رمضان

کھجور؛ مکمل غذاء اور لا جواب دوا

قرآنی ارشادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے متعدد باران احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان کو عطا کئے ہیں۔ ان پھلوں میں یوں تو انگور، انجیر، انار اور زیتون کا تذکرہ بار بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ ہے کھجور،

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

وہ (اللہ ) ہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اسی سے سبزہ زار پیدا ہوتے ہیں جن میں تم مویشی چراتے ہو اور اسی سے تمہارے لئے کھیتی اُگاتے ہیں نیز زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سوچتے رہتے ہیں۔ (سورۃ النحل XVI آیت نمبر 11-10)

متعلقہ خبریں
رمضان میں وادی کشمیر میں مہنگائی کا جن قابوسے باہر
بھٹی وکرامارکہ نے دعوت افطار کے انتظامات کا جائزہ لیا
متحدہ عرب امارات میں رمضان میں 4 ہزار اشیا پر 25 سے 75 فیصد رعایت ہوگی
نماز تراویح کے لیے حفاظ کرام کا انتظام
رمضان میں مسجداقصیٰ کیلئے اسرائیل کی نئی پابندیاں

قرآنی ارشادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے متعدد باران احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان کو عطا کئے ہیں۔ ان پھلوں میں یوں تو انگور، انجیر، انار اور زیتون کا تذکرہ بار بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ ہے کھجور، اس کا بیان نخل، النخیل (جمع) اور نخلۃ (واحد) کے ناموں سے بیس مرتبہ ( قرآن کریم ) میں کیا گیا ہے۔

کھجور کے درخت کا نباتاتی نام Phoenix dactylifera ہے۔ عربی میں یوں تو اس کو نخل کہتے ہیں اور اس کے پھل کو تمر کہا جاتا ہے لیکن عرب اور افریقہ کے ممالک میں تمر کے علاوہ بھی کھجور اور دوسرے بہت سے ناموں سے موسوم ہے۔ کچھ عرب ملکوں میں فارسی لفظ خرما بھی کافی عام ہو گیا ہے۔

عرب کے بازاروں میں کچھ اپنی قسموں کے نام سے بھی بکتا ہے جیسے زاہدی، حلاوی، حیاتی، مضافاتی اور فاطمی وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپین زبانوں کے برخلاف عربی، فارسی، ہندی اور اردو میں عام طور سے جو الفاظ پھل کے لئے استعمال ہوتے ہیں، وہی ان کے درختوں کے لئے مستعمل ہو جاتے ہیں۔

لہٰذا کھجور سے مراد پھل اور درخت دونوں کی ہے اور یہی بات تمر کے لئے کہی جاسکتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع کی گئی تھی۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی پھلدار پودوں کی کھیتی کا تصور تک نہ تھا۔ اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ تہذیب کے بنانے اور سنوارنے میں جتنا دخل کھجور کا ہے کسی اور پودے کا نہیں ہے۔

عربوں میں ایک پرانی کہاوت تھی کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال اور فوائد ہیں۔ اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ ایک طرف اس کی لکڑی عمارت اور فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے تو دوسری جانب اس کی پتیوں سے (جن کو شاخیں بھی کہا جاتا ہے) بے شمار مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔

عربوں میں پرانا رواج تھا کہ خوشی اور فتح وکامرانی کے موقع پر لوگ کھجور کی پتیوں کو ہاتھ میں لے کر لہراتے ہوئے جلوس کی شکل میں نکلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور مدینہ کے لوگ اپنے ہاتھوں میں کھجور کی پتیاں ( ٹہنیاں) لئے ہوئے اپنی خوشی اور شادمانی کا اظہار کرتے رہے۔

کھجور کے پھل انسان کے لئے بہترین غذا ہیں۔ اس کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیوںکہ اس میں تقریباً ساٹھ فیصد Invert Sugar اور Sucrose کے علاوہ اسٹارچ، پروٹین Cellulose, Pectin, Tannin اور چربی مختلف مقدار میں موجود ہیں۔

علاوہ ازیں اس میں وٹامن A وٹامن B12 اور وٹامن C بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنیاتی اجزاء بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ یعنی سوڈیم، کیلشیم، سلفر، کلورین، فاسفورس اور آئرن۔۔ غذائیت سے بھر پور ان کھجور کے پھلوں سے مشروبات، سرکہ، مٹھائیاں، شکر اور ایک قسم کا شیرہ تیار کیا جاتا ہے جو شہد کے مانند ہوتا ہے۔

اسلام سے قبل عرب قبائل کی آپسی دشمنی اور رقابت میں ایک دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ دشمن کے کھجور کے باغات تہس نہس کر دئیے جائیں۔ نر پودوں کو خاص طور سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس عمل کی سختی سے ممانعت کی اور درختوں کو بلا شدید ضرورت کاٹنے کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا۔

جنگی معرکوں سے قبل جہاں ایک جانب معصوموں کی جان لینے سے باز رہنے کا حکم ہوتا تو دوسری طرف یہ بھی تاکید ہوتی کہ کوئی سرسبز اور شاداب درخت نہ کاٹا جائے۔ اسلام کا یہ طریقہ عمل جس میں پودوں کے Conservation اور حفاظت پر زور دیا جاتا تھا، یقیناً ایک انقلابی رجحان اور قابل ستائش سائنسی طرز فکر تھا۔ اسی شعور اور عمل کی ضرورت آج بھی ساری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔

ایک مرتبہ بنی نضیر کی بستی کا محاصرہ کرتے ہوئے جب مسلمانوں نے جنگی مصلحتوں کی بنا پر نخلستان کے کچھ کھجور کاٹے تو ان کو شدید صدمہ اور دکھ ہوا۔ اس موقعہ پر قرآنی ارشادات کے ذریعہ بتایا گیا کہ ضروری حالات کے پیش نظر انہیں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا، لہٰذا یہ عمل جائز تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل تھی۔ یہ بات قرآن پاک میں یوں فرمائی گئی ہے :

ترجمہ: تم لوگوں نے کھجوروں (لینہ) کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر رہنے دیا۔ یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا اور (اللہ نے یہ اذن اس لئے دیا) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کیا جاسکے۔ (سورۃ الحشر آیت 5)

کھجور کے بے مثال طبی فوائد ہیں۔ بلغم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں کھجور کھانا مفید ہے۔ یہ دماغ کا ضعف مٹاتی ہے اور یادداشت کی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔ قلب کو تقویت دیتی ہے اور بدن میں خون کی کمی کو دور کرتی ہے، گردوں کو قوت دیتی ہے، سانس کی تکالیف میں بالعموم اور دمہ میں بالخصوص سودمند ہے۔ کھانسی، بخار اور پیچش میں اس کے استعمال سے افاقہ ہوتا ہے۔ یہ دافع قبض کے ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔ قوت باہ کو بڑھانے میں مددگار ہے۔

غرضیکہ کھجور کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لئے ایک لاجواب ٹانک بھی۔ طب نبویؐ میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث کے بموجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ صبح کو سات کھجوریں کھانے کی تلقین فرمائی ہے۔ حضورؐ کو کھجوریں بہت پسند تھیں۔

حضرت عبداللہ بن جعفر نے فرمایا کہ میں نے حضور کو ککڑی (قثاء) کے ساتھ کھجوریں کھاتے ہوئے دیکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ہے کہ حضورؐ تربوز کو کھجوروں کے ساتھ تناول فرماتے تھے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی موقع پر حضرت علیؓ کو کھجور کھانے سے منع فرمایا کیونکہ وہ کچھ ہی دن قبل بیماری سے اٹھے تھے۔ گویا کہ بیماری کے بعد صحت یابی کے دوران کھجور کھانے کومنع فرمایا گیا۔

اس ممانعت کے پیچھے ٹھوس سائنسی دلائل ہیں کیونکہ برخلاف انگور اور انجیر کے کھجور میں Dietary Fibre کافی ہوتا ہے جو فضلہ بناتا ہے اور بیماری کے دوران یا اس سے نجات پانے کے فوراً بعد کسی ایسی غذا کا استعمال طبی اعتبار سے نقصان دہ ہے جو فضلہ پیدا کرتا ہے۔

بعض مفسرین نے سورہ مریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کھجور کو حاملہ عورتوں کے لئے سودمند بتایا ہے۔ جب حضرت عیسیؑ تولد ہونے والے تھے تو اللہ کے حکم سے حضرت مریم کو یروشلم سے کچھ دور بیت اللحم کے مضافات میں ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچادیا گیا، جہاں وہ اپنے قیام کے دوران ترو تازہ (رُطب) کھجور کھاتی رہیں۔ وہیں حضرت عیسیؑ کی ولادت ہوئی۔ ( ملاحظہ ہو سورۃ مریم ۔ آیت 23 اور 25)

اس واقعہ سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ حضرت مریم کو ان کی ذہنی اور جسمانی تکالیف کے دوران کھجور کا پھل اس لئے میسر کرایا گیا کیونکہ وہ ایک مکمل غذا تھی۔ کھجور کی عمر یوں تو دو سو برس ہوتی ہے لیکن اچھے پھلوں کی پیداوار ایک سو برس تک جاری رہتی ہے۔ اس کے درخت بیجوں سے بھی اگائے جاتے ہیں لیکن عمدہ اور تیز بڑھنے والے وہ ہوتے ہیں جنہیں Suckers کے ذریعہ لگایا جاتا ہے۔ یہ سکر نو عمر درختوں کے نچلے حصے سے حاصل کئے جاتے ہیں ۔

کھجور کے درخت گوکہ دراز قد ہوتے ہیں لیکن ان کی جڑیں زمین کے اندر گہری نہیں ہوتیں۔ اس طرح جڑوں کے اعتبار سے یہ دوسرے ریگستانی پودوں کے مقابلہ میں کمزور ہوتے ہیں اور تیز آندھی میں جڑ سے اکھڑ سکتے ہیں۔ کھجور کی جڑیں عام طور سے صرف پانچ فٹ زمین میں ہوتی ہیں۔ کھجور کے درخت کی اس کمزوری کی مثال سورة القمر (آیات 18 سے 20) میں یوں بیان ہوئی ہے کہ: قوم عاد پر جب عذاب پڑا تو وہ طوفانی ہواؤں سے اس طرح فوت ہو گئے جیسے وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں۔ عاد کے دراز قد لوگوں کے اس حشر کا واقعہ سورۃ الحاقۃ (آیت-7) میں بھی بیان ہوا ہے۔

اپنی خوبصورتی کی بنا پر کھجور کے باغات ایک پر فریب منظر پیش کرتے ہیں۔ عرب، افریقہ اور جنوبی افریقہ اور جنوبی یورپ کے شاعروں اور ادیبوں نے اس کا بڑے دل کش انداز میں اپنی تخلیقات میں تذکرہ کیا ہے۔ ہومر نے اپنی مشہور زمانہ رزمیہ کتاب ’’اوڈیسی“ میں کھجور کو ’’تمر‘‘ کے نام سے حُسن کا نشان بتایا ہے۔ شیکسپیئر اور چاسر (Chaucer) نے بھی اس کو حسن کی علامت سے تعبیر کیا ہے۔ بعض عرب علاقوں میں، خاص طور سے فلسطین میں لڑکیوں کا نام تمر رکھا جاتا ہے۔

جغرافیائی طور پر کھجور کی کاشت کا علاقہ مغربی پاکستان سے مشرقی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق کھجور کی پیداوار کرنے والے سر فہرست دس ممالک میں مصر، سعودی عرب، ایران، الجزائر، عراق، پاکستان، عمان، متحدہ عرب امارات، تیونس اور لیبیا شامل ہیں۔ تاہم  عجوہ، خلاس، زاہدی، مضافاتی، حیاتی، آفندی، حلوہ، جبائیلی، شلبی، ربیعہ، رشودیه، صفوی، مکتومی اور ساریہ جیسی بہترین اقسام سعودی عرب، عمان، ایران، یواے ای اور عراق میں پیدا کی جاتی ہیں۔

کل عالمی کھجور کی پیداوار تقریبا 9 ملین میٹرک ٹن (ایف اے او رپورٹ 2022) ہے جس میں سے 80 فی صد سے زیادہ ان دس ممالک سے آتی ہے جن کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ مصر 2 ملین میٹرک ٹن کے ساتھ سب سے زیادہ کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ کھجور درآمد کرنے والا ملک ہے جہاں تقریبا تین لاکھ میٹرک ٹن کھجور درآمد کیا جاتا ہے جس کی قیمت 200 ملین ڈالر ہوتی ہے۔ یہ درآمد ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔ عالمی منڈی میں سالانہ ڈیڑھ بلین ڈالر قیمت کی کھجور خریدی جاتی ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ یورپ جاتا ہے جہاں کرسمس کے دوران اس کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے۔

امریکہ کے کیلی فورنیا اور اری زونا صوبوں میں کھجور کی کاشت بڑے پیمانے پر شروع کردی گئی ہے۔ کھجور کی تاریخی اور سماجی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی غذائی اور طبی خصوصیات کی روشنی میں اسے ایک مکمل غذا اور لاجواب دوا سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسے قدرت کی ایک نباتاتی نعمت کہا جائے تو بھی نہایت مناسب ہوگا۔ اسی نعمت کی طرف قرآنی ارشادات میں کئی بار احترام کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل و فہم رکھتے ہیں۔

ارشادات رسول ﷺ بسلسلہ کھجور (عربی: تمر، نخل، نخیل، رطب)

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح نہار منہ کھجوریں (تمر) کھایا کرو کہ ایسا کرنے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ ( راوی حضرت عبداللہ ابن عباس – مسند فردوس)

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکی ہوئی تازہ کھجور (رطب) سے روزہ افطار فرماتے تھے، اگر وہ نہ ہوتی تو پرانی کھجور (تمر) سے اور اگر وہ بھی نہ ہوتی تو پانی اور ستو سے۔ (راوی: حضرت انس بن مالکؓ، ترمذی، ابوداؤد)

3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جو مرد مومن کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی پتیاں بھی نہیں جھڑتیں، بتا وہ کونسا درخت ہے۔ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور (نخل) کا درخت ہے۔ (راوی حضرت عبداللہ بن عمر، بخاری مسلم)

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عظیم عجوہ کھجور میں ہر بیماری سے شفا ہے، نہار منہ کھانے سے یہ زہروں کا تریاق ہے۔ (راوی: حضرت عائشہ، مسلم)

5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رات کا کھانا ہرگز نہ چھوڑو، خواہ ایک مٹھی کھجور ہی کھالو، رات کا کھانا چھوڑ نے سے بڑھاپا طاری ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ، ابن ماجہ، راوی: حضرت انس بن مالکؓ، ترمذی)

6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں کھجور ہو اس گھر والے بھوکے نہیں۔ (راوی حضرت عائشہ صدیقہؓ مسلم)

7۔ ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہم نے ان کی خدمت میں مکھن اور کھجوریں پیش کیں، کیونکہ آپ کو مکھن کے ساتھ کھجوریں پسند تھیں۔ (راوی، حضرت بسر کے صاحبزادے ابوداؤد، ابن ماجہ)۔

8۔ میں نے (شادی سے قبل) کھیرے (قثاء) اور کھجور (رطب) کھائے اور میں خوب موٹی ہوگئی۔ (راوی: حضرت عائشہؓ، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ)۔

9- میں بیمار ہوا میری عیادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھا تو ہاتھ کی ٹھنڈک میری ساری چھاتی میں پھیل گئی، پھرفرمایا کہ دل کا دورہ پڑا ہے، حارث بن کلدہ (طبیب) سے جو ثقیف میں ہے رجوع کرو، ابھی چاہئے کہ سات عجوہ کھجوریں کوٹ کر کھلائی جائیں۔ ( راوی، حضرت سعد بن ابی وقاص، ابوداؤد، مسند احمد، ابونعیم)۔

10۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صہیبؓ سے فرمایا: ”تم کھجوریں کھا رہے ہو جب کہ تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہیں۔ (راوی حضرت صہیب، طبری)۔

11۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت علیؓ ان خوشوں سے کھجور کھانے لگے پھر آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ علی تم بس کرو، اس لئے کہ تم ابھی کمزور ہو اور بیماری سے اٹھے ہو۔ ( راوی حضرت ام المنذر بن قیس انصاریہ، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد)

12۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صبح مدینہ کی سات کھجوریں (عجوہ) کھا لیں وہ اس دن زہر (سم) اور سحر سے محفوظ رہے گا۔ (راوی: حضرت سعد بن ابی وقاص، بخاری، مسلم، حضرت عامر سعد، ابوداؤد )

نوٹ : سم اور سحر پر علماء کرام نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ابن القیم نے لفظ سحر پر سیر حاصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ قدیم عربی زبان میں لفظ طب اور سحر ہم معنی الفاظ سمجھے گئے ہیں اور بعض عربی اشعار کا حوالہ دے کر تحریر کیا ہے کہ مطبوب سے مراد سحر زدہ اور مسحور سے مراد بیمار زدہ لی جاسکتی ہے۔ مشہور عالم الجوہری کا قول ہے کہ بیمار شخص پر لفظ مسحور کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

ہندوستان دنیا بھر میں کھجوروں کا سب سے بڑا درآمدی ملک ہے۔

2022 میں ہندوستان نے تقریباً 230 ملین امریکی ڈالر قیمت کی کھجور درآمد کی۔ تقریباً 75 ہزار میٹرک ٹن

با قاعدگی سے کھجور کھانے سے کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماری اور الزائمر جیسی کئی بیماریوں کے خطرات کے عوامل کو کم کیا جاسکتا ہے۔

کھجور کے بڑے پیداواری ممالک: مصر، سعودی عرب، ایران، الجزائر، عراق، پاکستان، عمان، متحدہ عرب امارات، تیونس اور لیبیا۔

(ماخذ: نباتات قرآن، ایک سائنسی جائزہ۔ از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی)