مضامین

کانگریس کے نئے صدر کے لیے چالینجس

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کانگریس کے سینئر قائد ملک ارجن کھرگے نے پارٹی کا صدارتی انتخاب جیت لیا۔ 19 اکتوبر کو اعلان شدہ نتائج کے مطابق کانگریس صدر کے الیکشن میں کُل 9385 ووٹ ڈالے گئے ۔ملک ارجن کھرگے کو 7897ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کے حریف ششی تھرورکو صرف 1072ووٹ مل سکے، جب کہ 416 مسترد کر دئے گئے ۔کانگریس کی 137سالہ تاریخ میں چھٹی مرتبہ کانگریس کو پارٹی صدر کے لیے انتخابات کے مر حلہ سے گزرنا پڑا۔ کانگریس کے لیے نئے صدر کا انتخاب ایک بہت بڑا گھمبیر مسئلہ بن چکا تھا۔ سونیا گاندھی گزشتہ تین سال سے پارٹی کی عبوری صدر کی حیثیت سے اس عہدے پر فائز تھیں۔ پارٹی کے سینئر قائدین کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کے لیے ایک مستقل صدر کا ہونا ضروری ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق پارٹی نے جمہوری عمل کے ذریعہ صدر کا انتخاب کرلیا ہے۔ یہ بات بھی اچھی ہوئی کہ کانگریس صدر کا تعلق گاندھی خاندان سے نہیں ہے۔ گھرگے کے صدر کانگریس بننے سے اب بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع نہیں رہا کہ کانگریس میں خاندانی راج چلتا ہے۔ کانگریس کے مختلف گوشوں سے راہول گاندھی کو صدارت کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، لیکن انہوں نے بہت پہلے ہی یہ واضح کردیا تھا کہ وہ اس عہدے کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ راہول گاندھی آخری وقت تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس لیے کانگریس صدر کا انتخاب ناگزیر ہو گیا۔ 17 اکتوبر کو ووٹنگ ہوئی اور نتائج کا اعلان دو دن بعد کردیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ پارٹی کا کوئی سرکاری امیدوار نہیں ہے۔ کوئی بھی کانگریسی صدر کے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے بھی کھلے عام کسی امیدوار کی تائید نہیں کی، لیکن جب سے ملک ارجن کھرگے نے پرچہ نامزدگی داخل کیا ، کہا جارہا تھا کہ وہی پارٹی کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہوجائیں گے۔ کھرگے، نہرو۔ گاندھی خاندان سے دیرینہ روابط رکھتے ہیں، ان کی اسی قربت کی وجہ سے سب کو معلوم تھا کہ کانگریس صدر کا نتیجہ کیا آنے والا ہے، لیکن بہرحال انتخابی عمل کے ذریعہ ان کا انتخاب ہوا ہے اور بھاری اکثریت کے ساتھ انہیں کامیابی ملی ہے۔ملک ارجن کھرگے ابتداء میں کانگریس کے صدارتی امیدوار نہیں تھے ۔ جس وقت کانگریس صدر کے انتخابات کا اعلان ہوا، اُ س وقت راجستھان کے چیف منسٹراشوک گہلوٹ اس دوڑ میں شامل تھے، لیکن جب راہول گاندھی نے ایک فرد۔ ایک عہدہ کا مسئلہ چھیڑ دیا تو اشوک گہلوٹ کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس صدر رہتے ہوئے راجستھان کے چیف منسٹر بھی بنے رہیں۔ انہوں نے جئے پور میں اپنی سیاسی طاقت دکھاتے ہوئے جو ڈسپلن شکنی کی، اس سے سونیا گاندھی کا فی ناراض ہوگئیں اور انہیں بادل نخواستہ کانگریس کے صدارتی انتخاب سے اپنے آپ کو دور کرلینا پڑا۔ اشوک گہلوٹ جلد بازی میںیہ مظاہرہ نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ کانگریس کے متفقہ صدر کی حیثیت سے ابھرتے لیکن انہوں نے دونوں عہدوں کو اپنے پاس رکھنے کی بیجا خواہش میں پارٹی میں بھی اپنا وقار کھو دیا۔ ملک ارجن کھرگے کا شمار ملک کے قدآور سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی آبائی ریاست کرناٹک ہے ۔کانگریس کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے وہ راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن تھے۔ وہ یو پی اے حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں ۔ لیبر لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ حیدرآباد۔کرناٹک علاقے کے وہ ایک طاقتور قائد ہیں۔
کانگریس کے نئے صدر کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ کانگریس اس وقت جس شکست و ریخت کے دور سے گزر رہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ملک کی سب سے قدیم پارٹی عوام کے مختلف طبقوں کا اعتماد کھوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی نے کانگریس مکت کا نعرہ بھی لگا دیا ہے۔ جس پارٹی نے اس ملک پر کم وپیش پچاس سال حکومت کی وہ آخر کیوں اس قدر سکڑتی جارہی ہے۔ اپنی ایک آئیڈیالوجی رکھنے کے باوجود کانگریس ، بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو مات دینے میں کیوں ناکام ہو گئی ہے؟اس کے قائدین کیوں پارٹی سے اپنا رشتہ توڑتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر 2014کے لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس کا مقدر کیوں نہیں سنور رہا ہے۔ ایک دور وہ تھا جب پورے ملک میں کانگریس کا سکّہ چلتا تھا اور ہر الیکشن میں وہ یکطرفہ کا میابی درج کراتی تھی، لیکن 2014کے عام انتخابات میں کانگریس نے 545رکنی لوک سبھا میں صرف 44سیٹیں حاصل کیں۔ 2019کے الیکشن میںصرف چند سیٹوں کا اضافہ کرتے ہوئے 52کے ہند سہ تک پہنچ سکی۔ جس پارٹی نے 1984میں اپنے دوارکان لوک سبھا سے سیاسی سفر شروع کیا تھا وہ آج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی ہے۔ بی جے پی کی اس سیاسی چھلانگ میں ظاہر ہے کہ کانگریس کی خرابیوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ ملک ارجن کھرگے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ کس طرح کانگریس کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا سکیں گے۔کیا کانگریس کے نئے صدر پارٹی میں پائی جانے والی گروہ بندیوں کو ختم کرنے میں کا میاب ہو سکیں گے۔ کانگریس کے جو سینئر قائدین پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر پارٹی سرگرمیوں سے دور ہو چکے ہیں انہیں کیا پھر سے پارٹی میں متحرک کیا جاسکے گا۔ کانگریس کو 24سال بعد غیر گاندھی صدر ملا ہے۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ لیکن کیا واقعی ان دونوں کی سرپرستی کے بغیر ملک ارجن کھرگے صدر کانگریس کی حیثیت سے آزادانہ فیصلے کر سکیں گے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جا رہاہے کہ کھرگے کو صدارتی انتخاب میں اسی لئے اُتارا گیا کہ وہ صدر منتخب ہونے بعد بھی سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے اشاروں پر چل سکیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ سارے ہنگامے کی ضرورت نہیں تھی۔ کانگریس میں گاندھی خاندان سے ہٹ کر صدر بننے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔ 1997میں سیتا رام کیسری پارٹی کے صدر بنائے گئے تھے۔ اس وقت بھی سونیا گاندھی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن بعد میں کانگریس قائدین کا دباو¿ ان پر بڑھنے لگا اور پارٹی پے درپے دوالیکشن ہار گئی تب سیتا رام کیسری کو زبردستی کانگریس صدارت سے ہٹاتے ہوئے سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں کانگریس کی قیادت تھمادی گئی۔ کانگریس نے ان کی قیادت میں 2004 اور پھر 2009میں زبردست کامیابی حاصل کی۔دس سال کانگریس کی قیادت میں مرکز میں یو پی اے کی حکومت رہی۔ منموہن سنگھ دو معیادوں میں ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ سونیا گاندھی نے یوپی اے کے چیرمن اور کانگریس صدر کی حیثیت سے اپنی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کیا، لیکن نظریاتی طور پر کانگریس اپنی روایات پر قائم نہ رہ سکی ۔ جس کے نتیجہ میں اس کی پالیسیوں میں تسلسل باقی نہ رہا۔ ہندو ووٹ بینک کو متحد کرنے کے لیے نرم ہندتوا کا سہارا لیا گیا جس سے ملک کی اقلیتیں کانگریس سے دور ہوتی چلی گئیں۔ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو شرمناک شکست سے دوچارہونا پڑا۔ پانچ سال بعد بھی اقتدار پر آنے کا اس کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ دوبارہ 2019کا الیکشن بھی اسے ہارنا پڑا۔ شکست و ریخت کا یہ سلسلہ اب بھی جا ری ہے۔ کانگریس کے لیے2024کا الیکشن کرو یا مرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ کانگریس کے نئے صدر کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ پارٹی کوکھویا ہوا مقام دلاسکیں گے۔
2024کے عام انتخابات ملک کی سیاست میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی اگر تیسری مرتبہ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ملک میں کئی نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ ہندو راشٹرکا جو خواب فسطائی طاقتیں گز شتہ دیڑھ سو سال سے دیکھ رہی ہیں، اس کو پورا کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ دستور میں من مانی ترمیمات کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کو غیر جانبدارانہ انداز میں کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ حکومت کے دباو¿ میں آجائیں گے۔ ایسی نازک صورت حال میں کانگریس کی ذ مہ داری بڑھ جاتی ہے۔ کانگریس کے نئے صدر اگر پارٹی کو اپنے دیرینہ اصولوں پر واپس لاتے ہوئے حقیقی سیکولرازم کی پالیسی اپناتے ہیں تو وہ کانگریس کی شبیہ بنانے میں کچھ حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ نرم ہندوتوا کی پالیسی اپنانے سے کانگریس کی یہ درگت ہو گئی ہے۔ اپنے اس غلط فیصلے کی وجہ سے کانگریس نہ ہندو و¿ں کی ہمدرددی حاصل کر سکی نہ مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے میں اسے کا میابی مل سکی۔ واقعہ یہ ہے کہ 2004اور 2009میں کانگریس کو جو دس سال کے سیاسی بن باس کے بعد اقتدار ملا تھا ، وہ دراصل اس ملک کے مسلمانوں کی کانگریس سے قربت کا نتیجہ تھا۔ ڈسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان کانگریس سے دور ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے ووٹوں سے محرومی نے کانگریس کو دس سال گوشہ گمنامی میں رکھ دیا تھا۔ سونیا گاندھی نے جب بابری مسجد شہادت کے معاملے میںمسلمانوں سے معافی چاہی ، تب مسلمان کانگریس کو پھر اپنا دوست بنائے۔ لیکن کانگریس نے نرم ہندوتوا کی پالیسی کو اختیار کر تے ہوئے پھر مسلمانوں کو اپنے سے دور کرلیا۔ اس وقت کانگریس نظریاتی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہو گئی ہے اور اس کے پاس کوئی کرشماتی شخصیت بھی نہیں رہی ۔ گاندھی خاندان کا اپنا ایک مقام ہے ۔ لیکن اب اس خاندان کے کسی فرد نے بھی پارٹی کی نکیل اپنے ہاتھ میں نہیں رکھی ہے۔ کیا ملک ارجن کھرگے ملک میں ایک پُر کشش شخصیت بن کر ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نریندرمودی جس جملے بازیوں سے کام لے کر وقتی طور پر عوام سے تائید لینے میں کا میاب ہو جا تے ہیں یہ ہنر کیا کانگریس کے نئے صدر کے پاس ہے۔ پارٹی میں جو دھڑے بازیاں ہیں اس پر قابو پانے میں ان کو کامیابی مل سکے گی۔ ۔ کانگریس کے نوجوان قائدین کی امیدوں پر کیا ملک ارجن کھرگے پورے اتر سکیں گے۔ اس وقت پارٹی میں نوجوان قیادت اور سنیئر قائدین کے درمیان کافی ٹکراو¿ کا ماحول ہے۔ راجستھان میں جو سیاسی ڈرامہ ہوا ، یہ دراصل سینئر اور جونیئر کا ہی جھگڑا تھا۔ اشوک گہلوٹ، سچن پائلٹ کو جونیئر مانتے ہوئے ان کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ سچن پائلٹ کو اس بات کی بے چینی ہے کہ آخر وہ کب راجستھان کے چیف منسٹر بن سکیں گے۔ ان دونوں کی رسہ کشی میں ہوسکتا ہے کہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں راجستھان میں کانگریس کی لٹیا ڈوب جائے اور بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع مل جائے گا۔ دیگر ریاستوں میں بھی کانگریس قائدین کے درمیان سر پھٹول چلتی رہتی ہے۔ کانگریس کے نئے صدر ان چیلنجوں سے کس انداز میں نمٹیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ 2024کے عام انتخابات سے پہلے ملک کی نو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات میں کانگریس بہتر مظاہرہ کرے گی تو کانگریس کے نئے صدر کی قیادت کو تسلیم کرلیا جائے گا اور 2024کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس پوری قوت سے بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے موقف میں رہے گی اور عین ممکن ہے کہ مرکز میں وہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا سکے۔ ملک ارجن کھرگے کی قیادت میں کانگریس کو دوبارہ اقتدار نصیب ہوتا ہے تو ان کا نام کانگریس اور ملک کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا۔