جنوبی بھارتسوشیل میڈیا

ایران میں پھنسے والد کی واپسی کیلئے مرکزی حکومت سے 9سالہ لڑکی کی درخواست

ایک 9سالہ لڑکی نے حکومت ہند سے اپیل کی ہے کہ وہ والد کی ایران سے واپسی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔لڑکی نے اپنے والد کی واپسی کا انتظارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہم سے دور ہیں۔ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہمارے پاس آجائیں۔

تراونتاپورم: ایک 9سالہ لڑکی نے حکومت ہند سے اپیل کی ہے کہ وہ والد کی ایران سے واپسی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔لڑکی نے اپنے والد کی واپسی کا انتظارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہم سے دور ہیں۔ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہمارے پاس آجائیں۔

متعلقہ خبریں
ایک شخص نے سوتیلے بھائیوں اور خاندان کے 12ارکان کو ہلاک کردیا
ہم لوگ صرف اپنی دفاعی ٹریننگ کی وجہ سے زندہ رہ سکے
سب کو ساتھ لے کر چلنے والی حکومتیں ضروری : مودی
ایران میں اسلامی انقلاب کی 45 ویں سالگرہ
’ایران اور پاکستان کو کوئی اور لڑارہا ہے‘

حکومت ہند کو اس طرح کی درخواست پیش کرتے ہوئے لڑکی نے حالات سے واقف کروایا اور کہا کہ ان کے والد جوکہ یونیورسٹی آف کیرالا میں پوسٹ ڈاکٹرول فیلو ہیں اور بیرونی ملک دو سال سے بھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ویزا کی اجرائی میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔

لڑکی نے کہا ہے کہ اگر وہ واپس آجائیں تو ہمارے لئے انتہائی خوشی کا باعث ہوگا۔گلاب میر رحمانیہ جوکہ ایک پوسٹ ڈاکٹرول فیلو ہیں اور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی سے وابستہ ہیں 2020 میں افغانستان گئے تاکہ اپنے ویزے کی تجدید کروائی جاسکے اور اپنے پوسٹ ڈاکٹرول ریسرچ کے تعلق سے ڈاٹا جمع کیا جاسکے۔

یہ ان کیلئے بدبختی رہی کہ امریکہ کی افواج وہاں 2001سے موجود تھی اور 2020سے امریکی فوج کی واپسی شروع ہوئی جس کے بعد طالبان نے ملک پر اقتدار حاصل کیا۔ ویزا کی تجدید ایک معمول کا عمل سمجھی جاتی ہے لیکن گلاب میر رحمانیہ کے خاندان کیلئے یہ مشکل مسئلہ بن گئی کیونکہ حکومت ہند نے ایسے افراد کے ویزے منسوخ کردئے جوکہ افغانستان میں سیاسی منظر کی تبدیلی کے دوران وہاں موجود تھے۔

اس لئے وہ وہاں پھنس گئے۔ہندوستان کی واپسی ان کے لئے مشکل ہوگئی۔انہوں نے براہ ایران ہندوستان واپس ہونے کی بھی کوشش کی لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ ویزا کے حصول کیلئے تقریبا ایک سال سے تہران میں انتظار کر رہے ہیں۔گلاب میر رحمانیہ نے بتایا ہے کہ میری تحقیق کا تعلق افغانستان سے تھا اس لئے میں ڈاٹا کلشن کیلئے وہاں گیا تھا۔اس کے علاوہ مجھے ویزا کی تجدید بھی کرنی تھی تاہم سیاسی صورتحال بدل گئی اور میں وہاں پھنس گیا۔

مجھ کو ایران کا ویزا ملا جس کے بعد میں وہاں چلے گیا تاکہ وہاں سے ہندوستان واپس ہوسکوں لیکن میں تقریبا ایک سال سے ایران میں پھنسا ہوا ہوں کیونکہ ہندوستان کے سفارتخانہ کی جانب سے مجھے ویزا اجراء کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ایران سے خبررساں ادارہ پی ٹی آئی کے نمائندے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات بتائی۔ انٹرنیٹ کی کارکردگی ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے واٹس اپ کال بھی بعض اوقات نہیں ہوتا۔

پروفیسر سابو زوزف جو کہ یونیورسٹی کے سینٹر برائے گلوبل ایکیڈیمکس(سی جی اے) کے ڈاکٹر ہیں اور وہ گلاب میر رحمانیہ کے حالت سے واقف ہیں کہا کہ وہ بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں جبکہ ان کا خاندان شریک حیات اور تین بچوں کیلئے یہاں انتہائی مشکل اور صبر آزما صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔رحمانیہ کی شریک حیات زمزمہ جوکہ یونیورسٹی آف کیرالا سے فیزکس میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں کہا کہ انہیں بچوں کی ضروریات کی تکمیل کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں کیونکہ ان کے شوہر دوسال سے دور ہیں۔

وہ افغانستان گئے اور وہاں سے ایران میں پھنسے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے کووڈ19- بھی ہوگیا تھا اور میں گھر پر کورنٹین رہی۔ میرے بچوں کے دیکھ بھال کیلئے کوئی نہیں تھا۔مجھے تمام ذمہ داریاں سنبھالنی پڑی۔جبکہ کبھی ضرورت ہو بچوں کو دواخانہ لیجایا گیا۔ اس کے علاوہ دوسری ضروریات کی بھی تکمیل کرنی پڑی۔اس کے ساتھ میں اپنی اسٹیڈیز بھی جاری رکھی۔انہوں نے کہا کہ میں گھر سے ریسرچ نہیں کرسکتی کیونکہ مجھے لیاب کا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔اس لئے ہم انتہائی مشکل اور صبر آزما دور سے گز ر رہے ہیں۔

میری صحت بھی بعض اوقات ٹھیک نہیں رہتی۔انٹر نیٹ مناسب نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سے بات بھی نہیں کرسکتے۔ہماری والدہ تمام ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتی۔اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ والد بعجلت ممکنہ والد ہمارے پاس آجائیں تاکہ ہم ہنسی خوشی کی خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ گلاب میر رحمانیہ کی 9سالہ لڑکی نے حکومت ہند سے درخواست کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔

اس دوران زمزمہ نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ وہاں واپس نہیں ہوسکتی اور میری مدد کیلئے کوئی نہیں ہے۔اسکالر شپ کے تحت مجھے جو رقم ملتی ہے،میرے خاندان کی دیکھ بھال کیلئے کافی نہیں ہوتی اور میں والدین کے علاوہ رشتہ داروں کی مقروض ہوگئی ہوں۔ گلاب میر رحمانیہ جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ہے‘اب تہران میں مالی مشکلات کا شکار ہے۔

افغانستان میں موجود ان کے خاندان کی جانب سے روانہ کردہ رقم سے اخراجات پوری کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں حکومت ہند سے کئی بار درخواستیں کی گئیں اور ای میل بھی روانہ کرنے کے علاوہ عہدیداروں سے بھی بات چیت کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کیرالا پینارائی وجئے این سے بھی ملاقات کی جنہوں نے مرکزی حکومت کی توجہ مبذول کروائی لیکن کوئی تشفی بخش نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔انہوں نے حکام سے درخواست کی ہے کہ ایک اسکالر کی حیثیت سے ویزا اجراء کیا جائے تاکہ وہ ہمارے پاس واپس ہوسکیں۔