شمالی بھارت

انجمن انتظامیہ مسجد نے گیان واپی کی رپورٹ کو مسترد کردیا

یٰسین نے سوال کیا کہ یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے یہ صرف ایک بڑا مندر تھا؟“ وارانسی بدھسٹوں کا بھی بڑا مرکز تھا اور شنکر آچاریہ کی آمد کے بعد بدھسٹوں کو یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

وارانسی: گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی‘ انجمن انتظامیہ مسجد (اے آئی ایم) نے محکمہ آثارقدیمہ کی مسجد کے سائنسی مطالعہ اور سروے کی رپورٹ کو ”غلط بیانیہ قائم کرنے“ کی کوشش قرار دیا۔ اے آئی ایم کے پاس دستیاب تاریخ کی بنیاد پر اس نے دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر تین مرحلو ں میں ہوئی۔ پہلا مرحلہ 15ویں صدی میں تعمیر ہوا۔

متعلقہ خبریں
لڑکی کی بہیمانہ ہلاکت کا واقعہ، دہلی پولیس سے کارروائی رپورٹ طلب کی گئی
کمال مولامسجد۔ بھوج شالہ سروے پرمسلم تنظیم کا اعتراض
خاتون ریسلرس کے الزامات پر دہلی پولیس کمشنر سے رپورٹ طلب
دنیا کے امیر ترین افراد 2022 میں 10 کھرب ڈالرس سے محروم:رپورٹ
بہار میں معاشی اور ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا آغاز

 اے ایس آئی سروے رپورٹ پر اپنے پہلے تفصیلی ردعمل میں اے آئی ایم کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یٰسین نے کہا کہ ماہرین قانون اور مورخین اے ایس آئی رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ کررہے ہیں۔ تاہم رپورٹ کے ابتدائی مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اے ایس آئی رپورٹ کے اندراجات مئی 2022ء میں عدالتی کمشنر کے سروے سے قطعی مختلف نہیں ہیں۔

سائنسی مطالعہ کے نام پر غلط بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے پاس دستیاب تاریخ کے مطابق جونپور کے ایک رئیس شیخ سلیمانی محدث نے (15ویں صدی کے اوائل میں) 804-42ہجری کے درمیان گیان واپی کی کھلی اراضی پر مسجد تعمیر کی تھی۔

 اس کے بعد مغل شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی کے فلسفہ کے مطابق مسجد کی توسیع کا آغاز کیا اور مغربی دیوار کی باقیات‘ اسی تعمیر کا حصہ ہیں۔ اورنگ زیب نے 17ویں صدی میں اس کی مزید توسیع کی۔ یہ واضح کرنے کہ یہ مسجد اورنگ زیب سے پہلے موجود تھی اور اس کی تین مرحلوں میں تعمیر و توسیع ہوئی، یہ تاریخ کافی ہے۔

 یٰسین نے سوال کیا کہ یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے یہ صرف ایک بڑا مندر تھا؟“ وارانسی بدھسٹوں کا بھی بڑا مرکز تھا اور شنکر آچاریہ کی آمد کے بعد بدھسٹوں کو یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

 حقیقی تاریخ معلوم کرنے یہ مطالعہ بھی کیا جانا چاہیے کہ آیا یہاں کوئی بدھسٹ مٹھ یا مندر موجود تھا یا نہیں۔ اگر شہر کی کھدائی کی گئی تو بدھسٹوں اور جینوں کے کئی حقائق مل سکتے ہیں۔ جہاں تک اے ایس آئی سروے کے دوران مورتیوں، سکوں اور دیگر اشیاء کے پائے جانے کا سوال ہے تو یٰسین نے کہا کہ 1993ء سے قبل گیان واپی کے آس پاس کا علاقہ کھلا تھا اور اسے کچرہ کنڈی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

جب اے ایس آئی نے سروے شروع کیا تو مسجد کے عقبی حصے میں 10 فٹ بلند ملبہ پڑا ہوا تھا جبکہ تہہ خانہ میں 3فٹ بلند ملبہ دیکھا گیا۔ یہ اشیاء اسی ملبے سے برآمد کی گئیں جو دہائیوں سے مسجد کے قریب موجود ہیں۔

“ اصلی ہیت کو چھیڑے بغیر سائنسی مطالعہ کرنے کی سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ نے کئی علاقوں کو کھودا۔ 

سپریم کورٹ سے عبادت گاہوں کے قانون 1991ء کے تحت راحت ملنے کا یقین ظاہر کرتے ہوئے یٰسین نے کہا کہ اے آئی ایم نہ صرف گیان واپی سروے کی اے ایس آئی رپورٹ کو چیلنج کرے گی مگر جہاں جہاں کیسس داخل ہوں گے وہ مسجد کے تحفظ کے لیے قانونی  جنگ کرتی رہے گی۔