سیاستمضامین

کوئی حد ہے اُنؐ کے عروج کی

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

آج بھی اپنی تمام تر کمزوریوں اور پستیوں کے باوجود حضورﷺ کی امت میں عشق نبوی کی چنگاریاں پوری حرارت کے ساتھ موجود ہیں اور آقائے دوجہاںﷺ کی ناموس کی حفاظت کے لئے امت کا ایک ایک بندہ بھی اپنی جان کی قربانی دینا ناصرف اپنے لئے بلکہ اپنے سارے خاندان کے لئے باعث فخر سمجھتا ہے۔ بداعمالیوں اور کوتاہیوں کے عادی روسیاہ بھی جب اس در کا رخ کرتے ہیں تو ادب کے اعلیٰ مقام کے تقاضوں سے ان کی نگاہیں جھک جاتی ہیں اور آنکھ سے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ ساری دنیا آقائے دوجہاںﷺ کی عظمت اور ان کی بزرگی کی اس لئے بھی قائل ہے کیونکہ بزرگان دین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کوئی لائق تعظیم ہے تو وہ صرف اور صرف حضوراکرمﷺ کی شخصیت ہے۔ لیکن اتنی عظیم اور اتنی واضح اور روشن ترین حقیقت کے باوجود کچھ شرپسند افراد آقائے دوجہاںﷺ کی شان میں گستاخی کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے رسول مکرمﷺ ناصرف انسانوں کے لئے بلکہ حجر‘ شجر‘ پرند‘ چرند ‘ حشرات الارض ‘الغرض دنیا کی ہر شئے کے لئے رحمت کے نقیب ہیں۔ جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ حضور اکرمﷺ ساری کائنات کے لئے رحمت ہیں لیکن خاص طورپر کلمۂ طیبہ پڑھنے والا دنیا کا ہرمسلمان آپؐ کی خاص الخاص رحمتوں کا مستحق ہوجاتا ہے کیونکہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ سے بے انتہا عقیدت‘ محبت اور جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ ہر ایمان والے کایہی انداز ہوتاہے اور یہی اس کی پہچان ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی عظمت کے کئی پہلوئوں کو اجاگر کیاہے۔ ان میں سے ایک آپﷺکی شان رحمت ہے جس کا تذکرہ سورۃ الانبیا میں کیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتے ہیں کہ ائے نبیﷺ ہم نے آپﷺکو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجاہے۔
آپﷺ کی ذات گرامی ہرہر پہلو سے رحمت ہی رحمت ہے۔ آپﷺ کا عطا کردہ دین اور نظام عدل پوری نوع انسانی کے لئے رحمتوں کا سامان ہے۔ آپﷺ کے ذریعہ ملنے والی ہدایت کی روشنی انسانیت کے ہرشعبہ کے لئے مکمل رہنمائی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا فلسفی کیوں نہ ہو‘ مفکر ہی کیوں نہ ہو یا بڑے سے بڑا دانشور ہی کیوں نہ ہو یا ایک عام انسان‘ ایک محنت کش یا مزدور آپﷺ کے حکم کا ایک ایک جز ان سبھوں کے لئے راہِ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ الاعراف میں پوری انسانیت کے لئے بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے آپﷺ کی رحمت کے اہم پہلوئوں کو واضح کیاہے۔ نبی اکرمﷺ کی رحمت ویسے تو عام ہے لیکن رحمتِ خاص ان لوگوں کے لئے ہے جو آپﷺ پر ایمان لانے والے ہیں اور آپﷺ کی اتباع کرنے والے ہیں۔ آپﷺکی سنت‘ آپﷺ کے فرامین خیروشر اور معروف اور منکر کے لئے معیار ہیں۔ جس بات کا آپﷺ نے حکم دیا وہی معروف ہے اور جس سے روک دیا وہ منکر ہے۔ چونکہ آپﷺ نے معروف اور منکر اور خیروشر کا فیصلہ فرمادیا اس لئے قرآن مجید میں حکم دیاگیاہے کہ ’’ رسول اللہﷺ جو کچھ تمہیں دیں اسے تھام لو اور جس سے روک دیں اس سے باز آجائو‘‘۔ اب ہردور میں اگر کسی کو یہ دیکھناہے کہ کیا شئے معروف ہے اور کیا منکر تو اس کا معیار آپﷺ کی سنت‘ آپﷺکا اسوہ کامل ہے۔ آج سسکتی ہوئی انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ معروف اور منکر کے اس معیار کو اختیار کرلے جو نبی مکرمﷺ نے عطا فرمایاہے۔ جو لوگ آقائے دوجہاںﷺ کی جانب سے مقرر کردہ معیارات پر پورے اترتے ہیں وہ رحمتوں کے نزول کے مستحق بن جاتے ہیں اور جو ان معیارات سے انکار کرتے ہیں یا ان پر عمل نہیں کرتے ہیں تو وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلیتے ہیں‘ انسانیت کا خون کرتے ہیں اور انسانیت کی دھجیاں اڑادیتے ہیں۔ آقائے دوجہاںﷺ نے حلال اور حرام کو واضح طورپر بیان فرمایاہے۔ نبی کریمﷺ کی رحمت کا مظہر یہ ہے کہ آپﷺ نے انسانیت کو ناروا بوجھ اور غلامی کے طوق سے نجات دلائی ہے۔ سب سے بڑا طوق جس سے آپﷺ نے نوع انسانی کو چھٹکارا دلایا‘ وہ غلامی کا تھا۔ آپﷺ سے پہلے ملوکیت اور شہنشاہیت کا دور دورہ تھا۔ دنیا میں جابرانہ معیشت کا نظام رائج تھا جس میں تمام ریاستی اختیارات ایک ہی خاندان کے پاس تھے وہی سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اسے تمام حقوق حاصل تھے۔ قانون سازی پر بھی اسی کا حق تھا۔ وہ خاندان جو چاہتا تھا وہ قانون بن جاتاتھا۔ رعایا کے کوئی حقوق نہ تھے‘ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا‘ وہ بے یارومددگار تھے۔ ان لاچاروں کا کام صرف یہ تھاکہ وہ حکمرانوں کی خدمت کرتے رہیں‘ بادشاہوں کے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری میں لگے رہیں اور اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو محصول کے طورپر ادا کرتے رہیں۔ پوری قوم بادشاہوں کی غلام تھی‘ انسانی حقوق اور مساوات کے تصورات یکسر ناپید تھے۔ نبی اکرمﷺ نے اس جہاں میں آکر انسانیت کو غلامی کے بندھن اور ظالمانہ شہنشاہیت سے نجات دلائی۔ انسانی حقوق کا تصور عطاء فرمایا‘ سیاسی سطح پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر مبنی وہ نظام عدل قائم کرکے دکھلایا جس میں مساوات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپﷺ نے ساری دنیا کو بتادیاکہ قانون کا اطلاق سب پر ہوتاہے‘ چھوٹے بڑے کی تمیز قانون کی نظروں میں گناہ عظیم سے کم نہیں ہوتی۔ اور آپﷺ نے یہ بھی کردکھاکہ چاہے خلیفہ ہو کہ عام رعایا انصاف کے معاملہ میں کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں ہوسکتا۔ آقائے دوجہاںﷺ کے اس نظام نے ساری دنیا کو بتلادیا کہ اس پر چل کر ساری کائنات کو ایک سرسبز وشاداب گلستاں میں بدلا جاسکتاہے۔ یہی وہ بات ہے جو سعد بن ابی وقاصؓ کے سفیر ربعی عامر نے ایرانی سپہ سالار سے کہی تھی ’’ ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے اللہ نے اس مقصد کے لئے مبعوث کیاہے کہ ہم اس کی مخلوق کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی غلامی میں دے دیں اور باطل ادیان اور ظالم قوتوں کے ظلم وجور سے بچاکر اسلام کے سایۂ رحمت میں لے آئیں‘‘۔
خلفائے راشدین کے دور کے بارے میں مہاتما گاندھی نے اپنے ایک تبصرہ میں کہاتھاکہ اگر بہترین سرکار چلانی ہے تو حضرت عمرؓ خلیفہ کی تقلید کرو۔بہرحال آقائے دوجہاں حضور اکرمﷺ خالق کائنات کی نظروں میں بے حد محبوب ہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہ کرنے کی ہدایت دی ہے تو سوچئے کہ آپﷺ کا کیا مقام ہوگا۔ زمیں سے لے کر آسمان تک آپؐ کے اعلیٰ مرتبے اور مقام کو دیکھ کر ہر ایمان والے کے ذہن میں ایک ہی آواز گونجتی ہے کہ ’’ کوئی حد ہے ان ( محمدؐ) کے عروج کی‘‘۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰