مذہب

دوزخ کا پودا: الزَقُّوْم ___ ایک سائنسی جائزہ

زقوم کے معنی جہنم کے اور ایک مہلک غذا کے بتائے گئے ہیں۔ بعض لغات میں اسے ایک ایسا خاردار پودا کہا گیا ہے جو مزہ میں انتہائی تلخ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پودے کا تذکرہ تین مرتبہ زقوم کے نام سے ہوا ہے جبکہ ایک بار اسے شجر ملعونہ کہا گیا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل)

از ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی، ڈپٹی ڈائرکٹر (ریٹائرڈ)، نیشنل بوٹانیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، لکھنؤ۔

موبائل: 9839901066، ای میل: mihfarooqi@gmail.com

زقوم کا بیان قرآن کریم میں اس طرح ہوا ہے:

1)۔ سورۃ بنی اسرائیلXVII۔آیت نمبر60- ترجمہ: یاد کرو اے نبی! ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو کچھ بھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ہم نے ان لوگوں کے لئے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا، ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کئے جارہے ہیں مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ کئے جاتی ہے۔

2)۔ سورۃ الصّٰفّٰتXXXVII۔آیت نمبر62-68۔ ترجمہ: بولو یہ ضیافت اچھی ہے یازقوم کا درخت، ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لئے فتنہ بنا دیا وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے، اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطان کا سر۔ جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اوراسی سے پیٹ بھریں گے پھر اس پر پینے کے لئے ان کو کھولتا ہوا پانی ملے گا اوراس کے بعد ان کی واپسی اسی آتشی دوزخ کی طرف ہوگی۔

3)۔ سورۃ الدّخّانXLIV۔آیت نمبر43تا46۔ ترجمہ: بیشک زقوم کا درخت بڑے مجرم کا کھانا ہوگا، تیل کی تلچھٹ کی طرح پیٹ میں کھولے گا تیز گرم پانی کی طرح۔

4)۔ سورۃ الواقعۃLVI ۔آیت نمبر52-56۔ ترجمہ: تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والو! اسی سے تم پیٹ بھرو گے اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے اونٹ کی طرح پیو گے۔ یہ ہے ان کی ضیافت کا سامان روز جزا میں۔

اَلْمُنْجِدْ میں زقوم کے معنی جہنم کے اور ایک مہلک غذا کے بتائے گئے ہیں۔ بعض لغات میں اسے ایک ایسا خاردار پودا کہا گیا ہے جو مزہ میں انتہائی تلخ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پودے کا تذکرہ تین مرتبہ زقوم کے نام سے ہوا ہے جبکہ ایک بار اسے شجر ملعونہ کہا گیا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل)

مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن میں سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر بیان کرتے ہوئے زقوم کو تھوہڑ کا درخت بتایا ہے۔ تفسیر ماجدی میں زقوم کوایک ایسا درخت کہا گیا ہے جو عرب میں تلخی کے لئے مشہور تھا۔ اس کا نام فارسی میں حنظل بھی دیا گیا ہے۔

مولانا اشرف علی تھانوی نے بیان القرآن میں زقوم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں پیدا ہوگا، جبکہ تفسیر حقانی میں اسے تھوہڑ یا سیہنڈ کا پیڑ کہا گیا ہے۔ مولانا مودودی تفہیم القرآن میں رقم طراز ہیں کہ:

’’زقوم کا درخت تہامہ کے علاقہ میں ہوتا ہے۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے، بو ناگوار ہوتی ہے اور توڑنے پر اس سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہڑ کہتے ہیں‘‘۔

جناب عبداللہ یوسف علی نے زقوم کا انگریزی یا نباتاتی نام نہیں دیا ہے لیکن یہ ضرور تحریر کیا ہے کہ (نوٹ نمبر 2250) یروشلم کے علاقہ میں جس پودے کو اب زقوم کہتے ہیں وہ اصل میں Myrobalan (یعنی ہڑ اور بہیڑہ) کی ذات کا پودا ہے اوران کے نزدیک زقوم نام اس پودے کو قرآنی دور کے بعد دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے اصل زقوم ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔

قرآنی ارشادات میں زقوم کا بیان اتنی وضاحت وصراحت کے ساتھ ہے کہ اگر اس کو موجودہ سائنسی تحقیقات اورعلم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ معلوم کرلینا دشوار طلب نہ ہوگا کہ قرآنی آیات کے نزول کے دور میں زقوم کا پودہ کیا تھا۔ زقوم کی بابت تین باتیں قرآنِ کریم میں بہت واضح کردی گئی ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس کا مزہ تیل کی تلچھٹ کا ہوگا جس کے کھانے کے بعد دوزخ میں رہنے والوں کے پیٹ میں آگ سی لگ جائے گی یعنی شدید جلن ہوگی، دوسرے یہ کہ شگوفے کچھ ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے کہ وہ شیطان کا سر ہوں، تیسرے یہ کہ چاروں آیات میں زقوم کا درخت (شجر زقوم) کہا گیا ہے، زقوم کا پھل نہیں بیان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سورۃ الصّٰفّت میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ درخت دوزخ کی تہہ سے نکلتا ہے۔

قرآن کریم کے مفسرین کی اکثریت نے زقوم کو تھوہڑ کی ذات کا پودا کہا ہے جو صرف قرینِ قیاس ہی نہیں بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی درست نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ تھوہڑ کادرخت پودوں کی اس جنس سے تعلق رکھتا ہے جس کو اُفوربیا (Euphorbia) کہتے ہیں۔

اس کی ایک ہزار سے زیادہ ذاتیں (species) دنیا کے مختلف علاقوں میں، خاص طور سے افریقہ اورایشیا کے گرم خطوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب کے سب تلخ اور زہریلی ہوتی ہیں اور ان سب سے ایک قسم کا دودھ (Latex) نکلتا ہے جو جم کر گوند کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

ہندوستان میں کئی درجن اقسام کے افوربیا پائے جاتے ہیں جن میں کافی Cactus نما ہوتے ہیں اور زیادہ تر مقامی زبانوں میں تھوہڑ، تھوریا، سیہنڈ کہلاتے ہیں۔ انہیں سے ملتے جلتے افوربیا عرب کے علاقے میں حجاز سمیت کئی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں ان کو لبین کہتے ہیں۔

اسی طرح افریقہ میں بھی اس کی بہت سی قسمیں ملتی ہیں اوران میں سے چند ایسی ہیں جو زہریلی ہونے کی بنا پر طبی اہمیت کی حامل ہیں لیکن اس سے قبل کہ اس تھوہڑ یعنی افوربیا کی نشاندہی کی جائے جو قرآنی ارشادات اوربیانات پر صحیح اترتا ہو، بہتر ہوگا کہ پہلے اس پودے کی تاریخی اور سائنسی اہمیت پر ایک نظر ڈال لی جائے۔

جوبا دوئم (King Juba II: 25 BC – 18 AD) موریطانیہ کا مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ اس نے اپنی سلطنت کے چٹانی اور پہاڑی علاقے میں ایک ایسے پودے کا پتہ لگایا تھا جو انتہائی خطرناک تھا۔ اس کے شگوفوں سے سفید دودھ نکلتا تھا جو اگر جسم کے کسی حصہ پر لگ جاتا تھا توزخم پیدا کردیتا، اوراگر کوئی شخص اس کی ایک معمولی مقدار کھالیتا تو پیٹ میں آگ سی لگ جاتی لیکن موت واقع نہ ہوتی۔ گویا کہ یہ ایک زہر ضرور تھا لیکن زہر ہلاہل نہیں۔

اس پودے پر جوبا دوئم نے ایک پوری کتاب لکھی ہے جو ابھی تک محفوظ ہے۔ اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ اس کا دودھ اتنا تیز ہوتا تھا کہ اس پر چیرا لگانے کے لئے احتیاط کے طور پر ایک لمبی لوہے کی چھڑی استعمال کی جاتی تھی تاکہ چیرا لگاتے وقت اس کا دودھ انسانی جسم پر نہ لگ جائے۔

جوبا نے اس پودے کا نام اپنے اُستاد افربس (Euphorbus) کے نام پر رکھا جواس کے دربار کا مشہور حکیم تھا اور یونانی نسل کا تھا۔ جوبا کے دریافت کئے ہوئے اس پودے نے بڑی شہرت حاصل کی اور یونانی طب میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔

حکیم جالینوس (200BC – 130AD) نے اس کی طبی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اسے مختلف امراض کے لئے دوا تجویز کیا۔ یونانی زبان میں اس کے دودھ کو یوفرویون (Euforvion) کہا جانے لگا اوربعد میں عربی زبان میں اس کے کئی نام دئیے گئے جیسے فربیون، فرفیون، فرفیوم اور فریبون۔

بو علی سینا (980 – 1037 AD) نے بھی اس کی طبی اہمیت کوتسلیم کیا لیکن یونان اورعرب کے حکیموں نے اس کوکم سے کم مقدار میں استعمال کرنے کی تاکید کی۔ بو علی سینا کے نزدیک اس کی ایک معمولی مقدار اسقاط حمل کا باعث بن سکتی ہے اورتین درم کی مقدار موت کا سبب ہوسکتی ہے۔

فرفیوم میں ایک خاص قِسم کا resin ہوتا ہے جس کا مزہ تیل کا سا کہا جاسکتا ہے۔ اس میں Euphorbol اور Ingenol نام کے مرکبات پائے جاتے ہیں جو اس پودے کا اصل زہر ہیں۔ اس کے علاوہ فرفیوم پیدا کرنے والے پودے میںاسٹارچ میں لعاب (Mucilage) ربر کی بھی خاصی مقدار موجود ہے۔ اسٹارچ اور یوفربال کی موجودگی کی بنا پر اسے ایک زہریلی غذا کہا جاسکتا ہے۔

سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں فرفیوم جس کو انگریزی میں Euphorbium کہا جانے لگا، سارے افریقہ، ایشیا اور یورپ میں دوا کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔ ساری دنیا میں اس کی فراہمی کا ذریعہ صرف مراکش تھا۔ جن امراض میں یہ استعمال میں لایا جاتا تھا ان میں چند یہ تھے:  عرق النساء، سر کا درد، زخموں کے لئے جراثیم کش دوا، سانپ کے کاٹے کا علاج۔

اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب ایلوپیتھک دواؤں کا استعمال قدرے عام ہونے لگا تواس خطرناک دوا کا استعمال انسانی امراض کے لئے محدود ہوگیا، لیکن جانوروں کے علاج میں اس کا استعمال جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو قبض ہوجائے تو فرفیوم اس کا بہترین علاج ہے۔

انیسویں صدی میں اس زبردست شہرت یافتہ جوباؔ کے پودے کانباتاتی نام (Euphorbia resinifera Berg) رکھا گیا اوراس کی بابت بتایا گیا کہ اس کا قدرتی علاقہ صرف مراکش ہے یعنی وہ خطّہ جو کسی زمانہ میں موریطانیہ کا حصہ ہواکرتا تھا۔

یوں تومراکش کا Euphorbia زمانہ قدیم ہی سے بہت مشہور ہوا لیکن ہندوستان، عرب اور دوسرے ممالک میں بھی اس کی نہ جانے کتنی اقسام اور ذاتوں (species) نے مقامی طور سے شہرت حاصل کی۔ لیکن ان سب کی حیثیت خطرناک پودوں اور تلخ دوا کی ہی رہی۔

ہندوستان کے گرم علاقوں میں اس کی کئی ذاتیں پائی جاتی ہیں جو زیادہ تر تھوہڑ یا سیہنڈ کہلاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں  :

E.trigona, E.caudifolia, E.nivulia, E.neriifolia, E.antiqurum, E.royleana

محی الدین شریف نے 1869ء میں ہندوستانی پودوں پر لکھی گئی اپنی کتاب میں E.antiquorum کو عربی میں زقوم، ہندی اور فارسی میں زقونیائے ہندی بتایا ہے۔ گویا کہ نباتات کے ماہر ہندوستانی تھوہڑ کو اصل زقوم سے ملتے جلتے پودے تصور کرتے تھے۔ عرب میں بھی کئی اقسام کے افوربیا تہامہ ہی میں نہیں بلکہ پورے جزیرہ نما میں پائے جاتے ہیں۔

ان میں سے کسی کو وہاں زقوم نہیں کہا جاتا ہے بلکہ سفید دودھ کی نسبت سے، جو ان سبھی پودوں سے نکلتا ہے، انہیں یا تو لبین کہتے ہیں یا پھر رمید وغیرہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ مصر میں ان کو رجلۃ ابلیس بھی کہتے ہیں جس کا مفہوم ہے شیطان کا ساگ۔ عرب اور مصر کے کچھ اہم افربیا مندرجہ ذیل ہیں :

E.arabica, E.Cactus, E.granulata, E.Cornuta, E.aegyptiaca

افربیا کے اشجار خواہ ہندوستان اورعرب میں پائے جاتے ہوں، خواہ افریقہ میں، یہ سب ہی زہریلے اورخاردار ہوتے ہیں۔ ان کے پھل چھوٹے اور بے مصرف ہوتے ہیں۔ ان میں تیل Resin لعاب (Mucilage) اور اسٹارچ کے ساتھ ساتھ ربر یعنی Polysioprene کی تھوڑی سی مقدار ضرور ہوتی ہے۔

انہیں اگر غذا کے طور پر کھایا جائے تو پیٹ میں شدید جلن پیدا ہوگی، جیسے جسم کے اندر پانی جوش کر رہا ہو اور اس کا اثر اسی وقت کم ہوسکتا ہے جب بہت سا پانی پی لیاجائے، گویا کہ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے سب ہی افربیا، زقوم کے قرآنی بیان پر پورے اترتے ہیں۔ خاص طور سے Cactus نما یعنی Dendroid گروپ افربیا جو دیکھنے میں کریہہ المنظر بھی ہوتے ہیں، لیکن سوال اس بات کا ہے کہ اصل زقوم ان میں سے کون ہوسکتا ہے؟

میں نے پہلی بار مراکش کا افربیا اس وقت دیکھا جب جون 1986ء میں جنوبی فرانس کے دورہ کے درمیان مجھے موناکوؔ (Monaco) جانے کا موقع ملا۔ یہ شہر ایک چھوٹی سی آزاد مملکت ہے جسے Monte Cario بھی کہتے ہیں۔ یہاں کاExotic Garden  ساری دنیا میں اپنے Cactus نما پودوں کے لئے مشہور ہے۔

میں نے اس گارڈن میں پہلی بار مراکش کا Euphorbia resinifera دیکھا جو دور سے ایک شیطان کے سر کا تصور پیش کر رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اپنے قدرتی ماحول میں یعنی مراکش میں، اس پودے کے شگوفے Stems ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں اورایک گول دائرہ بناتے ہیں جن کا قطر دو گز تک ہوتا ہے۔ یہ پودہ مراکش میں چھوٹی چھوٹی چٹانوں کی تہوں میں اس طرح اُگتا ہے کہ اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو معہ جڑ کے باہر آجاتا ہے۔

اب اگر اس پودے کا تقابل ہندوستان کے تھوہڑ یا عرب کے لبین سے کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ یوں تو دیکھنے میں افربیا کے Dendroid پودے سب ہی ڈراؤنے اوروحشت ناک ہوتے ہیں لیکن مراکش کا افربیا شیطان کا سب سے زیادہ تصور پیش کرتا ہے۔ تصدیق ان تصویروں سے کی جاسکتی ہے جو زیر نظر مضمون کے ساتھ دی گئی ہیں۔

اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ قرآن پاک کے نزول کے زمانے میں عرب کے اطبّاء اور مفکّر یونان کے عطا کردہ نباتاتی اور طبی علم کے ذریعہ مراکش کے افربیا سے ضرور واقف رہے ہوں گے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں اس کا ذکر زقوم کے نام سے کیا گیا جس کے دودھ کو فرفیوم (عربی زبان میں فربیوم) کہا جاتا تھا۔

مراکش کا زقوم ایک شیطانی شکل پیش کرتا ہے اور انتہائی تلخ ہوتا ہے، نیز تیل کی تلچھٹ کا مزہ دیتا ہے یعنی اس کو کھانے والا شدید قسم کی بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس بے چینی میں کمی اسی وقت آسکتی ہے جب بہت سا پانی پیا جائے۔ دوسری جانب اس کے اُگنے کی جگہیں چھوٹی چھوٹی چٹانوں کی تہیں ہیں۔ زقوم کی بابت یہ ساری باتیں قرآن مجید کی چار آیات میں ارشاد ہوئی ہیں۔

ان سائنسی حقائق اور قرآنی ارشادات کی روشنی میں راقم السطور کی نظر میں مراکش کا افربیا (افربیوم کا ذریعہ) اصلی زقوم ہوسکتا ہے اوراس کوجہنمی لوگوں کی غذا کہنا ہر اعتبار سے انتہائی عبرت انگیز ہے۔

مولاناعبدالماجد دریا بادی نے جس حنظل کو زقوم سے منسوب کیا ہے وہ اصل میں اندرائین Citrullus colocynthus نام کا پھل ہے جو انتہائی کڑوا ہوتا ہے۔ لیکن قرآن میں چاروں مرتبہ زقوم کے درخت کودوزخیوں کی غذا کہا گیا ہے نہ کہ زقوم کے پھل کو۔ لہٰذا زقوم کوحنظل کہنا صحیح نہیں ہے۔

ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ حنظل وہ پھل ہو جس کو سورہ غاشیہ (آیت نمبر6) میں ضریع کہا گیا ہے جس کی بابت ارشاد ہوا ہے کہ وہ نہ تو جہنم کے رہنے والوں کی بھوک مٹائے گا اور نہ ہی کوئی مزہ دے گا۔

تھوہڑ یعنی افربیاؔ کے جہنمی پودوں کو عام طور سے لوگ گھروں میں لگانا معیوب سمجھتے ہیں جو سائنسی اعتبار سے ایک معقول طرز عمل ہے کیونکہ افربیا کے پودے اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ ان تک کسی کی رسائی، خاص طور سے بچوں کی قربت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ اس سے نکلے ہوئے دودھ کے چھینٹے پڑنے سے آنکھ کی روشنی تک جاتی رہتی ہے۔ جبکہ آبلہ یا زخم ہوجانا معمولی بات ہے۔ راجستھان کے گاؤں وقصبات میں کافی واقعات ہوتے ہیں جن میں اس کے دودھ کے غلطی سے آنکھ میں لگ جانے سے لوگ اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بعض علاقوں میں جان بوجھ کر جانوروں کواندھا کرنے کے لئے زقوم ہند کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ تحقیق سے اس بات کا بھی علم ہوا ہے کہ بعض یوفربیا کے پودے انسانی جسم میں کینسر پیدا کرتے ہیں، اسی لئے ان کو Carcinogenic کہا جاتا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ تھوہڑ Cactus نُما ضرور ہوتے ہیں لیکن اصل Cactus نہیں ہوتے ہیں اورنہ ہی ان کا تعلق Cactaceae خاندان سے ہوتا ہے۔ تھوہڑ کا خاندان Euphorbiaceae ہے۔ تھوہڑ کی جنس کے سارے پودے زہریلے ہوتے ہیں جب کہ Cactus جنس کے پودوں میں کانٹے تو ہوتے ہیں لیکن زہریلا دودھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ قرآنی ارشادات کی رو سے اصل Cactus کودوزخی پودے کہنا صحیح نہیں ہے۔

افربیا کے Dendroid پودے بڑے سخت جان سمجھے جاتے ہیں۔ یہ شدید گرمی میں بھی خوب بڑھتے اور نشو ونما پاتے ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کے وہ ریگستانی اور چٹانی علاقے جہاں قیامت کی گرمی پڑتی ہے، وہاں افربیا کے پودے ہرے بھرے دکھلائی دیتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک سائنس داں نے ایک تلخ حقیقت اور سچائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انسان مادّی ترقی کرتا ہوا موجودہ تیزی سے تباہی وبربادی کی جانب گامزن رہا تو کچھ دیر نہیں ہے کہ کیمیاوی اور نیو کلیائی جنگوں کے بعد یہ سرزمین ایک دوزخ کے مانند ہوجائے۔ اس وقت ہریالی کے نام پر اگر کچھ بچ رہے گا تو وہ ہوں گے افربیا کے درخت یعنی شجر ملعونہ۔ یعنی زقوم۔

(ماخذ: نباتات قرآن ۔ ایک سائنسی جائزہ، از ڈاکٹر اقتدار فاروقی، لکھنئو)

تأثرات:

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی:

بعض پودوں کے تشخص میں ڈاکٹر فاروقی نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدرؔ اور کافور کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی اور مفید باتیں لکھی ہیں۔

مولانا محمد رابع حسنی ندوی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ:

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی صاحب نے قرآن مجید میں بتائی ہوئی متعدد اشیاء کے سلسلے میں بہت عالمانہ تحقیق کی ہے اور ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں اور قرآن مجید نے جو بعض گہرے حقائق بتائے ہیں، ان سے دھندلکے کاپردہ اٹھ جاتا ہے۔ سدرہ، کافور اور زقوم کی تحقیق اس سلسلے میں خاص طور سے بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔

مولانا ڈاکٹر کلب صادق مرحوم، سابق نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ:

میں اس کتاب کے مطالعہ سے بہت متاثر ہوا۔ میرے خیال میں اس موضوع پر کوئی کتاب ابھی تک اس عنوان سے تحریر میں نہیں ہے یا کم از کم میرے زیر مطالعہ نہیں آئی ہے۔ کتاب کا اسلوب خالص تحقیقی ہے اور مصنف نے اس میں اتنی جفاکشی اور تندہی کی ہے جو بغیر ’’عشق‘‘ کے مشکل ہے۔