تین سال میں رقم دو گنی

جائز اور ناجائز نفع کے سلسلہ میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر نفع کی مقدار متعین کردی جائے اور نقصان کا خطرہ قبول نہ کیا جائے تو ایسا نفع جائز نہیں ؛ بلکہ یہ سود میں داخل ہے ،

سوال:- ایک تجارتی تعمیری کمپنی اپنے یہاں اس طور پر کام کرتی ہے کہ وہ لوگوں سے نقد لے کر تین سال میں دوگنا کرکے دیتی ہے ؛ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ (عبدالبصیر، چار مینار )

جواب:- جائز اور ناجائز نفع کے سلسلہ میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر نفع کی مقدار متعین کردی جائے اور نقصان کا خطرہ قبول نہ کیا جائے تو ایسا نفع جائز نہیں ؛ بلکہ یہ سود میں داخل ہے ،

اسی کی ایک صورت وہ ہے ، جو آپ نے تحریر کی ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر سرمایہ حاصل کرتا ہے کہ وہ تین سال کے بعد اس کی دوگنی رقم آ پ کو بہ طور نفع کے ادا کرے گا –

جائز صورت یہ ہے کہ نفع کی قطعی مقدار کے بجائے اس کا تناسب متعین کیا جائے ، مثلا کہا جائے کہ تمہارے سرمایہ پر جو کچھ نفع آئے گا ، اس کا پچاس فی صد میں تمہیں دوں گا ،

اور اتنے نفع کی امید ہے کہ ان شاء اللہ تین سال میں یہ رقم دوگنی ہوجائے گی ، تو اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے ،

اب اس کی ذمہ داری ہوگی کہ تین سال بعد نفع کا حساب کرے اور پچاس فی صد نفع کے لحاظ سے جو رقم آئے وہ اسے ادا کرے ، خواہ یہ رقم دو گنی ہو یا اس سے زیادہ یا کم۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button