سیاستمضامین

کیا رائے دہندوں کو اب زانیوں کے نام پر متاثر کیا جائے گا؟

رویش کمار

یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ انصاف کا مذاق اڑ رہا ہے یا عوام کا مذاق اڑرہا ہے۔ عوام انصاف کا مذاق اڑارہے ہیں یا سیاست ہی عوام کا۔ کہیں قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں سزایافتہ قیدیوں کو باہر آنے پر پھول کا ہار پہنایا جارہا ہے تو کہیں قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزایافتہ قیدی کے باہر آنے پر ستسنگ سنا جارہا ہے۔ یہ کیسا ستسنگ ہے جہاں قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزا یافتہ فرد سے مذہبی وعظ سنے جارہے ہیں۔ کیا مذہب کی سیاست شہریوں کو اتنا کمزور کردیتی ہے کہ وہ مذہب کے نام پر یہ سب دیکھنا بند کردیتے ہیں۔ کیا مذہب کی سیاست یہی سکھاتی ہے کہ قتل گناہ نہیں ہے ۔ عصمت ریزی گناہ نہیں ہے۔
اگر نہیں سکھاتی ہے تب ان معاملوں میں ملک کی عدالت جب سزا سنا دیتی ہے تب پھر سماج میں ان کا اتنا احترام کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا عوام نے لکھ کر دے دیا ہے کہ قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزا یافتہ افراد کا سیاسی احترام کیا جائے گا۔ اگر وہ قیدی اپنے مذہب کا ہے تو اس کا اور احترام کیا جائے۔ کیا عوام اور شہری کا اتنا اخلاقی انحطاط ہوچکا ہے؟ اسی 15؍ اگست کو وزیراعظم نے جو کہا تھا کیا اسے وزیراعظم بھی بھول گئے ہیں، کیا بی جے پی بھی وزیراعظم کی اس بات کو فراموش کرچکی ہے؟ ’’کیا ہم فطرت، تہذیب، روز مرہ کی زندگی میں عورت کی توہین کرنے والی ہر بات سے چھٹکارے کا عہد لے سکتے ہیں۔‘‘ ہمارا سوال صاف ہے۔ کیا گجرات میں جو ہوا بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرنے والے اور اس کی بیٹی سمیت خاندان کے ارکان کا قتل کرنے والوں کی سزا معاف کی گئی ،انہیں پھول کا ہار پہنایا گیا، کیا یہ عورت کی توہین کرنے والی بات نہیں تھی۔ کیا وزیراعظم مودی بتائیں گے کہ یہی ہے عورت کی توہین کرنے والی ہر بات سے چھٹکارا کا عہد؟ ہریانہ میں قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں خاطی قرار دیے گئے گرمیت سنگھ کی ستسنگ میں بی جے پی کے قائدین شریک ہوتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر جاتے ہیں، کیا یہی ہے عورت کی توہین کرنے والی ہر بات سے آزادی کا عہد؟ وزیراعظم نے ہی اپیل کی تھی، کم سے کم انہیں بول دینا چاہیے تھا۔ جب افریقہ سے چیتا لایا گیا تب دہلی میں وزیراعظم نے کہا کہ پہلے کبوتر چھوڑتے تھے، اب ہم چیتا چھوڑتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے گجرات میں بھی دہرائی تو اخبارات نے سرخیاں لگائیں۔ جب آپ بلقیس بانو اور دو سادھویوں کے ساتھ عصمت ریزی کرنے والوں کے جیل سے باہر آنے پر سیاسی اور مذہی احترام ہوتا دیکھتے ہیں تو وزیراعظم کی یہ بات الگ طریقے سے گونجتی ہیں۔ کیا ہماری سیاست اور سماج دو سادھویوں کے ساتھ عصمت ریزی کرنے والے کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ پھر بلقیس بانو اور ان دو سادھویوں کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ کیا اس ملک میں خواتین کہیں چلی گئی ہیں؟ یا انہیں اس میں کچھ غلط نہیں لگتا ہے؟‘‘
بلقیس بانو کے کیس میں خاموشی پر کہا گیا کہ مذہب کی وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی لیکن پھر دو سادھویوں کا کون سا مذہب ہے، کیا کسی کو پتا نہیں؟ ان سادھویوں کے لیے بھی کوئی اسمرتی ایرانی یا کوئی موہن بھاگوت کیوںنہیں بول پارہے ہیں؟ کیا اس کے خلاف نہیں بول کر مودی حکومت کے وزراء نے سیاسی احترام کا پیغام نہیں دیا؟ آخر ان کی خاموشی کو اور کس طرح سے سمجھا جائے؟ قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزایافتہ فرد جیل سے باہر آنے پر ستسنگ کرتا ہے، اس میں بی جے پی کے قائدین شریک ہوتے ہیں اسے بی جے پی اور آر ایس ایس کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ سوال مذہب کی اخلاقیات کی فہرست میں نہیں آتا ہے؟
دو شاگردائوں کی عصمت ریزی کے کیس میں ،اپنے ہی مینجر رنجیت کمار کے قتل کے کیس میں ، روزنامہ پورا سچ کے مدیر رامچندر چھترپتی کے قتل کے کیس میں رام رحیم کو سزا ملی۔ کیا اس سے پہلے آپ نے قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں سزا یافتہ کسی شخص کو اتنا سجا دھجا دیکھا ہے، اس سے ہم کیا پیغام دے رہیں، کسے دے رہے ہیں؟ گرمیت سنگھ کو 40دنوں کے پیرول پر چھوڑا گیا ہے۔ باغپت سے ستسنگ کررہے ہیں۔ کرنال کے چودھری ریزارٹ میں نلوا، ہسار سے بی جے پی کے رکن اسمبلی رنویر گانگوا بھی ستسنگ میں شامل ہوئے۔ ا ن کے علاوہ کرنال شہر کی میئر رینو بالا گپتا، ڈپٹی میئر نوین کمار، سینئر ڈپٹی میئر راجیش اگی، بی جے پی کے ضلع صدر یوگیندر رانا، اس ستسنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ رنویر گانگوا تو ہریانہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ کرنال وہ شہر ہے جہاں سے ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر آتے ہیں۔ ان کا اسمبلی حلقہ ہے۔ ہریانہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رنویر گانگوا قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزایافتہ گرمیت سنگھ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں انہیں کرنال آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
2014ء سے وزیراعظم نریندر مودی صاف صفائی کا پیغام دے رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے سو کروڑ روپئے تو اس کے پروگراموں اور اشتہارات پر خر چ ہوگئے ہیں تب بھی بی جے پی کے رکن اسمبلی کو صا ف صفائی کے پیغام کے لیے قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں سزایافتہ گرمیت سنگھ سے صاف صفائی کا پیغام لینے کی ضرورت پڑرہی ہے؟ کیا کرنال شہر کے لیے وزیراعظم کا پیغام کافی نہیں ہے؟ کیا پنچایت انتخابات جیتنے کے لیے قتل اور عصمت ریزی کے معاملے میں سزایافتہ ایک مجرم کے آشیرواد کی ضرورت پڑی؟ ویسے وزیراعظم مودی نے بھی 2014ء میں صاف صفائی پر رام رحیم کی اپیل کی ستائش کی تھی۔ ٹوئٹ کیا تھا۔ تب عدالت کا فیصلہ نہیں آیا تھا۔ لیکن اب تو سپریم کورٹ نے بھی عصمت ریزی کے کیس میں سزا برقرار رکھی ہے۔ اس کے بعد بھی بی جے پی اس کا دفاع کرسکتی ہے؟ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت کی یہ دوسری میعاد ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ڈبل انجن کی حکومت میں کیا اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں سزایافتہ گرمیت سنگھ کے دفاع میں طرح طرح کی دلیلیں دی جارہی ہیں اور پارٹی نے کوئی کارروائی تک نہیں کی ہے۔
25؍ اگست2017 کو جب پنچکولہ کی سی بی آئی عدالت سزا سنانے والی تھی تب کئی ریاستو ں میں حالات کشیدہ تھے۔ اس دن گرمیت سنگھ رام رحیم کو آشرم کی دو سادھویوں کے ساتھ عصمت ریزی کے کیس میں دس دس سال کی سزا سنائی گئی۔ جملہ بیس سال کی سزا۔ بلقیس بانو کی طرح دو خواتین آج خود کو کتنا غیرمحفوظ محسوس کررہی ہوں گی؟
جس شخص کو عصمت ریزی کے معاملے میں سزا ملی ہو اس کے سامنے اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ہاتھ جوڑ کر آشیرواد مانگیں‘ ریاستی نظام کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے؟ کیا یہ بھی وزیراعظم کے بولنے لائق موضوع نہیں ہے؟ اسمرتی ایرانی کے بولنے لائق موضوع نہیں ہے؟
صدرجمہوریہ عہدہ کے انتخاب کے بعد کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے راشٹر پتنی کہہ دیا۔ کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کیا گیا، ادھیر رنجن چودھری نے تحریری معافی مانگی مگر اس کے بعد بھی تنازعہ نہیں تھما کیو ںکہ بی جے پی بول رہی تھی کہ گودی میڈیا اور بول رہا تھا۔ اب دونوں خاموش ہیں۔ اس وقت وزیر بہبود خواتین اسمرتی ایرانی کے تیور کتنے تلخ ہوتے تھے اب وہ تیور کہاں ہیں؟ بلقیس بانو پر نہیں بول سکیں ، دوسادھویوں کی عصمت ریزی کرنے والے سزایافتہ کے دربار میں بی جے پی کے قائدین کے جانے پر تو بول ہی سکتی تھیں۔
(سلسلہ صفحہ ۷)
خواتین کے احترام کے لیے کون سا موضوع منتخب کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اب تو بی جے پی کے قائدین قتل اور عصمت ریزی کے کیس میں سزایافتہ گرمیت سنگھ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور کرنال کی میئر انہیں پتاجی کہتی ہیں، وزیراعظم کو غلط لگتا ہے نہ اسمرتی ایرانی کو۔
رینو بالا گپتا میئر ہیں۔ ان کے فیس بک پیج پر کئی تصاویر ہیں جن سے ان کی سیاسی سرگرمیوں کا اندازہ ملتا ہے۔ یہ تصویر ان کی پروفائل میں لگی ہے۔ وزیراعظم مودی کے ساتھ اور ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کے ساتھ۔
پیرول پر رام رحیم کو چھوڑا گیا ہے۔ ہریانہ کے چیف منسٹر کہتے ہیں کہ جیل انتظامیہ نے اپنی سطح پر فیصلہ کیا، انہیں اس کی اطلاع نہیں ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اسی طرح کا بیان اگر اپوزیشن کی حکومت کے کسی وزیرداخلہ نے دیا ہوتا کہ انہیں نہیں پتا ہے جیل انتظامیہ نے اپنی سطح پر کیا ہے؟ کیا جیل انتظامیہ واقعی اپنی سطح پر اتنے بڑے فیصلے لینے لگا ہے؟
پیرول پر رہائی بحث کی بات ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس کے ستسنگ میں بی جے پی کے قائدین شریک ہوتے ہیں۔ تب بھی اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ جس شخص کو قتل اور عصمت ریزی کے چار کیسس میں سزا ملی ہو اور وہ ستسنگ کررہا ہے۔ جس میں بڑی تعداد میں عام لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور قائدین بھی جاتے ہیں۔ بی جے پی کے ایم پی عقیدہ کے نام پر اس کا بھی دفاع کرتے ہیں۔
ہریانہ بی جے پی کے سابق صدر رام ولاس شرما سے گرمیت سنگھ کے ضمن میں سوال پوچھ کر غلطی کردی۔ بی جے پی لیڈر کو یاد آگیا کہ وہ بھی کبھی صحافی تھے۔ سبھی کو سوچنا چاہیے کہ کیا ایسا کرنے سے ان خواتین پر کیا بیت رہی ہوگی جنہوں نے ان کے گناہوں کے لیے سزا دلوانے میں کتنی لڑائیاں لڑیں۔ یہ معاملہ صرف دو سادھویوں اور بلقیس بانو تک محدود نہیں ہے۔ ہر اس لڑکی کے لیے جو ایسے مجرمین کے خلاف عدالت میں لڑرہے ہیں، ان سبھی کی لڑائی کی توہین ہے۔ یہ اس ووٹر کی بھی توہین ہے جس کے ووٹ کے نام پر زانیوں کو پھول کا ہار پہنایا جارہا ہے۔ کیا ہمارا ووٹر اتنا خراب ہوچکا ہے؟ دراصل صحافی پوچھ نہیں رہے ہیں، پٹنہ میں جب منیش کمار نے بی جے پی کے صدر سے پوچھا تو جواب وہی آیا کہ سزا مکمل ہونے پر رہا کیا گیا ہے۔