مذہب

قانون شریعت اور انسانی قانون کے درمیان بنیادی فرق

’’مؤرخہ ۳۰؍۳۱؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے کانفرنس ہال میں ایک منفرد نوعیت کا پروگرام منعقد ہوا، جس میں ہندوستان بھر سے ان وکلاء یا وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جمع کیا گیا ، جو دینی مدارس کے فارغین ہیں، اور ان کا دو روزہ تربیتی پروگرام رکھا گیا، جس میں مربی کی حیثیت سے زیادہ تر سپریم کورٹ کے وکلاء کا خطاب ہوا،

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۱)
’’مؤرخہ ۳۰؍۳۱؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے کانفرنس ہال میں ایک منفرد نوعیت کا پروگرام منعقد ہوا، جس میں ہندوستان بھر سے ان وکلاء یا وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جمع کیا گیا ، جو دینی مدارس کے فارغین ہیں، اور ان کا دو روزہ تربیتی پروگرام رکھا گیا، جس میں مربی کی حیثیت سے زیادہ تر سپریم کورٹ کے وکلاء کا خطاب ہوا، راقم الحروف نے اس موقع سے زبانی صدارتی خطبہ پیش کیااور حاضرین کی خواہش پر اس کا موضوع ’’الہامی قانون اور وضعی قانون کے درمیان فرق‘‘ رکھا گیا، جو موجودہ حالات میں جب کہ قانون شریعت کو فرسودہ قرار دیا جا رہا ہے، اس میں تبدیلی کی بات کہی جا رہی ہے اور ملک میں UCC کے لئے فضا ہموار کی جا رہی ہے، قانون سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، طلبہ اور اہل دانش کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے؛ اس لئے اس زبانی اور برجستہ خطاب کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے‘‘ (رحمانی)

قانون شریعت اور دوسرے قوانین کے درمیان تین بنیادی فرق ہیں:پہلا فرق یہ ہے کہ قانون شریعت میں قانون کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، دوسرے قوانین میں خود انسان کی عقل یا خواہش کو قانون کا سرچشمہ مانا گیا ہے، دوسرا فرق یہ ہے کہ قانون شریعت انسانی فطرت پر مبنی ہے نہ کہ انسانی خواہش پر، اور مروجہ قوانین کی بنیاد انسانی خواہش پر ہے، تیسرا فرق یہ ہے کہ شریعت میں اصل اہمیت عدل کی ہے، یعنی تمام طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے، کبھی مساوات اور برابری عدل کا تقاضا ہوتا ہے، اس وقت برابری بھی ضروری ہوگی، اور کبھی عدل کا تقاضا ہوتا ہے کہ تمام لوگوں پر برابری کے ساتھ اس کا اطلاق نہیں کیا جائے؛ بلکہ فرق کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے، ایسے موقع پر شریعت مساوات کے بجائے عدل کا راستہ اختیار کرتی ہے۔

ان میں سے پہلے نکتہ کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے:إن الحکم إلا اللہ (انعام: ۵۷) جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے، وہ سچائی اور انصاف پر مبنی ہے، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی: وتمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلمٰتہ وھو السمیع العلیم (انعام: ۱۱۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ آپ اس قرآن کے بجائے کوئی دوسرا قرآن لے آئیں، یا اس میں کچھ تبدیلیاں کر دیجئے، اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے کہلوایا کہ خود مجھ کو بھی اس میں کسی تبدیلی کا حق نہیں ہے: قل ما یکون لي أن ابدلہ من تلقاء نفسي (یونس: ۱۵)

اسی لئے شریعت کا اولین ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول ہے، جو حکم قرآن مجید میں ایسے واضح الفاظ میں آیا ہو کہ اس میں کسی دوسرے معنٰی کا احتمال نہ ہو،یا ایسی معتبر حدیث میں آیا ہو جس کے ثابت ہونے میں کوئی شک نہیں ہو، وہ قطعی ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی؛ البتہ جس حکم کی بنیاد کسی خاص زمانہ کی مصلحت پر ہو، جو بعد میں بدل گئی ہو تو اس حکم میں بدلاؤ ہو سکتا ہے، یا جو حکم کسی خاص زمانہ کے عرف اور رواج کی وجہ سے دیا گیا ہو اور وہ عرف بدل گیا ہو، یا جس حکم کی قرآن وحدیث میں صراحت نہ ہو اور وہ اجتہادی مسئلہ ہو، جس میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھ کر غور وفکر کر کے کوئی رائے قائم کی گئی ہو تو ایسے احکام میں امت کے فقہاء اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کوئی تبدیلی کر سکتے ہیں؛ مگر یہ حقیقت میں تبدیلی نہیں ہوگی؛ بلکہ دو مفاہیم میں سے ایک کو ترجیح دینا اور اپنے زمانے کے لحاظ سے شریعت کے حکم کو منطبق کرنا ہوگا، اس کی بہت سی مثالیں فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے اس کو آگے بیچنے سے منع فرمایا (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۲۳)

ابتدائی دور میں کسی چیز کو قبضہ میں لینے کا ایک ہی مفہوم تھا اور وہ تھا اس چیز کو محسوس طور پر اپنے قبضہ میں لے لینا؛ لیکن پھر ایسی چیزیں وجود میں آئیں کہ جن کا فیزیکل قبضہ دشوار تھا، تو قبضہ کی حقیقت متعین کرنے میں معنوی قبضہ کو بھی شامل کیا گیا، یہاں تک کہ موجودہ دور میں جب کہ شیئر کی بڑے پیمانہ پر خریدوفروخت ہوتی ہے اور سوائے اس کے کہ خریدار کے اکاؤنٹ میں خریدی ہوئی شیئر کی مقدار درج ہو جاتی ہے، سامان پر قبضہ کی کوئی اور علامت نہیں ہوتی ہے، تو موجودہ دور کے اہل علم نے رِسک(Risk)کی منتقلی کو قبضہ کے لئے کافی قرار دیا ، یعنی جب شیئر خریدار کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے اور قیمت بڑھنے کا فائدہ اور قیمت گرنے کا نقصان اس کو برداشت کرنا پڑے تو سمجھا جائے گا کہ قبضہ کا تحقق ہوگیا، یہ دراصل حکم میں تبدیلی نہیں ہے؛ بلکہ کسی حکم کو منطبق کرنے میں بدلے ہوئے طریقۂ کار کو قبول کرنا ہے۔

اس کے برخلاف دنیا کے مروجہ قوانین میں قانون کا سرچشمہ انسان کو قرار دیا گیا ہے، کہیں مطلق العنان بادشاہ یا ڈکٹیٹر کے حکم کو قانون مانا جاتا ہے، کہیں جمہور یعنی اکثریت کے فیصلے سے قانون بنتا ہے، کہیں عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ قانون بنایا جاتا ہے، ان تمام صورتوں میں انسان کو حق دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنے لئے قانون بنائے؛ اس لئے انسان اپنی خواہش کی بنیاد پر قانون بناتابھی ہے اور بدلتا بھی ہے، قرآن مجید نے کہا کہ قانون کی بنیاد محض انسانی خواہشات کو نہیں بنایا جا سکتا : ولا تتبع أھوائھم (شوریٰ: ۱۵) یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات میں کہی گئی ہے (نساء:۱۳۵، ۲۶)

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا نقطۂ نظر زیادہ درست ہے؟ غور کیا جائے تو قانون بنانے والی اتھارٹی کے لئے دو باتیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ وہ جن لوگوں کے لئے قانون بنا رہا ہے، وہ ان کی مصلحتوں اور مضرتوں سے پوری طرح واقف ہو، اور ان کے نفع وضرر کا مکمل علم رکھتا ہو، دوسرے: وہ ان تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کر سکتا ہو، وہ کسی ایک گروہ کی طرف جھکاؤ کا شکار نہ ہو؛ ورنہ وہ تمام لوگوں کے درمیان انصاف سے کام نہیں لے سکتا، وہ اکثریت کے مفاد کو مقدم رکھنے کی کوشش کرے گا، اپنے ہم نسلوں کے فائدہ کو سامنے رکھے گا اور دوسروں کو نظر انداز کرے گا، علم وعدل کا یہ کمال کائنات کے خالق کے اندر ہی ہو سکتا ہے؛

کیوں کہ جب اس نے انسان کو اور اس کے گرد بچھی ہوئی کائنات کو پیدا کیا ہے تو یقینی طور پر وہ اس بات سے واقف ہوگا کہ انسان کے لئے کون سی چیز اور کون سا عمل فائدہ مند ہوگا اور اس کے بالمقابل کون سی چیز اور کون سا عمل نقصان دہ ہوگا، اسی طرح تمام انسان اس کے بندے ہیں اور بندہ ہونے کی نسبت میں سب برابر ہیں؛ اس لئے کائنات کے خالق کے بارے میں اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حکم عدل وانصاف پر، تمام لوگوں کی مصلحت وضرورت کی رعایت پر اور غیر جانبداری پر مبنی ہوگا، اگر قانون کی لگام ایک شخص کے ہاتھ میں دے دی جائے تو اس سے ہٹلر اور مسولینی جیسے فرمانروا پیدا ہوں گے، اور اگر ملک کے اکثریتی طبقہ کے ہاتھ میں قانون سازی کی لگام دے دی جائے تو اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوگا؛ کیوں کہ ایک فرد ہی نہیں بلکہ ملک کی بہت بڑی تعداد ڈکٹیٹر بن کر کھڑی ہو جائے گی اور وہ اقلیتوں کو پیس ڈالے گی، جس کی واضح مثال اس وقت اسرائیل میں دیکھی جا سکتی ہے، اور جس کے نقش قدم پر بدقسمتی سے ہمارا وطن عزیز بھی آگے بڑھ رہا ہے، جہاں فوج، عدالت، انتظامیہ یہاں تک کہ میڈیا سبھوں کو حکومت نے اپنے پنجۂ استبداد میں لے لیا ہے۔

اس لئے اسلام کا تصور یہ ہے کہ قانون بنانے کا اصل حق کائنات کے خالق ومالک کو ہے، اس کو اپنے بندوں میں سے ایک ایک سے پیار ہے، وہ اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک سے محبت رکھتا ہے، اس کی محبت ستر ماؤں سے بڑھ کر ہے اور اس کا علم ایسا ہے کہ کائنات کی کوئی چیز اس کی نگاہ سے مخفی نہیں ہے، اور اس کی خاص صفت انصاف ہے، اس نے اپنی کتاب میں بار بار اپنی صفت عدل کا ذکر کیا ہے؛ اس لئے جہاں اللہ کا حکم موجود ہو چاہے وہ قرآن مجید میں ہو یا حدیث میں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے منشا خداوندی کی ترجمانی ہے، وہاں وہی انسان کے لئے درست راہ عمل ہے ،ہاں جو احکام قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوں؛ بلکہ فقہاء کے اجتہاد اور کسی خاص عہد کی مصلحت پر مبنی ہوں، ان میں گنجائش ہے کہ احوال کی تبدیلی کی وجہ سے حکم میں بھی تبدیلی کی جائے۔

(جاری)