مضامین

حکومت اتنی خوفزدہ کیوں ہے

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

حکومت ہر اس شخص سے خوف زدہ ہے جو سچ کو سچ ، ظلم کو ظلم، کرپٹ کو کرپٹ، فراڈ کو فراڈ،تانا شاہ کو تانا شاہ، ڈکٹیٹر کو ڈکٹیٹر کہنے کی ہمّت و جرات کرتا ہے ۔ حکومت سے سوال کرتا ہے، غلط کارکردگیوںاور فیصلوں پر تنقید کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے ملک کے بہت سارے سماجی کارکنان، انسانی حقوق کے علمبردار ، دانشوران اور صحافی اس وقت ملک کی مختلف جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایسے بے گناہوں میں گرفتار کیے جانے کی حالیہ مثال آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکر محمد زبیر ہیں ،جنھیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس نے سچ کو سچ کہنے اور دکھانے کی ہمت کی تھی ۔ ایسے بے گناہوں کی بلا وجہ طویل مدتی گرفتاری کے بعد ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بات پر حیرت ظاہر کیا ہے کہ ایک فرضی اور گمنام ٹویٹ پر پولیس نے مذہبی جذبات کی دلاآزاری کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیاہے ، جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ محمد زبیر کو بلا وجہ گرفتار کئے جانے پر انسانی حقوق کی بہت ساری تنظیموں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن تک نے سخت الفاظ میںمذمت کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ محمد زبیر کے سلسلے میں جرمنی کی وزارت خارجہ نے بھی طویل بیان جاری کرتے ہوئے زبیر کی گرفتاری کو اظہار خیال کی آزادی پر حملہ قرار دیا تھا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو ایسے سچ بولنے ،لکھنے اور دکھانے والوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے محمد زبیر جیسی شخصیات کو ایک کیس میں کورٹ کے ذریعہ حکومت کو سخت سست کہے جانے کے بعد ضمانت دی جاتی ہے تو حکومت دوسرا اور تیسرا مقدمہ درج کرتے ہوئے ایسے لوگوں کوجیل کے اندر ہی رکھنا چاہتی ہے ، تاکہ وہ آزاد ہو کر پھر سچ نہ بولنے لگیں، ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگوں کو جیلوں میں بھرنے سے ایسے سچ بولنے ،لکھنے والوں اور حکومت سے سوال اور تنقید کرنے والوںکے حوصلے پست ہوں۔یہ ہے حکومت کا اندرونی خوف کا عالم ۔ ایسے بے گناہ قیدیوں کے سلسلے میں چند روز قبل ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے راجستھان میں منعقدہ آل انڈیا لیگل سروسز کی ایک کانفرنس میں بڑے کرب کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں تعزیری (فوجداری) انصاف کا نظام جس طور پر چلایا جا رہا ہے وہ بذات خود ایک سزا بن گیا ہے ۔ملک کی مختلف جیلوں میں اس وقت چھ لاکھ دس ہزار قیدی ایسے ہیں جن میں 80 فیصدی کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور جنھیں ضمانت نہیں دی گئی ہے ۔ حالانکہ قانون کی نگاہ میں وہ بے گناہ ہیں ۔ عدالتوں میں عام طور پر ضمانتیں نہیں دیے جانے کے ضمن میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس دیپک گپتا نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا تھا کہ ”حکومت نے خوف و دہشت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ عدالتیں ملزمان کی ضمانت قبول کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں ۔“ سچ تو یہ بھی ہے کہ حکومت کے اندر اس قدر ڈر سمایا ہوا ہے کہ وہ بیرون ممالک کی تنقید اور احتجاج کو بھی پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ہر معاملے کو ملک کا اندرونی معاملہ کہہ کر پلّہ جھاڑ لیتی ہے ۔
پارلیمنٹ کے مانسون سیشن شروع ہونے سے قبل پارلیمنٹ کے ذر یعہ جاری ہونے والی ایک متنازعہ ایڈوائزری ان دنوں موضوع بحث ہے کہ آیا عام بول چال کے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے پیچھے منشا کیا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ایک ایسی اہم اور مقدس جگہ ہے جہاں عوام کے ذریعہ منتخب ممبران ہی عوام اور ملک کے دیگر مسائل پر بحث و مباحثہ اور عام رائے بننے کے بعد عوامی مفادات کے لیے لائحہ عمل تیارکرتے ہیں ، قانون سازی ہوتی ہے، قانون میں ترمیم کی جاتی ہے ۔ گویا ملک اور ملک کے عوام کی بقا اور ترقی وخوشحالی کا انحصار اسی پارلیمنٹ پر ہے۔ ایسی روایت رہی ہے ۔ لیکن افسوس کہ حکومت ان دنوں پارلیمنٹ میں ایسی تما م مثبت روایتوں کو ختم کرنے کے درپئے ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں حزب مخالف کے ممبران کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے بغیر بحث ومباحثہ کے اور رائے عامہ قائم کیے ہوئے 9 منٹ میں 37 بل پاس کرلیے جاتے ہیں ۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے اس سلسلے میں بھی مذکورہ کانفرنس میںبتایا کہ ” پارلیمنٹ کے ذریعے کی جانے والی قانون سازی کا معیار کافی حد تک گر گیا ہے اور غور و خوض کیے بغیر الٹے سیدھے قوانین بنا کر نافذ کیے جا رہے ہیں ۔ ‘ ‘
ایسے بننے والے قوانین ، منفی رویے یا فیصلے پر، جو عوام کے مفادات میں نہ ہوں ، حزب مخالف کے ممبران کے ذریعہ تبصرہ اور تنقیدکی جا سکتی ہے ۔ حکومت اگر اپنے غلط فیصلے پر بضد ہو تو حزب مخالف کے ممبران اعتراض اور احتجاج بھی کر سکتے ہیں اور کیا کرتے تھے ۔ ایسی بھی روایت رہی ہے ۔لیکن میں بالکل مانتا ہوں کہ بحث و مباحثہ اور احتجاج میں زبان و بیان کی شائستگی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ پارلیمان، جمہوریت کا مقدس ایوان ہے اور اس کے ممبران معزز، ماننے¿ ، اور محترم ہیں نہ کہ سڑک چھاپ ہیں ،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس مقدس ایوان کے ممبران ، ایوان کے اندر اور باہر ایسی ایسی گھٹیا، بے ہودہ ، نامناسب اور قابل اعتراض زبان کا استعمال کرتے ہیں جن سے نہ صرف پارلیمنٹ کا وقار اور معیار مجروح ہوتا ہے بلکہ بیرون ممالک میں بھی مذاق اور شرم کا باعث ہوتا ہے ۔ یاد کیجئے کہ گزشتہ پارلیمنٹ کے ایک سیشن میں بی جے پی کی ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ نے اپنی ایک تقریر میں ایسی نازیبا اور عامیانہ بات کہہ دی تھی کہ پورا حزب مخالف برگشتہ ہو گیا تھا اور زبردست احتجاج کے دوران اس خاتون ممبر پارلیمنٹ سے معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کئی دنوں تک پارلیمنٹ کی کوئی کارروائی نہیں ہونے دی گئی تھی اور آخر کار خود وزیر اعظم نریندر مودی سامنے آئے تھے اور معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خاتون ممبرکاایسا سماجی پس منظر ہے ،جس کی وجہ سے ایسے الفاظ کی ادائیگی ہوگئی ہے ۔اس معذرت کے بعد ہی ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ حال کے دنوں میں برسراقتدار حکومت کی پارٹی کے پارلیمانی ممبران بلکہ وزراء تک نے سڑکوں پر اتر کر اقتدار کے نشے میں پولیس کی موجودگی میں اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے جو زبان استعمال کی تھی ،وہ ہر لحاظ سے تہذیب و اقدارکے منافی تھا ۔ ایسے حالات میں حکومت کسی کو یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ شائستہ زبان کا استعمال کرے ۔ اس کے باوجود ان دنوں حکومت کو ایسے بہت سارے الفاظ سے خوف محسوس ہو رہا ہے جو عام طور پر کسی کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ سیکریٹریٹ نے جو ایڈوائزری جاری کی ہے، اس میں تقریباً پندرہ سوایسے الفاظ ہیں ،جنھیں غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کا فیصلہ مناسب ہو سکتا تھا،اگر یہ الفاظ دانستہ طور پر حزب مخالف کی زبان پر قفل ڈالنے والے نہ ہوتے ۔ جن الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے ان میں ویسے ہی الفاظ زیادہ ہیں، جن سے حکومت خوفزدہ ہے ۔ مثلاََ تاناشاہ ، کرپٹ ، ڈکٹیٹر ، فراڈ، وناش پروش، ہٹلر ، جئے چند ، جملہ جیوی ،جھوٹ ، نا اہل ، بہری سرکار ، کریمنل ، دوہرہ چہرہ ، چیٹیڈ ، مافیا ، ربش، غنڈے ، نوٹنکی ، دلال ، چمچہ ، دوہرہ چرتروغیرہ وغیرہ ان الفاظ کے ساتھ عام طور استعمال ہونے والے کئی محاورے بھی اب غیر پارلیمانی قرار دیے گئے ہیں ۔ غیر پارلیمانی قرار دیے جانے والے الفاظ میں بیشتر الفاظ وہی ہیں جوحال کے دنوں میں خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر کے دوران شکایتاً دہرایا تھا کہ کانگریس مجھے ایسے ایسے نا مناسب اور بے ہودہ الفاظ سے نوازتی ہے ۔ یہ تقریر دراصل ان الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے لیے زمیں ہموار کرنے کی ایک کوشش تھی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر ایسے حالات ہی کیوں پید کیے گئے کہ حکومت کو کرپٹ، چور ، بے شرم ، دلال، دوہرے چرتر ، دوہرہ چہرہ ، جھوٹ ، وناش پروش، نا اہل ، بہری سرکار وغیرہ جیسے الفاظ سے ڈر محسوس ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ ایسے الفاظ کا استعمال خود بی جے پی کے لوگ اپنے مخالفین کے لیے عام طور پر کرتے رہتے ہیں ۔ قرار دیے گئے غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست لمبی ہے ۔ بہتر ہوتا اگر ان الفاظ کے متبادل بھی بتا دیے جاتے، بلکہ اچھا ہوتا کہ غیر پارلیمانی الفاظ پر پارلیمنٹ میں بحث ہوتی، جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ ان الفاظ کو غیر پارلیمانی کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا مذکورہ الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے بعد ان الفاظ کا استعمال پارلیمنٹ میں نہیں ہوگا ؟ ٹی ایم سی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے تو پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ میں ان (غیر پارلیمانی) الفاظ کا استعمال کروں گا، خواہ مجھے معطل ہی کیوں نہ کر دیا جائے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر زبان کے مسئلہ پر مکمل اتفاق رائے ہوتی ، تو پھر اس قدر اعتراض اور مخالفت نہیں ہوتی ، لیکن مشکل یہ ہے کہ حکمراں اور حکمراں جماعت اپنی ہر بات کو منوانے کے لیے بضد ہوتی ہے ، خواہ پارلیمنٹ چلے یا نہ چلے ۔ دراصل حکومت کے اندر اس قدر خوف سمایا ہوا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر کیے جانے والے ہر طرح کے سوال اور تنقید سے گھبراتی ہے ۔ اب دیکھئے کہ مہنگائی ، ڈالر کے مقابلے روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ، بے روزگاری وغیرہ جیسے ملک کے بڑے اہم مسئلے پر حزب مخالف پارلیمنٹ میں بحث چاہتی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ منظور نہیں، نتیجہ میں گزشتہ کئی دنوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی رکی ہوئی ہے اور حزب مخالف کے قائدین مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے قریب احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں۔اب کیا اس احتجاج اور مظاہرے کی پاداش میں نئے حکم نامے کے بموجب انھیں معطل کر دیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اتنے اہم مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث ومباحثہ سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش ہی حکومت کی ناکامی اور خوف کی علامت ہے جو سچ کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے۔ راہول گاندھی کے بعد سونیا گاندھی کو ای ڈی دفتر میں بلا کر تفتیش پر جس طرح پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں ، یہ سب دراصل عوام کا اصل مسئلہ سے ذہن کو بھٹکانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر حکومت کو آئینہ دکھانے والوں پر قد غن لگانے کی کوشش ہے ۔
پارلیمنٹ کے اندراہم عوامی مسئلے پر مباحثہ سے انکار اور ہ متنازعہ ایڈوائزری کو حکومت کا خوف سمجھا جائے یا پھر زبان و بیان میں الجھا کر اپنے مخالفین کو خاموش رکھنے کی کوشش ہے ۔ ایسے میں شیو سینا کی رہنما پرینکا چترویدی کا سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا اب پارلیمنٹ میں سوال کیے جانے پر بھی پابندی لگائیں گے؟ ٭٭
٭٭٭