طنز و مزاحمضامین

شاعر اور شاعری

شوکت تھانوی

یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم خدانخواستہ شاعر نہیں لیکن اس شاعر ہونے سے تو نا شاعر ہونا اچھا تھا کہ آج تک ہم اپنی اور اپنے قسم کے دوسرے انسانوں کی فطرت کو خود نہیں سمجھ سکے کہ ہم لوگوں کے دماغ میں کونسی خرابی ایسی ہوجاتی ہے جس سے ہم شاعر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جہاں تک مصرع موزوں کرنے اور ایک مصرع پر دوسرا مصرع لگانے کا تعلق ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاعری ایک مستقل فن ہے اور شاعر کچھ بھی ہو لیکن اس فن کا ماہر ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کامل ہونے کے بعد دوسرے علوم و فنون کے ماہر تو چاہے صرف سنک جاتے ہوں لیکن شاعر کا دماغ دنیاوی نقطہ¿ نظر سے قطعاً قابل رحم ہوجاتا ہے۔ اس کی دنیا ہی دوسری ہوجاتی ہے، وہ آسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر خود بخود گردن ہلاتا ہے‘ اشارے کرتا ہے‘ ہنستا ہے‘ مسکین چہرہ بناتا ہے‘ اکڑ جاتا ہے‘ غضبناک ہوتا ہے‘ مظلوم صورت بناتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کو جو کچھ بننا ہوتا ہے، اکیلا بیٹھا بجائے خود بناکرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ کر ہنستے ہیں۔افسوس کرتے ہیں اور خدا سے توبہ کرتے ہیں کہ جو جس کو چاہے بنادے۔ اب تو شاعروں کی کثرت سے یہ حال ہوگیا ہے کہ جہاں کہیں راستہ گلی میں کوئی عجیب الخلقت انسان نظر آیا اور اس کی وضع قطع میں مخبوط الحواسی کے آثار پائے گئے بس اس کے متعلق بغیر کہے سنے شاعر ہونے کا یقین اس طرح کرلیا جاتا ہے گویا اس قسم کی شکل و صورت کے انسان کا شاعر ہونا برحق ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ تحقیقات کے بعد وہ حضرات یا تو شاعر نکلتے ہیں ورنہ افیونی ضرور برآمد ہوتے ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی نہیں ہوتے تو ان کا انسان ہونا ذرا مشکوک ہوجاتا ہے۔
معلوم نہیں اس شاعری میں کون سی ایسی نحوست ہے کہ ہزار دو ہزار آدمیوں میں ایک شاعر دور سے پہچانا جاتا ہے۔ نحوست ہوتی تو ضرور ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ شاعری منحوس ہے ہماری زیادتی ہوگی ہم چاہے شاعر ہوں یانہ ہوں لیکن کہیں گے صاف صاف خدا لگتی چاہے کوئی برا مانے یا خوش ہوکر ہم کو بھی سر اقبال کی قسم کا سرشوکت شاعر بنادے۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ صرف شاعری کو منحوس نہیں کہا جاسکتا بہت ممکن ہے کہ شاعری بھی منحوس ہوتی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس فن لطیف کو منحوس حضرات کا طبقہ اختیار کرتا ہو اور اُن ہی حضرات کے فیض سے ہماری شاعری میں نحوست آجاتی ہو۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس شاعری کے باوا آدم یعنی دنیا کے سب سے پہلے شاعر کچھ عجیب و غریب قسم کے انسان تھے جن میں وہ تمام خوبیاں جو آج تمام دنیا کے شاعروں میں تقسیم ہوگئی ہیں‘ یکجائی طور پر موجود تھیں۔ مثلاً کبھی نہ بنی ہوئی حجامت‘ کبھی نہ کٹے ہوئے ناخن‘ کبھی نہ منجھے ہوئے دانت‘ کبھی نہ دُھلا ہوا رُخ روشن‘ کبھی نہ بدلے ہوئے کپڑے اور پھر ان کپڑوں کے زیب تن کرنے کی یہ شان کہ ٹانگوں میں کرتہ پہن لیا ہے تو خوش‘ گلے میں پاجامہ ڈال لیا ہے تو خوش‘ داہنے پیر کا جوتا بائیں پیر میں ہے اور بائیں پیر کے جوتے کی جگہ کسی کی کھڑاﺅں مل گئی ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی تک ہی نہیں وہ تو کہئے کہ خود انگریزوں کے یہاں بھی شاعر پیدا ہوگئے تھے۔ ورنہ یہ ہندوستان کے تمام پاگل خانے ہمیشہ آل انڈیا مشاعرہ بنے رہتے۔ مگر صاحب جہاں تک غور کیا ہے یہ شاعری کی آن بان شان انگریز شاعروں میں تو ہے ہی نہیں معلوم نہیں وہ لوگ پاﺅں میں پتلون اور ہاتھوں میں کوٹ پہننے کے بعد بھی کس طرح شاعر بنے رہتے ہیں‘ مگر دیکھئے ناکہ وہی فرق ان کی شاعری میں بھی ہے کہ نہ ہجر و وصال ہے نہ گل و بلبل نہ زلف و شانہ ہے نہ صیاد گل چیں، بس یہ کہہ دیا کہ ‘ ہوا کو کس نے دیکھا ہے نہ میں نے نہ تم نے‘ لیکن جب درخت اپنی گردن جھکالیتے ہیں تو ہوا گزرتی ہوئی ہوتی ہے‘ سبحان اللہ کیا شعر فرمایا ہے کہ ”مکررارشاد“ کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ اب تو غالباً فیصلہ نامناسب اور غیر منصفانہ نہ ہوگا کہ انگریزوں کے یہاں کی شاعری منحوس ہے اور معاف کیجئے گا کہ ہمارے یہاں کے …. اچھا ہم کچھ نہیں کہتے ورنہ ہماری برادری والے سب خفا ہوجائیں گے اور کوئی مشاعرہ کا کارڈ بھی نہ بھیجے گا۔ حالانکہ ہم موجودہ دور کے شعراءکے متعلق تو کچھ لکھ ہی نہیں رہے ہیں۔ اس لیے کہ آج کل کے تمام اُردو شعراءہر حیثیت سے انگریزی شاعروں کی طرح ہوگئے ہیں اور ان میں وہ شان ہی باقی نہیں رہی ہے جو مشرقی شعراءکے لیے مخصوص تھی بس آدھ نمونے نظر آجاتے ہیں جن کے بعد مشرقی شاعروں کی اصلی شکل و صورت کا تو بس خاتمہ سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم موجودہ دور کے شعرا کے متعلق کچھ لکھتے تو سب سے پہلے ہم کو کم از کم اخلاقاً یہ چاہیے تھا کہ اپنے کو منحوس، عجیب الخلقت‘ مخبوط الحواس وغیرہ فرض کرتے لیکن ہم یہ فرض کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں اور اگر فرض کرلیں تو یہ ہماری منکسر مزاجی ہوگی لیکن عوام کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔معلوم نہیں وہ ہم کو بھی شاعر سمجھ کر کیا سمجھ بیٹھیں۔
اس زمانے کے شاعرلاکھ گئے گزرے سہی مگر پھر بھی شاعر ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلے شعراءکے یہاں حقہ کا پانی تبدیل کرنا کفر تھا تو اب جائز ہے کہ سال دو سال کے بعد اگر بدل دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پہلے شاعروں کے یہاں حجامت کی مدہی غائب تھی‘ لیکن اب برس چھ مہینہ میں حجاموں کو کچھ نہ کچھ ان لوگوں سے بھی مل جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ بہت انقلاب ہوچکا ہے، بس اب اس کو حد سمجھئے کہ بہت سے شاعر سوٹ تک پہننے لگے ہیں اور اس کے باوجود ”علامہ“ ”سر“ اور اسی قسم کے موٹے موٹے بڑے بڑے خطابوں والے شاعر ہیں، لیکن جہاں تک شاعرانہ اداﺅں کا تعلق ہے وہ سب ان فیشن ایبل شاعروں میں بھی موجود ہیں واللہ آپ کو یقین نہ آئے گا کہ یہ بظاہر صاحب بہادر بنے ہوئے لوگ جس وقت تنہائی میں مصرع پر مصرع لگانے بیٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی سخت قسم کا دورہ اُٹھا ہو‘ اور معلوم نہیں ان پر کیا تکلیف گزررہی ہے۔ غور و فکر کی حالت میں ہر شخص کے چہرے پر اُتار چڑھاﺅ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن ان لوگوں کے چہرے پر تو وہ اُتار چڑھاﺅ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو نشیب و فراز کہا جائے، مدد جزر کہا جائے یا جوار بھاٹا‘ عام طور پر متین سے متین انسان آئینہ دیکھنے کے وقت اور بچوں کو کھلانے کے وقت عجیب مضمک شکل کا انسان ہوجاتا ہے اور عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، لیکن شاعر شعر کہتے وقت سب کو مات کردیتا ہے، کبھی گردن ٹیڑھی کرکے آنکھیں چھوٹی کیے اس طرح بیٹھتا ہو گویا اب جھپٹے گا۔ کبھی اچھے خاصے چہرے میں سینکڑوں شکنیں پیدا کرکے اس طرح ہاتھ اُٹھاتا ہے گویا نہایت بیدردی سے روح قبض کرنے کا ارادہ ہے۔ کبھی آہ سرد بھر کر ایسے گردن لٹکا لیتا ہے کہ دیکھنے والے کا بھی کلیجہ پھٹ جائے کبھی آسمان کو اس حسرت ویاس سے دیکھتا ہے کہ اگر ہم آسمان ہوتے تو یقینا ہٹ جاتے۔ کبھی گردن ہلا کر اپنے زانو اس طرح پیٹتا ہو کہ گویا کسی مہیب انتقام کا ارادہ کرچکا ہے۔ کبھی آنکھیں نکال کر اس غصہ سے زمین کو دیکھتا ہے کہ اگر کسی انسان کو دیکھ لے تو اس کا بچنا مشکل ہوجائے کبھی سرپہ ہاتھ رکھ کے اس طرح آنکھیں بند کرلیتا ہے گویا ایک حسین بیوہ اپنے مرحوم شوہر کے خیال میں کھو گئی ہے۔ کبھی مسکرا کر اس طرح پہلو بدلتا ہے کہ ہزار جان سے عاشق ہوجانے کو جی چاہتا ہے کبھی اپنی نگاہوں کے ساتھ انگلیوں کو وہ بے معنی جنبش دیتا ہے جس کو شاید ”سارے گاما پادھانی“ کے ماہر اور ہارمونیم وغیرہ کے اُستاد سمجھ سکیں، ہم تو کچھ نہیں سمجھ سکتے۔غرضکہ ایک غزل کہنے میں اس کا چہرہ اسقدر مختلف رنگ بدلتا ہے کہ دیکھنے والے کی نگاہوں کے سامنے ہر شکل صورت کے مردوں عورتوں چرندوں‘ پرندوں اور درندوں کی زندہ تصویر پھر جاتی ہے اور وہ شاعر کے چہرے میں کائنات کو متحرک دیکھتا ہے۔
شعر کہنا دراصل ایک قسم کی ورزش ہے اور شعر پڑھنا تو کسی طرح کشتی لڑنے سے کم نہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس وقت کوئی شاعر مشاعرے میں اپنی غزل پڑھنے جاتا ہے۔ اس کی ایک ایک ادا اُس کے ان کی سی ہوتی ہے جو دنگل میںکشتی لڑنے جارہا ہو اور جب مشاعرہ میں اس کے پڑھنے کی باری آتی ہے تو وہ بالکل اس طرح پینترا بدل کر بیٹھتا ہے گویا ایک دیوزاد قوی ہیکل رستم زماں پہلوان لنگوٹ کس کر ”یا علی“ کا نعرہ بلند کرکے اکھاڑے میں آیا ہو۔ جب وہ غزل شروع کرتا ہے تو اس کے ساتھی ”سبحان اللہ“ اور ”مکرر ارشاد“ کا شور غل بھی اس طرح مچاتے ہیں جس طرح دنگل میں ہر پہلوان کے طرف دار ”ٹانگ مار“ اور ”مچھلی غوطہ“ وغیرہ کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور شاعر بھی اپنی غزل ایسے ایسے داﺅ پیچ سے پڑھتا ہے کہ اس کے بعد پڑھنے والے کو نئے پینترے ایجاد کرنے کی فکر ہوجاتی ہے۔ مشاعرہ میں اگر کوئی شخص بحیثیت ایک ”ناشاعر“ کے شریک ہو اور صف سامعین میں بیٹھ کر بس تماشا دیکھے تو اس کو ایک خاص لطف حاصل ہوگا۔ ہر شاعر کے انداز الگ‘ آوازالگ‘ وضع قطع الگ‘ پڑھنے کا طریقہ الگ‘ بھاﺅ بتانے کی ادائیں الگ وہ تو کہیے کہ مصرع طرح دے دیا جاتا ہے جس سے ردیف اور قافیہ بجر و وزن ایک ہی ہوجاتا ہے ورنہ سب الگ ہی الگ ہوجاتا۔ البتہ بہت سی مخصوص باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر شاعر میں یکساں ہیں اور جو ہر مشاعرہ میں دیکھی جاسکتی ہیں اور اُن ہی چند علامتوں سے عام انسان اور شاعر میں امتیاز ہوسکتا ہے۔ مثلاً غزل پڑھنے سے پہلے یہ جھوٹ بولنا کہ غزل نہیں کہی ہے، پھر اس جھوٹ کو قسمیں کھا کر سفید جھوٹ بنانا۔بہت زیادہ اصرار پر اتنا تو قبولنا کہ جو دو تین شعر کہے ہیں وہ وقتی ہیں اور پڑھنے قابل نہیں پھر منکسر مزاجی سے کہنا کہ جوحضرات پڑھ چکے ہیں اُن کے بعد پڑھنا منہ چڑھانا ہو اور آخر کار مجبور ہوجانے کے انداز سے وہی دو تین شعر اس طرح پڑھنا کہ ایک دم سے پندرہ بیس پچیس پڑھ جانا اور بی چ بیچ میں یہ کہتے جانا کہ ”آج ہی طرح معلوم ہوئی تھی، شعر کیا کہے ہیں بکے ہیں“ لیکن اسی بکواسی پرداد کا طالب ہونا۔ اسی قسم کی بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر شاعر میں یکساں ہیں اور اگر کسی میں نہیں ہیں تو اُس کو لوگ اناڑی مبتدی‘ یا مغرور سمجھتے ہیں، لیکن آج کل کے شاعر جن کو نئی روشنی کے شاعر کہا جاتا ہے، ان باتوں سے علاحدہ رہ کر زیادہ تراناڑی ہیں اور کیا کہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اُن ہی اناڑیوں میں ہمارا بھی شمار ہے کہ غزل کسی تمہیدی عذر کے شروع کردیتے ہیں اور مولوی محمد اسمٰعیل مرحوم کی اُردو ریڈر کے آموختہ کی طرح رواں سنا کر ختم کردیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی شاعری میںشاعری ہے کہ معلوم ہوتا ہے سبق سنارہے ہیں اور سننے والے شاباش شاباش کہہ رہے ہیں۔
ہم نے پہلے یہ تجویز پیش کی تھی کہ خیران‘ میر غالب‘ آتش ناسخ وغیرہ تو یونہی چل بسے لیکن دور حاضرہ کے مشاعروں کی ریکارڈنگ ہوجائے تاکہ کم از کم ان کی آواز اور ان کے پڑھنے کا طریقہ ہی اُن کے بعد باقی رہے اور آئندہ پیدا ہونے والے شاعر گراموفون کی مدد سے گزرے ہوئے شعرا کا کلام ان کی زبان سے سن کر اس کمی کو محسوس نہ کریں کہ خدا جانے شوکت کس طرح پڑھتے تھے اور اُن کی آواز کیسی تھی، لیکن جب سے ہندوستان میں بولنے والی فلمیں آئی ہیں ہماری رائے بدل گئی ہے اور اب ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہر شاعر کا ایک بولنے والی فلم ہو۔ یہ فلم آج تو کچھ بھی نہیں لیکن سو برس کے بعد ایسی قیمتی چیز سمجھی جائیں گی کہ فلم کمپنی کو منہ مانگی قیمت ملے گی۔ آج اگر ہم یہ چاہیں کہ ہمارے مشاعرہ میں سودا‘ ذوق غالب وغیرہ میں سے کوئی شریک ہوجائے تو ہماری اس خواہش کو سڑی پن سمجھا جائے گا لیکن اب سے سو برس کے بعد اگر کوئی صاحب مشاعرہ اپنے مشاعرہ میں ہم کو شریک کرنا چاہے گا تو ہم سفید چادر پر بالکل اسی طرح متحرک نظر آئیں گے جس طرح آجکل مشاعروں میں نظر آتے ہیں۔ ہماری وہی آواز ہوگی وہی نقل و حرکت ہوگی‘ وہی شکل و صورت اور اگر لوگ ہم کو چھونے ہم سے بات کرنے ہم کو پان دینے ہمارے آگے حقہ بڑھانے کی کوشش نہ کریں گے تو ہم بالکل وہی ہوں گے جو اب ہیں۔ اس وقت کے لوگ ہم کو دیکھ کر اندازہ کریں گے کہ پہلے شعر کس طرح پڑھے جاتے تھے، پڑھنے والا کس طرح بیٹھتا تھا کس طرح منہ کھول کر پڑھتا تھا، کس طرح ہاتھ اُٹھاتا تھا، کیسا منہ بناتا تھا اور کس طر ح داد قبول کرتا تھا۔ ایک ہم ہیں ہم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ غالب مرحوم منہ کھول کر پڑھتے تھے یا منہ بند کرکے۔ کھڑے ہوکر پڑھتے تھے یا بیٹھ کر پڑھنے میں تان لگاتے تھے یا گٹکرسی لیتے تھے بس ان کا دیوان دیکھ لیا ہے اُن کی خاموش تصویر دیکھ لی ہے اور اس طرح مطمئن ہیں گویا غالب سے مل لیے۔
دنیا کے ساتھ ساتھ شاعر بھی رنگ بدل رہے ہیں۔ جو حالت شعراءکی پہلے تھی وہ اب نہیں ہے اور جواب ہے وہ کچھ دن بعد نہ ہوگی ہم کو تو کچھ ایسے آثار نظرآتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد عام انسانوں اور شاعروں میں مشکل سے امتیاز ہوسکے گا۔ ابھی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں اُن سے تو بس یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تھوڑے دنوں میں ہر قسم کے انسان شاعر ہونے لگیں گے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک شاعر دنیا کے اور کسی کام کا نہ رہتا تھا، اس کو دن رات مصرع کے اوپر مصرع یا مصرع کے نیچے مصرع لگانے کی ایسی فکر ہوتی تھی کہ دنیا کے دوسرے کام جیسے کھانا پینا تک دشوار ہوجاتا تھا ہم نے خود اپنی آنکھوں سے اس قسم کے شاعروں کو دیکھا ہے کہ چوک میں دیکھا ہے کہ چوک میں کمر بند باندھتے چلے جارہے ہیں اور اُن کو مطلق خبر نہیں کہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں اور اگر وہ اتنے ہی باخبر ہوجاتے کہ ہم چوک میں ہیں یہاں ہم کو کمربند باندھنا نہ چاہئے تو پھر وہ شاعر ہی نہ رہتے۔ بس وہ تو اپنی رَو میں منھ اُٹھائے کمر بند ہاتھ میں لیے چلے جارہے ہیں ۔اب اُن کو ہوش اُس وقت آئے گا جب مصرع پر کوئی پھڑکتا ہوا مصرع لگ جائے گا اور اُس کے بعد فوراً دل چاہے گا کہ یہ شعر کسی کو سنا کر داد حاصل کرلیں۔ اس لیے کہ بغیر اس شعر کی داد حاصل کیے وہ دوسرا شعر نہیں کہہ سکتے۔ اس وقت وہ اپنا کمر بند بھی آدمیوں کی طرح باندھیں گے۔ سنبھلیں گے اور کسی کو راستے میں پکڑ کر کہہ دیں گے کہ ”دیکھنا بھائی تیرے لیے یہ شعر ابھی کہا ہے۔ جب شعر سنالیں گے اور داد مل جائے گی تو پھر آگے بڑھیں گے اور فوراً دوسرا مصرع ذہن میں آتے ہی اُن کو مصرع لگانے کی فکر میں ایسا محو کردے گا کہ وہ گاڑی گھوڑے سے کچلنے‘ کیچڑ میں پھنسنے‘ کسی سے ٹکرانے‘ نالی میں گرنے وغیرہ سے قطعاً بے فکر ہو کر کسی دوسرے عالم میں پہنچ جائیں گے، لیکن اب جو شاعر پیدا ہورہے ہیں وہ وکالت بھی کرتے ہیں اور ڈپٹی کلکٹری بھی۔ پروفیسری بھی کرتے ہیں اور ایڈیٹری بھی، طبابت بھی کرتے ہیں اور تجارت بھی ،ٹکٹ کلکٹری بھی کرتے ہیں اور کلرکی بھی اور اس کے بعد شاعر بھی ہیں۔ جب شاعروں کے مشاغل وضع قطع شکل و صورت وغیرہ میں اس قدر انقلاب پیدا ہوچکا ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ شاعری کے رنگ بدلنے پر لوگوں کو اس قدر تعجب کیوں ہے جب پٹوں کی جگہ انگریزی بال انگرکھے اور غرارے دار پاجامے کی جگہ سوٹ‘ دہلی کے جوتے کی جگہ ڈاسن کے بوٹ وغیرہ نے لے لی ہے تو ہم کو اس پر کیوں حیرت ہوتی ہے کہ بلبل‘ نشیمن‘ صیاد‘ زلف کا کل‘ ناسور‘ کھرنڈ‘ برچھی‘ نیزہ کٹاری‘ چھری‘ چاقو‘ انگیا‘ کُرتی‘ دوپٹہ‘ کڑے‘ چھڑے پازیب‘ جھانج‘ مہندی‘ سرمہ مسی وغیرہ کی جگہ دوشیزگی رعنائی‘ کفر‘ تبسم‘ جذبات‘ تخیلات‘ جذب‘ سکّر‘ تموّج‘ محویت ‘ ملاحت‘ صباحت‘ فطرت‘ رنگ و بو‘ احساس‘ کیف‘ خمار‘ شباب‘ ترقم‘ موسیقی‘ نغمہ وغیرہ نے لے لی ہے۔ جب کہنے والے وہ نہیں رہے تو کہا ہوا وہ کیونکر ہوسکتا ہے۔
ہم مکمل شاعر ہوں یا نہ ہوں مگر خدا کا شکر ہے کہ اس دور میں پیدا ہوئے جب شاعر شکل و صورت میں عام انسانوں سے ملتے جلتے ہوتے ہیں ۔اگر اب سے کچھ دن پہلے پیدا ہوئے ہوتے تو ہمارا بھی وہی حال ہوتا جو ہم دوسروں کا بیان کررہے ہیں۔
ہم تو اس تصور سے بھی لرزہ براندام ہوجاتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ دن پہلے پیدا ہونا پڑتا اور ہم شاعر بھی ہوتے تو ہماری زندگی کیسی ہوتی۔ اب تو یہ حال ہے کہ باوجود ہر حیثیت سے انسان ہونے کے جس وقت ہم پر شاعری کا دورہ پڑتا ہے ہم کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ غزل کہتے وقت ہمارا دل چاہتا ہے کہ
چلئے اب ایسی جگہ چل کہ جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو
بے در و دیوار کے گھر میں غزل کی فکر ہو
بچّے کچّے اور یہ بیوی میاں کوئی نہ ہو
ہم کہیں جس طرح جی چاہے نہ ہو کوئی مخل
یعنی سب مرجائیں خالی ہو جہاں کوئی نہ ہو
اور غزل جب کہہ چکیں تو یہ خموشی دور ہو
داد دینے کے لیے پھر بے زبان کوئی نہ ہو
لیکن ہوتا ہے یہ کہ اگر گھر میں غزل کہنے بیٹھے اور اپنے اوپر پوری شاعرانہ کیفیت طاری کرلی ایک آدھ مصرع بھی کہہ لیا اور ٹھیک اُس وقت جب کوئی لاجواب شعر ہونے ہی والا ہو، کوئی نہ کوئی قصہ ایسا پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم شعر کہنے کی طرف سے قطعاً مایوس ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں تو کسی بچہ ہی نے پیسہ مانگنا شروع کردیا جس کی پہلے تو ہم کو محویت میں خبر نہ ہوئی لیکن جب وہ مانگتے مانگتے تھک کر مچل گیا اور ضد کرنے لگا تو ہم کو لاحول و لا قوة کہہ کر اُٹھنا ہی پڑا‘ اب وہ مصرع اور مصرع پر لگنے والا دوسرا مصرع سب غائب بلکہ آئندہ ہونے والے مصرعوں کی طرف سے بھی نااُمیدی ہوجاتی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ صاحبزادے کو سرسے اونچا اُٹھا کر دے ماریں لیکن بیکسی کی حالت میں بس دانت پیس کر رہ جاتے ہیں اور اگر کہیں ایک آدھ تھپڑ جھاڑ دیا تو اُن کی والدہ سے فوجداری ایسی ہوتی ہے کہ دن بھر غزل تو غزل ہم کو اپنا تخلص بھی یاد نہیں آتا۔ ہم نے بارہا یہ بات آزماکر دیکھی ہے جب ہم غزل کہنے بیٹھتے ہیں ہمارے گھر والے ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ذرا یکسوئی سے بیٹھے ہیں، لہٰذا اس وقت اپنے پرائے محلہ کے پڑوس کے بچوں کے‘ بزرگوں کے خاندان والوں کے دوستوں کے سب قصّے شروع ہوجاتے ہیں۔ کسی کی شادی کے لیے ہمارے مشورے کی ضرورت ہے تو اسی وقت اس کا موقع مناسب سمجھا جاتا ہے، کسی بچّے کی کوئی شکایت ہے تو اسی وقت ہوتی ہے، کسی کا کوئی کارنامہ ہے تو اسی وقت فخریہ بیان کیا جاتا ہے۔ آٹے دال کے نرخ پر اسی وقت بحث ہوتی ہے۔ قحط سالی اور غلّہ جمع کرلینے کی اسکیم پر اسی وقت مباحثہ ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ سب کے نزدیک ہمارا یہی قیمتی وقت بیکار وقت ہوتا ہے اور ہم ہیں کہ پہلے تو ہاں نہیں میں جواب دیتے رہتے ہیں پھر اُلجھنا شروع کرتے ہیں پھر گالیاں بکنے کو دل چاہتا ہے پھر سب کو مارنے کا ارادہ کرتے ہیں اور آخر میں گھر سے نکل کر کسی خاموش گوشہ میں بیٹھ کر بھولے ہوئے مصرعے یاد کرنا شروع کرتے ہیں۔ اب اگر اس وقت کسی کسی راہگیر نے اپنی بھیانک آواز میں ”ارے ہاں ری نندیا“ الاپنا شروع کردیا تو بس خودکشی کو دل چاہتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم نے کہا:
گلستان حیات چند روزہ کا نہ سن قصہ
بہار آئی تھی برسوں میں خزاں….
کسی نے راستہ چلتے چلتے ہم سے پوچھ لیا ”میاں کیا بجا ہوگا! آپ کے پاس گھڑی ہے؟“ اور ہمارا دل چاہا کہ اس کی اور اپنی جان ایک کردیں، ہم تو شعر کہہ رہے ہیںاور یہ گھڑی لیے پھررہا ہے خدامعلوم کہاںسے اس وقت آمرا کیسا عمدہ شعر تھا کمبخت نے غارت کردیا، لیکن جب اس کے جاتے ہی وہی شعر اس طرح ہوگیا کہ
گلستان حیات چند روزہ کا نہ سُن قصہ
بہار آئی تھی برسو ں میں خزاں آئی گھڑی بھر میں
تو ہم کو اس کا خیال بھی نہیں آیا کہ یہ ”گھڑی“ اسی راہگیر کی بتائی ہوئی ہے جس کو ہم اتنی گالیاں دے رہے تھے نہ وہ گھڑی کہتا نہ ہمارے ذہن میں گھڑی آتی نہ گھڑی سے شعر مکمل ہوتا لیکن اس قسم کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، زیادہ تر تویہ ہوتا ہے کہ ہم کسی راہ چلتے ہوئے کی زبان سے ”مقدمہ“ سُن کر پورا شعر اسی طرح کہہ جاتے ہیں کہ
میرے دل کے منتشر اجزا کو یکجا کیجئے
آج پھر آباد دنیائے مقدمہ کیجئے
اور بعد میں خیال آتا ہے کہ استغفراللہ مقدمہ کی آواز سن کر ”دنیائے تمنا“ کو ”دنیائے مقدمہ“ لکھ گئے اور بس یہیں سے خیالات منتشر ہوجاتے ہیں۔
اب بتائےے کہ شعر کہنے کے لیے ہم یکسوئی کہاں سے لائیں۔ ہمارا اکثر دل چاہا کہ اس شاعری واعری کو چھوڑ کر اس عذاب سے نجات حاصل کرلیں، لیکن یہ وہ بری بلا ہے کہ قبر سے پہلے چھوٹنے کا نام نہیں لیتی‘ توبہ کرلیتے ہیں توبہ پر قائم رہتے ہیں لیکن جہاں دوچار آدمیوں نے آکر مشاعرے کی شرکت کے لیے مجبور کیا بس توبہ ٹوٹ جاتی ہے اور وہی کیفیت شروع ہوجاتی ہے جس سے ہم تو ہم ہمارے گھروالے بھی عاجز آگئے ہیں۔٭٭