مضامین

اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں۔۔۔

سید توفیق عبید سبیلی

اگست کا مہینہ شروع ہونے ہی والا تھا،صبح کی سفیدی ابھی نمودار نہیں ہوئی تھی،زندگی کی ایک نئی صبح ہونے والی تھی،لوگ اپنے تئیں ایک خوشگوارصبح کے منتظر تھے، مگر کیا پتہ تھا کہ یہ نئی صبح کسی کی زندگی کی شام بن جائے گی،کچھ مسلمان اس دیش کی میڈیا اور حکومتی نفرتی ایجنڈے کا شکار ہوجائیں گے۔کسی پر اچانک افتاد آ پڑے گی،کوئی ہنستا بولتا گھر چند لمحوں میں ماتم کدہ بن جائے گا، کچھ عورتیں جو اپنے شوہروں کی راہ تک رہی تھیں وہ اب کبھی اپنوں کو زندہ نہیں پائیں گے، کچھ بچے اب تک اپنے باپ کی راہ تک رہے ہوں گے،انہیں پتہ بھی نہیں کہ ان کے باپ کو کس قصور میں ان سے چھین لیا گیا،اب کون ان کو اپنی گودی میں بٹھائے گا،کون ان کے سر پر شفقت کے ہاتھ پھیرے گا۔کو ن ان کی خواہشات کو پورا کرے گا،وہ کس کو اپنا محافظ سمجھیں گے،ایک آدی واسی پولس آفیسر اپنے ہی ماتحت کے ہاتھوں مارا جائے گا،وہ جو دوسروں کی حفاظت پر مامور تھا خود اپنی جان گنوا بیٹھے گا،ایک بلبل خوشنوا،حافظ قرآن،امن وآشتی کا خواہاں،اپنے گھر کا کفیل،مانباپ کی آنکھوں کا تارا،رات کے اندھیرے میں آئی خون آشام بھیڑ کے ہاتھوں جام شہادت پی کرایسے ہندوستان سے چلاجاتا ہے جہاں امن وآشتی کی راہیں بند ہورہی ہیں۔
اگست کا یہ مہینہ جس کو باشندگان وطن ملک کی آزادی کی خوشگوار یادوں کے ساتھ منانے کا سوچ رہے تھے۔مگر کسے پتہ تھا کہ اب یہ وہ ہندوستان نہیں ہے،یہاں سب کچھ بدل گیا ہے،یہ نیا بھارت ہے۔یہاں سوچ بدل گئی ہے،جذبات بدل گئے ہیں،محبتیں ختم ہوگئیں،نفرتیں بڑھ گئیں۔رات کے اندھیروں میں جب لوگ دن بھر کی تھکان اتارنے کے لیے میٹھی نیند سوتے ہیں،اس وقت ایک خون آشام بھیڑ جمع ہوکر اپنے جیسے انسانوں کو اور اپنے وطن میں رہنے والوں کو موت کی نیند سلانے کی تیاری کرتی ہے،ان کو انسانوں سے اور خصوصاً مسلمانوں سے ایک نفرت سی ہوتی ہے،حالانکہ انہوں نے ذاتی طور پر ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا،لیکن شب وروز کے میڈیائی تماشوں اور ملک کے حکمران طبقہ کی بیہودگیوں سے ان کے دماغ اتنے پراگندہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں پھر کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
ہم مسلمان جس ملک کو اپنا وطن بتاتے ہوئے فخر کا اظہار کرتے ہیں،جس سے محبت کا ہر طریقہ سے اظہار کرتے ہیں،لیکن کیا یہی وہ ہندوستان ہے جس کی آزادی میں مسلمانوں نے اپنی جان کے نذرانے بے دریغ پیش کیے تھے۔جس ملک میں رہنے کے لیے آزادی کے رہنماؤں نے زور دیا تھا اور یہ تیقن دلایا تھا کہ اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کی جان اور مال محفوظ ہے،ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہے۔کیا یہی وہ ہندوستان ہے جسے جنت نشان کہا جاتا تھا۔کیا یہی وہ ملک ہے جہاں رہنے والے بے شمار رنگ ونسل کے لوگ باہم شیروشکر رہتے تھے۔کیا یہی وہ ہندوستان ہے جہاں کی یکجہتی پوری دنیا میں مثالی تھی۔
کیا یہی وہ ملک ہے جس کو سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کہا گیا تھا۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کو اپنے مادر جمہوریت ہونے پر فخر ہے۔کیا یہی وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی،آپس میں سب بھائی بھائی ہوا کرتے تھے۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کے ہر گوشہ میں کسی نا کسی مذہبی عبادت گاہ کا وجودپایا جاتا تھا۔جس کا احترام ہر طبقہ کے لوگ کیا کرتے تھے،کیا یہی وہ ملک ہے جس کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں یہاں کے ہر باشندے نے صرف ہندوستانی بن کر لڑائی لڑی تھی۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کو اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ نے اپنا خون دے کر آزاد کروایا تھا۔
ابھی تو اگست کا مہینہ شروع ہوا تھا، ابھی سارے وطن میں آزادی کی باد بہاری چلنے کو تھی،لوگ اس ستتر سالہ جشن آزادی کو منانے کے فراق میں تھے۔لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ اب وہ پہلے والا ہندوستان نہیں ہے۔یہاں سب کچھ بدل گیا ہے۔اس جنت نشان ملک کو جہنم زار بنادیا گیا ہے۔یہاں کی امن وآشتی کو زیر زمین کردیا گیا ہے۔بھائی چارگی عنقاء ہوگئی ہے۔نفرت ہر دل ودماغ میں پیوست ہوگئی ہے۔ہر شاخ الو کا آشیانہ بن گئی۔کیا مشرق کیا مغرب،کیا شمال کیا جنوب، ہر طرف خون آشام بھیڑ نظر آنے لگی۔
جس ملک میں عورت کو دیوی کا درجہ دیا گیا تھا،اب اسی کو سر بازار ننگا کیا جانے لگا،جس کی عزت وعصمت کی حفاظت کے لیے رکھشا بندھن کا خوبصورت دھاگہ بنایا گیا تھا، اب وہ برسرعام تار تار ہونے لگا۔جس کے اسکولوں میں ہر صبح یہ پڑھایا جاتا تھا کہ ہندوستان ہمارا ملک ہے،اس میں رہنے والے سب میرے بھائی بہن ہیں،اب یہ سہانی صبح ختم ہوگئی۔اب تو صبح سویرے کوئی خونی دہشت گرد جس کو حفاظت کے لیے مامور کیا گیا تھا وہ ہم وطنوں کی جان لیتا ہے اور دھڑلے سے اپنا فائر کھول دیتا ہے اور بڑا تعجب یہ ہے کہ وہ مختلف ڈبوں میں جاکر مسلم چہروں کو تلاش کر اور ان کا نام پوچھ کر خون آشامی کرتا ہے۔کیا جرم تھا ان مسلمانوں کا،کیا گناہ تھا اس پولس آفیسر کا۔
یہ ملک اپنی بہتی ہوئی صاف وشفاف ندیوں کے لیے مشہور تھا،کس نے اس کو انسانوں کے خون سے رنگ دیا۔ ندیوں کا پانی سوکھ گیا اور انسانوں کا خون شہر شہر،قریہ قریہ بہنے لگا۔یہ وہ ہندوستان نہیں ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔یہ وہ ملک نہیں ہے جس کے لیے اتنی بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں سب بھائی بن کر رہا کرتے تھے۔ایک دوسرے کا درد بانٹے والے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے ہیں۔خون آشام بھیڑ جمع ہوکر نہتے مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتاررہی ہے۔نہ مساجد محفوظ ہیں نہ اس میں خدمت کرنے والے۔ایک بلبل خوشنوا حافظ سعدشہید(امام انجمن مسجد،گڑگاؤں) جس کی آرزو تھی کہ ملک میں نفرتوں کا بازار ختم ہو،ہندو مسلم ایک تھالی میں کھانے لگ جائیں،جس نے کچھ وقت پہلے ہی اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا،لیکن کیا پتہ تھا کہ ظالم اسی بلبل کو قید زندگی سے آزاد کرکے ایسی جگہ بھیج دیں گے جہاں کوئی شکوہ نا ہوگا چین وراحت جس کا ٹھکانہ ہوگا۔جن مسلمانوں کو چلتی ٹرین میں ایک درندہ صفت سفاک قاتل بشکل محافظ نے اپنی گولیوں سے چھلنی کردیا،ان کو کس جرم کی سزا دی گئی۔اس ظالم کو ذرا بھی اس بات کا خیال نہیں آیا کہ یہ بھی انسان ہیں،کتنوں کا آسرا ہیں۔کتنوں کے دلوں کا چین ہیں،اور کتنوں کی زندگی ان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔
جب دل نفرت سے بھر جاتے ہیں،ذہن ودماغ پراگندہ ہوجاتے ہیں، نفرت کی ہوائیں ہر سو عام ہوجاتی ہیں تو پھر یہ نظارے عام ہوجاتے ہیں،کون کس کو کب مار دے گا کوئی نہیں جانتا،کسی بھی ملک کے حکمران جب خود اس طرح کے حالات کو ہوا دیں،اور وہ اپنے ہی عوام کو نفرتوں میں بانٹ دیں تو یقینا وہ ملک اپنی سا لمیت اور انفرادیت کو کھودیتا ہے،لوگوں کے دل محبتوں سے خالی ہوجاتے ہیں۔
ان میڈیا گھرانوں کا بہت شکریہ جنہوں نے ملک کو اس راہ پر لا کھڑا کیا،جن کے رات دن اسی طرح کی نفرتوں کو ہر گھر اور ہر فرد میں داخل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔جن کا کوئی پروگرام ہندو مسلم کی لڑائی سے خالی نہیں،جو اپنے ناظرین کے دماغوں کو تعصب،نفرت سے بھر رہے ہیں۔اپنی ذرا سی کمائی کے لیے پورے ملک میں انارکی پیدا کردی ہے ہر بچہ بڑے کے دل ودماغ کو آلودہ کردیا ہے۔ان کو اس بات کا خیال نہیں کہ کل کو ان کی نسلیں اسی ملک میں رہنے والی ہیں،کیا شہر کیا دیہات ہر جگہ نفرت کی ہوا چل رہی ہے۔ ملک جو پہلے ہی بیروزگاری،مہنگائی اور آسمانی وزمینی آفتوں سے گھرا ہوا ہے اب اس کو انارکی،فرقہ وارانہ فساد کی نا رکنے والی لہروں اور جھگڑوں سے بھردیا ہے،تشدد اور نفرت کا بھیانک عفریت ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے،کسی جگہ اور کسی سے بھی جان ومال کی حفاظت کا سامان نہیں ہے،جن کو حفاظت کے لیے رکھا گیا وہی قاتل بن گئے ہیں،جن کے ذمہ پورے ملک کی حفاظت ہے وہ اور ان کے ماتحت ریاستی حکومتوں کے نمائندہ ہر آئے دن یہاں کے مسلمانوں کو ان کے علاقوں کو چھوڑنے اور اپنے گھروں کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیتے رہتے ہیں،وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کے لیے ناسور ہیں اور ان کا وجود اس ملک کے لیے بڑا خطرہ ہے حالانکہ اب تک بھی مسلمانوں کے دم اور محنت سے ہی یہ ملک باقی ہے اور انہی کی قربانیوں سے اس کی ترقی ہوئی ہے،قمر جلالوی نے بڑا انوکھا نقشہ کھینچا تھا۔
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
یہ حقیقت واقعہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے،کیوں کہ اس وقت ملک اور ریاستوں کے حکمران ہی شرپسندوں کی سرپرتی کررہے ہیں اور ان کو ہر ممکن طریقے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں،بجائے اس کے ان کو سزا دی جاتی اور اس طرح کے واقعات کی بیخ کنی ہوتی، الٹا ایسے مجرموں کی ہمت افزائی کا نیا سلسلہ شرو ع کردیا گیا،بلکہ ایسی ذہنیت والوں میں لوگ اب اپنے اگلے منتریوں کو دیکھ رہے ہیں۔کیا یہ ملک اب ایسے لوگوں کو اپنا ہیرو مان رہا ہے۔کیا اس قسم کے بدقماش لوگ اب جوانوں کے آئیڈیل بن گئے ہیں۔کیا اب اگلی نسل اس طرح کے لوگو ں کا سامنا کرے گی،ان کے حکمران ایسے نفرتی لوگ ہوں گے،اس کو سوچ کر ہی دل ودماغ ماؤف ہورہا ہے۔لیکن ان ظالموں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ۔ع۔
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو
دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقینا سنے گا صدائیں مری
کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
وقت اور حالات کو بدلتے دیر نہیں لگتی،دنیا کی تاریخ میں ایسے ظالموں کے واقعات بھرے پڑے ہیں،ظالم کو ایک مدت تک موقع ملتا ہے پھر جب مہلت ختم ہوتی ہے تو اس کو نشان عبرت بنتے دیر نہیں لگتی۔ملک میں ہونے والے اس نفرتی ماحول میں قوم مسلم ہی ہے جس سے امن ومحبت کی شمع جل رہی ہے،میوات میں ہونے والے خونین فساد میں کتنے لوگوں کی جان مسلم خاندانوں نے بچائی۔مسلمان اب بھی اس ملک میں اپنی محبتوں اور قربانیوں سے ملک کی حفاظت کررہے ہیں۔اگر ان حالات میں تبدیلی نا ہوئی اور موجودہ حکمرانوں نے اس طرف کوئی قدم نہیں اٹھا یا تو اس ملک کے مسلمان اس بات کو سونچنے پر مجبور ہونگے۔ع۔
اے مرے ہم نشین چل کہیں اور چل
اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں