کے وزیر اعلیٰ بنے، لیکن سال 1997 میں لالو یادو کو چارہ گھوٹالہ میں پھنسنے کی وجہ سے بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا اور انہوںنے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ ان کے اس فیصلے پر کافی تنقید ہوئی اور پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی۔ 1997 میں راشٹریہ جنتا دل کی تشکیل بھی ہوئی تھی۔ سال 1988 میں کئی پارٹیوں کے انضمام سے بننے والی جنتا دل نے پہلی بار بہار کے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنتا پارٹی نے 276 سیٹوں پر انتخاب لڑکر 122 سیٹیں جیتیں اور سب سے بڑی پارٹی بن کر کھڑی ہوئی۔ حالاںکہ اکثریت کی تعداد 162 تھی۔ اسی طرح کانگریس کو 323 میں سے 71 اور بی جے پی کو 237 میں سے 39 سیٹیں ملیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے 109 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور 23 سیٹیں جیتیں۔ جے ایم ایم نے 82 میں سے 19 سیٹیں جیتی تھیں۔ تب لالو یادو کی قیادت میں بہار میں جنتا دل کی حکومت بنی تھی۔ ان انتخابات کے بعد ہی بہار میں ایک ہی مدت میں کئی وزیر اعلیٰ بننے کا دور ختم ہوا۔ 1985 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ اسے 323 میں سے 196 سیٹیں ملیں جو کہ اکثریت سے کہیں زیادہ تھیں۔ ان انتخابات کے بعد بہار میں ایک ہی مدت میں چار وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ ان انتخابات میں لوک دل کو 261 میں سے 46 اور بی جے پی کو 234 میں سے 16 سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت جنتا پارٹی بھی انتخابی میدان میں تھی جو بعد میں جنتا دل میں شامل ہوگئی۔ جنتا پارٹی کو 229 میں سے 13 سیٹیں ملیں تھیں۔ ان انتخابات میں 1985 سے 1988 تک بندیشوری دوبے بہار کی وزیر اعلیٰ رہیں۔ ان کے بعد تقریباً 1سال تک بھگوت جھا آزاد، پھر چند ماہ کے لیے ستیندر نارائن سنہا اور جگن ناتھ مشرا بہار کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1980 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس (اندرا) کو 311 میں سے 169 سیٹیں ملی تھیں اور کانگریس (یو) کو 185 میں سے 14 سیٹیں ملی تھیں۔ تب بی جے پی نے 246 میں سے 21 سیٹیں جیتی تھیں اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے 135 میں سے 23 سیٹیں جیتی تھیں۔ جنتا پارٹی (ایس سی) کو 254 میں سے 42 سیٹیں ملی تھیں۔ اس دور میں بھی تقریباً 4ماہ صدر راج نافذ رہا۔ اس کے بعد جگن ناتھ مشرا تقریباً 3سال اور چندر شیکھر سنگھ 1سال کے لیے بہار کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ سال 1977 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں جنتا پارٹی نے بہار میں 311 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور 214 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس انتخاب میں کانگریس کو 286 میں سے صرف 57 سیٹیں ہی ملیں۔ وہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو 73 میں سے 21 سیٹیں ملیں۔ بہار میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی۔ پہلے 2ماہ تک صدر راج نافذ رہا، اس کے بعد کرپوری ٹھاکر 1979 تک تقریباً 1سال اور پھر رام سندر داس 1980 تک بہار کے وزیر اعلیٰ رہے۔ کانگریس نے 1972 کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور 259 میں سے 167 سیٹیں حاصل کیں۔ وہیں کانگریس (او) کو 272 میں سے صرف 30 سیٹیں مل سکی تھیں۔ اس کے علاوہ بھارتیہ جن سنگھ کو 270 میں سے 25 سیٹیں ملی تھیں۔ اس کے بعد سنیوکت سوشلسٹ پارٹی (ایس ایس پی) کو 256 سیٹوں پر انتخاب لڑکر 33 سیٹیں ملی تھیں۔ اس مدت کے دوران بھی تقریباً 2ماہ تک صدر راج نافذ رہا اور اس کے بعد ایک یا دو سال کے لئے کیدار پانڈے، عبدالغفور اور جگن ناتھ مشرا بہار کے وزیر اعلیٰ رہے۔ سال 1969 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ حالاںکہ اسے اکثریت نہیں ملی تھی۔ اس وقت بہار میں 318 سیٹوں کے لیے اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اور جیت کے لیے 160 سیٹوں کی ضرورت تھی۔ کانگریس کو 318 میں سے 118 اور بھارتیہ جن سنگھ کو 303 میں سے 34 سیٹیں ملی تھیں۔ اس انتخاب میں ایس ایس پی کو 191 میں 52 اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو 162 میں سے 25 سیٹیں ملی تھیں۔ اس دور میں بھی صدر راج کے بعد داروغہ پرساد رائے، کرپوری ٹھاکر اور بھولا پاسوان شاستری کچھ عرصے کے لیے وزیر اعلیٰ بنے۔ سال 1967 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 318 میں سے 128 سیٹیں، ایس ایس پی کو 199 میں سے 68 اور جن کرانتی دل کو 60 میں سے 13 سیٹیں ملی تھیں۔ ان تینوں میں سے مختصر وقت کے لیے کل 4وزرائے اعلیٰ رہے تھے۔ ان انتخابات میں بھارتیہ جن سنگھ نے 271 میں سے 26 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ آزادی کے بعد پہلی بار ہوئے 1952 کے انتخابات میں کئی پارٹیوں نے حصہ لیا لیکن کانگریس ہی اس وقت سب سے بڑی پارٹی تھی۔ ان انتخابات میں کانگریس کو 322 میں سے 239 سیٹیں ملی تھیں۔1957 کے انتخابات میں بھی کانگریس ہی سب سے بڑی پارٹی رہی۔ اسے 312 میں سے 210 سیٹیں ملی تھیں۔ سال 1962 کے انتخابات میں کانگریس نے 318 میں سے 185 سیٹوں کے ساتھ اکثریت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سوتنتر پارٹی نے 259 میں سے سب سے زیادہ 50 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ شری کرشن سنہا بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ اگر ہم بہار کی سیاست کی بات کریں تو آج کی سیاست میں نتیش کمار بہار کا سب سے بڑا سیاسی چہرہ بن چکے ہیں۔ بہار میں سال 2005 سے جس طرح سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں، اس سے نہ صرف بہار کے لوگ نتیش کمار سے خوش ہیں بلکہ ملک کے عوام کے ساتھ ہی سیاستدان بھی نتیش کمار کی شبیہ اور ترقیاتی کاموں سے کافی مطمئن ہیں۔ اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ جس طرح سے نتیش کمار نئے عظیم اتحاد میں گئے ہیں، اس کے بعد سے ہر کسی کی نگاہیں نتیش کمار کی مرکزی سیاست پر مرکوز ہوگئی ہیں کہ کہیں سال 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو لے کر نتیش کمار نے الیکشن سے پہلے اتنا بڑا فیصلہ تو نہیں لیا ہے۔ کہیں نہ کہیں نتیش کمار کا یہ فیصلہ مرکز کی سیاست کے لیے دور اندیش ثابت ہو سکتا ہے!