سیاستمضامین

اگزٹ پول کے مطابق اگر کانگریس پارٹی کرناٹک میں حکومت قائم کرتی ہے تو یہ کامیابی مسلم ووٹس کی مرہون منت ہوگیصرف سات فیصد ووٹس کے فرق سے بازی الٹ گئی جبکہ مسلم ووٹس سولہ فیصد ہیں

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ اب کی بار مسلمانوں نے زبردست سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا۔
٭ سولہ فیصد مسلم ووٹس کانگریس کے پلڑے میں پڑے۔
٭ مسلم ووٹس کی وجہ سے کانگریس کی فیصلہ کن جیت ہوگی۔
٭ حالات کے پیش نظر مسلم ووٹس کی تقسیم نہیں ہوئی۔
کرناٹک انتخابات میں مسلمانوں نے زبردست سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ووٹ بینک میں دراڑ نہیں پڑنے دی۔ اگر اترپردیش کے مسلمانوں نے بھی اس سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہوتا اور اپنے 21فیصد ووٹس کو کسی محب وطن اور سیکولر پارٹی کے حق میں استعمال کیا ہوتا تو وہاں صورتحال کچھ اور ہی ہوتی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وہاں مسلم ووٹس کی ناعاقبت ا ندیشانہ تقسیم ہوئی اور ایک ظالم مسلم دشمن پارٹی کی حکومت قائم ہوئی جس کا خمیازہ شائد مزید چار سال تک بھگتنا ہوگا۔ وہاں بھی ہار اور جیت میں صرف بارہ فیصد ووٹس کا فرق تھا جبکہ مسلم ووٹرس 21 فیصد تھے۔ اترپردیش اور کرناٹک کے انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ اتحاد و اتفاق میں سلامتی اور نفاق میں بربادی مضمر ہے۔ صرف ایک پارٹی دس اسمبلی نشستوں پر اثر انداز ہوئی اور ان نشستوں پر مسلم ووٹس کی غیردانشمندانہ تقسیم ہوئی۔ سبق یہ لیا جارہا ہے کہ اگر ایک بمقابلہ ایک کی اساس پر انتخابات ہوں اور مسلم ووٹس ایک پارٹی کے پلڑے میں پڑیں تو توازن بگڑجائے گا اور یہ بات ثابت ہوگی کہ ہندوستان میں صرف مسلم ہی بادشاہ گر ہیں۔ وہ جس کے سر پر چاہیں تاج رکھیں اور جس کے سر سے چاہیں تاج اتار پھینکیں۔
ہندوستان کے مسلم اگر اسی طرح اپنے ووٹس کا بھاری بوجھ ریاستِ بنگال‘ آسام ‘ کیرالا‘ مہاراشٹرا‘ اترپردیش ‘ بہار‘ مغربی بنگال ‘ تلنگانہ ‘ دلی ‘ مدھیہ پردیش ریاستوں میں کسی مسلم دوست اور سیکولر پارٹی کی جھولی میں ڈال دیں تو ہندوستان میں توازن طاقت بدل جائے گا اور کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں کوئی دائیں بازو کی پارٹی برسراقتدار نہ آسکے گی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی قوت تسلیم کرلی جائے گی۔ جس طرح کہ اب ریاستِ کرناٹک میں تسلیم کی جارہی ہے کیوں کہ سیاسی پنڈتوں نے یہ بات کہہ دی ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کے پلڑے میں نوے فیصد ووٹ پڑے یہاں تک کہ ووٹوں کی تقسیم کے خوف سے مسلمانوں نے جنتادل سیکولر پارٹی کے حق میں بھی اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا اور کانگریس پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔
اب مستقل قریب میں تلنگانہ ریاست میں بھی انتخابات ہورہے ہیں اور تلنگانہ پر قبضہ کرنے اور حیدرآباد کو بھاگیہ نگر کے نام سے موسوم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو منہدم کرنے کو کہا جارہا ہے اور چار فیصد تحفظات کو بھی ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اگر تلنگانہ کے تقریباً پندرہ فیصد مسلم ووٹرس شہر حیدرآباد کی سات آٹھ حلقوں کو چھوڑ کر اپنے ووٹس کا ستعمال موجودہ برسراقتدار پارٹی کے حق میں کریں یہ بات بہت مفید ثابت ہوگی کیوں کہ تلنگانہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اندازہ لگانا ضروری ہوگیا ہے۔ مرکز میں حکمران پارٹی کے پاس الکٹرول بانڈز اور کرپشن کے ذریعہ بے پناہ دولت ہے اور وہ اس دولت کا انتخابات میں استعمال کرنا جانتے ہیں یہاں تک کہ وہ ووٹس کو خریدنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔
لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اپنی سیاسی طاقت کا بھر پور استعمال کیا جائے اور اپنے ووٹس کو تقسیم نہ ہونے دیا جائے۔ بڑی بڑی جنگوں کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک محفوظ فوج (Reserve Force)رکھی جاتی ہے جو ٹھیک اس وقت حملہ کرتی ہے جب بری فوج پسپائی کے قریب ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ریزروفورس عین وقت حملہ کرکے جنگ کا پانسہ پلٹ دیتی ہے۔ تو یہ سمجھا جائے کہ ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کی فوج کا مسلح محفوظ دستہ مسلمانان ہند ہیں جن کے ووٹس طاقت کے توازن کو بگاڑسکتے ہیں اور اپنی فوج کو فتح سے ہمکنار کرواسکتے ہیں۔
یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی مسلمانوں کے حق میں سابقہ حکومتوں سے بہتر ثابت ہوئی ہے۔ کسی حکمران پارٹی کا غیر متعصبانہ رویہ ایک نعمت سے کم نہیں کیوں کہ آپ اترپردیش ‘ مدھیہ پردیش ‘ ہریانہ اور راجستھان کی مثالیں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح وہاں کی حکومتوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ ریاستِ تلنگانہ میں موجودہ اوقات میں یہ طمانیت حاصل ہے کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ زعفرانی پارٹی کو تلنگانہ میں اقتدار کی منزلوں سے بہت دور رکھیں اور انہیں اقتدار کا مزہ لوٹنے نہ دیں ۔ سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
نوٹری دستاویزات کو صحیح قانونی شکل دے کر تعمیری اجازت حاصل کی جاسکتی ہے
محکمہ رجسٹرڈ دستاویز پیش کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکتا
مسئلہ : اگر کسی کی آبائی اراضی پر قدیم مکان ہو۔ دستاویزات نہ ہوں۔ تو کیا محض رجسٹر شدہ دستاویز نہ پیش کرنے پر تعمیری اجازت سے انکار کردیا جائے گا؟
جس مسئلہ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ ایک عام مسئلہ ہے اور شہرِحیدرآباد میں ایسے لاکھوں حضرات موجود ہیں جن کے پاس اراضی تو ہے لیکن کوئی رجسٹر شدہ دستاویز نہیں جس کی وجہ سے وہ اگر تعمیری اجازت طلب کریں تو صرف ایک وجہ سے ان کی درخواست مسترد کردی جاتی ہے کہ ان کے پاس رجسٹر شدہ دستاویز نہیں ہے۔
ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ ان کاکام صرف یہ ہیکہ تعمیری ضابطوں کے مطابق کام کریں۔ (TITLE) کی تحقیق ان کاکام نہیں۔ اگر ایسی کوئی درخواست واپس کردی جاتی ہے یا وصول نہیں کی جاتی تو ہائیکورٹ میں ایک Writ of Mandamus پیش کرکے احکامات حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ درخواست گزار کی درخواست پر احکامات جاری کئے جائیں اور یہ احکامات تعمیری ضوابط کی مطابقت میں ہی ہونے چاہئیں۔
لیکن اگر سرے سے ہی کوئی دستاویز نہیں اور قدیم قبضہ ہے اور قدیم مکان بھی جو کسی بھی وقت منہدم ہوسکتا ہے تو کیا ایسے مکان کی تعمیری اجازت مل سکتی ہے؟ یقینی طور پر مل سکتی ہے ‘ ایسی اراضی کے جو بھی مالک ہوں وہ ایک ہبہ کا میمورنڈم تیار کرواسکتے ہیں۔ ہبہ ایک قانونی طریقہ ہے جس کے ذریعہ غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی ہوسکتی ہے ۔ یہ منتقلی بیوی‘ بیٹے۔ بیٹی کے نام ہوسکتی ہے۔ اگر ایسے ہبہ کے دستاویز کی اساس پر تعمیری اجازت طلب کی جائے تو محکمہ مجبور ہوگا کہ آپ کو تعمیری اجازت دے ورنہ اس عہدیدار کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر احکامات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ہبہ کے دستاویزات تیار کروالینے میں ہی عافیت ہے۔
سوال:- ہم پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں ۔ سب شادی شدہ ہیں۔ والد اور والدہ صاحبہ انتقال فرماگئے۔ والد صاحب بوقتِ انتقال ایک موروثی مکان موازی1500 مربع گز اور چھ ملگیاں چھوڑ گئے۔ اس جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہے اور کوئی بھی صاحب اتنی بڑی جائیداد خریدنے کو تیار نہیں کیوں کہ اگر خرید کی سرکاری رقم بذریعہ بینک چیک ادا کی جائے تو انکم ٹیکس کے مسائل پیدا ہوں گے لہٰذا بہت کوشش کے باوجود بھی مکان فروخت نہ ہوسکا۔ ملگیاں مرکزی مقام پر ہیں اور فی ملگی 50ہزار روپیہ کرایہ آرہا ہے اور اوپری تین منزلوں کا بھی کرایہ لاکھوں روپیوں میں ہے۔
پانچ بھائیوں میں تین امریکہ میں اور دو سعودی عرب میں ہیں۔ تینوں بہنوں میں سے ایک کی شادی نہیں ہوئی ۔ سب سے چھوٹی بہن میں ہی ہوں جو یہ سوال کررہی ہوں۔
اب سوال اس جائیداد کی فروخت اور تقسیم ترکہ کا ہے۔ کرایہ جو بھی آرہا ہے وہ بھائیوں اور بہنوں کے اکاؤنٹ میں جمع کروادیا جاتا ہے۔ بہنیں بھی اپنے گھروں میں ہیں۔ ہم سب اس بات کی کوشش میں ہیں کہ یہ جائیداد فروخت ہوجائے کیوں کہ ہمارے بعد ہم سب بھائی بہنوں کی اولاد کی تعداد زائد از تیس ہے جو سب کے سب اس جائیداد کے مالک ہوں گے اور پھر اس کے تعد تقسیم ترکہ میں اور زیادہ شدید مسائل پیدا ہوں گے۔ جائیداد کی قیمت زائد از 30کروڑ ہے۔
اگر اب ہی یہ مکان فروخت ہوجائے تو ہ یہ رقم آپس میں حسب فتویٰ ایک اور دو کے تناسب میں تقسیم کرسکتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں ہورہا ہے۔ آپ اس مسئلہ کا کوئی معقول جواب دیں تو مہربانی ہوگی۔
روبینہ بیگم۔حیدرآباد۔(نام تبدیل کردیاگیا)
جواب:- ہمارے خیال میں آپ اس جائیداد کی فروخت کے مسئلہ کو ٹال دیں اور جوں کا توں موقف برقرار رکھیں۔ بے شک اتنی بڑی جائیداد کو خریدنے کے لئے بہت دولت کی ضرورت ہے اور کوئی بھی فرد ٹیکس کی ادئیگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی اتنی بڑی رقم لائے تو کہاں سے لائے۔
یہ کام صرف بہت بڑے رئیل اسٹیٹ (TYCOONS) ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ آپ کو مطلوبہ رقم ادا نہیں کریں گے۔ تھوڑی رقم بطورِ اڈوانس ادا کرکے وہ لوگ آپ کو ٹنگا دیں گے اور آپ ان کی دھاندلیوں اور بسا اوقات دھمکیوں کو برداشت نہیں کرپائیں گی۔ آپ نے جائیداد کی قیمت کا بہت کم تخمینہ لگایا۔ جس علاقہ میں آپ کی جائیداد واقع ہے وہاں قیمت زائد از 50 کروڑ آسکتی ہے۔
لہٰذا اس خیال کو ترک کردیجئے۔ ورنہ بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اربن لینڈ سیلنگ فاضل اراضیات پر قابض حضرات حکومت کی مطلوبہ رقم ادا نہ کریں
گورنمنٹ آرڈر59 کا مطالبہ غیر قانونی ہے
اس ضمن میں ہیلپ لائن 040- 23535273 اور 9908850090 پر ربط قائم فرمائیں۔
لاکھوں روپیہ بلا وجہ معقول حکومت کے خزانے میں جمع کروانے کی ضرورت نہیں ۔ قانون اور سپریم کورٹ اور حیدرآباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی میں گورنمنٹ آرڈر جاری کیا گیا ہے ۔ جو بھی 27-03-2008 کی تاریخ یا اس سے قبل کی کسی تاریخ سے فاضل اراضی پر قابض ہے اور اس کا دستاویزی ثبوت موجود ہو تو وہی مالک ہے ۔ اگر حکومت نے باضابطہ قبضہ حاصل کرلیا ہو تو دوسری بات ہوگی۔ حکومت کو ایک نوٹس کی اجرائی اور قانونی صراحت کافی ہوگی۔ حکومت ڈیمانڈ نوٹس جاری نہیں کرسکتی۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پیسہ برباد مت کیجئے۔