مضامین

اسرائیل۔ فلسطین جنگ‘ تیسری عالمی جنگ کا خدشہ

ڈاکٹر محبوب فرید

اسرائیل کی بربریت کی وجہ سے غزہ میں تاحال آٹھ ہزار چار سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہیں جن میں اکثر یت خواتین‘بچے اور معمرافراد شامل ہیں۔جب کہ اسرائیل میں چودہ سو سے زیادہ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہیں۔اسرائیل نے اپنی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں بجلی ’پانی‘ایندھن‘غذااور دوائیوں کی رسائی مسدود کردی ہے اور نقل مکانی کرتے ہوئے فلسطینیوں‘ اسپتالوں‘مساجد اور گرجا گھر پر حملہ کرتے ہوئے انھیں مسمار کردیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلرنے جرمنی میں چھ ملین یہودیوں کو گیس چمبر میں ہلا ک کردیا اور جو بچ گئے تھے ان کو ملک بدر کردیا تاکہ دنیا کو معلوم ہوکہ یہودی کتنے مکا ر‘ سازشی اور شر پسند ہوتے ہیں۔ان میں سے چند یہودیوں نے فلسطین کا رخ کیا۔ فلسطینیوں نے از راہ کرم انھیں ٹھکانا فراہم کیا۔ چند دن بعد یہودی وہاں منہ مانگے دام دے کر جائیداد خریدنے لگے۔ حالانکہ اس وقت کے بعض علماء نے ان کی اس گھناؤنی حرکت کی مذمت بھی کی۔جب ان کی قوت میں اضافہ ہوا تو فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگے۔ آخر کار برطانیہ‘ امریکہ اور دیگر مغربی مما لک نے یہودیوں کی پشت پناہی کی اور پھر 14مئی 1948ء کو اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔
ظلم کی رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتا ہے۔یہودیوں نے پچہتر سال میں فلسطینیوں کی چار نسلوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ے۔ان کی نسل کشی کی۔ خواتین اور بچوں اور نوجوانوں کو نہ صرف تنگ قید خانوں میں محروس کیا بلکہ علی الاعلان ان کو شہید کیا۔فلسطینیوں کے پاس پتھر اور غلیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ بندوق کی گولیوں‘ توپ اور مزائیل کا مقابلہ کیسے کرسکتے تھے؟موت‘ ذلت و رسوائی کے سوا ان کے سامنے کچھ نہ تھا۔ دنیا برسوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔تنگ آمد بجنگ آمد۔چنانچہ 7/اکتوبر 2023ء کی علی الصبح حماس کی القسام برگیڈنے بیس منٹ میں پانچ ہزار مزائل داغ کر ایک نئی جنگی تاریخ رقم کردی۔ اسرائل کو جدید ٹکنالوجی اور جاسوسی کا ماہر سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا آئرن ڈوم اس حملہ کو روکنے میں پوری طرح ناکام رہا۔اسرائل کے شہر تل ابیب‘ارسلان وغیرہ پرحماس کے چند جیالوں نے مزائل‘ ایر گلائیڈر اور موٹر سیکلوں سے حملہ کردیا۔ریو پارٹی جہاں رقص وسرور جاری تھا‘حملہ کرکے تقریباً دوسو سے زیادہ اسرئیلی و دیگر مما لک کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ یہ کہاں ہیں کسی کو نہیں معلوم۔یہ فرداً فرداً رکھے گئے ہیں یا اکٹھے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔اسی طرح اسرائل نے بھی ہزاروں فلسطینیوں کو قیدی بنا رکھا ہے جن کو نہیں معلوم کہ ان کا گناہ کیا ہے؟ ان میں مرد‘ عورت اوربچے بھی شامل ہیں۔ حماس نے اسرائلی قیدیوں کے بدلے انھیں واپس کرنے کی مانگ رکھی ہے۔ساری دنیا میں اسرائیل شرم سار ہوگیا۔ وزیر اعظم نتن یا ہو نے عہد کرلیا کہ وہ حماس سے ایسا بدلہ لیں گے جس کو دنیا یاد رکھے گی۔اس نے بیس لاکھ فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ چند گھنٹوں کے اندر غزہ کو خالی کردیں جو بظاہر ناممکن ہے۔مصر اور دیگر ممالک نے ان کا داخلہ روک دیا۔ ہزاروں لوگ جن میں اکثر خواتین اور بچے تھے نقل مکانی کر رہے تھے کہ ظالم اسرائیلی فوج نے ان پر حملہ کرکے دنیا کو اپنی بزدلی کا ثبوت فراہم کردیا۔ اس حملے میں کئی خواتین اور بچے شہیدور زخمی ہوگئے۔یہی نہیں غزہ شہر میں نیشنل الاہلی اسپتال‘ ترکی اسپتال وغیرہ میں راکٹ حملے میں دھماکے کی وجہ سے ہزار وں مریض شہید اور زخمی ہوگئے ۔اسی طرح وہاں ایک بیکری پر حملہ کرکے اسے نیست و نابود کردیا گیا۔تاکہ فلسطینیوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہ مل سکے۔ بجلی‘ پانی تو پہلے سے بند تھا۔یہ جنگی پروٹوکول کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ نتن یاہو کے اس گھناؤنی جرم پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنا چاہیے۔
شام اور ارض ِفلسطین انبیاء علیھم صلوۃ السلام کا مسکن رہی ہے۔یہاں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں۔یہ بڑی زرخیر جگہ ہے۔ یہاں مسجد اقصیٰ ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سترہ مہینے بیت القدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ہے،لیکن آپؐ کو یہ بات پسند تھی کہ نماز کا رخ کعبہ کی طرف ہو۔
چنانچہ کم و بیش ڈیڑھ سال بعد مسجد قبلتین مدینہ منورہ میں دوران نماز آپؐ کو اپنا رخ کعبہ کی طرف کرنے کا حکم دیا گیا اور آپؐ نے اسی وقت قبلہ تبدیل کرلیا۔احادیث میں بھی مسجد اقصیٰ کی بڑ ی فضیلت آئی ہے۔ یہاں ایک نماز کا اجر پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ معراج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیاعلیھم الصلوۃ السلام کی امامت فرمائی اور حضرت جبرائیل ؑ نے اذان دیکر اقامت کہی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کو اتنی قوت اور حمایت کیسے حاصل ہوئی؟اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔جیسے دنیا کے بیشتر تعلیم یافتہ‘ایوارڈ یافتہ‘نوبل انعام یافتہ‘ سائنٹسٹ یہودی ہیں۔ دنیا کے دولت مند افراد یہودی ہیں۔بڑی بڑی صنعتیں اور بینک ان کے ہیں۔یہودی سودی کاروبار کے ماہر ہوتے ہیں۔پوری دنیا کے میڈیا پر ان کا اثرو رسوخ ہے یا پھر وہ خو دمالک ہیں۔جیسا کہ حال ہی میں امریکی نیوز چینل MSNBC پر دو انکرس مصری امریکی ایمن محی الدین اور مہدی حسن کو حقائق اور اپنے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اظہار خیال کرنے پر انھیں گھر کا راستہ دکھا دیا گیا۔علاوہ ازیں امریکی کانگریس میں بھی ان کا غیر معمولی اثر و رسوخ ہے۔ یہودیوں کو امریکہ کی سیاست پر اثر اندا ز ہونے کا ہنر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل کی ساز پر سنگت دے رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے قدم بھی ڈگمگا رہے ہیں۔کم وبیش یہی حال برطانیہ کے صدر رشی سونک‘ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون‘جرمنی کے چانسلر فرانک والٹیر اسیٹمی ’اسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز اور دیگر مغربی ممالک کے صدور اور وزراء اعظم کا ہے۔ان کی پشت پناہی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردے گی اور یہی حالت رہی تو تیسری عالمی جنگ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔لبنان‘ایران‘ یمن تو کھل کر میدا ن میں آچکے ہیں۔ سعودی عرب‘ترکیہ‘ چین اور روس کو کھل کر سامنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکے۔
دوسری طرف ایشیائی مما لک میں روس‘ چین‘ شمالی کوریا‘ لبنان‘ ایران‘ قطر‘ یمن‘ترکیہ‘ سعودی عربیہ‘متحدہ عرب امارت افغانستان وغیرہ ہیں جو فلسطین کی حمایت میں ہیں۔البتہ ہندوستان نے پنڈت نہرو سے واجپائی جی تک کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ لیکن اب وزیر اعظم مودی نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے فون پر خیر سگالی گفتگو کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم ممالک میں صرف پاکستان ہی ایٹمی طاقت کا حامل ہے، مگر اندورنی خلفشار قرضوں کی وجہ سے اس کی سانس پھول رہی ہے۔ نہ جانے کب کیا ہوجائے، اس لیے ارض فلسطین کے لئے آواز ہی نہیں نکل رہی ہے یا پھر امریکہ کے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا اور اب نواز شریف جلاوطنی کی زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان لوٹ آئے ہیں۔ شائد کوئی اچھی یا بری تبدیلی رونما ہو۔روس کے ولادمیر پوتن‘ چین کے صدر زی چن پنگ‘ شمالی کوریا کے صدر کم جانگ اُن نے یقینا فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے، لیکن انھیں فلسطین سے زیادہ امریکہ کی مخالفت مقصود و مطلو ب ہے۔اس میں شک نہیں کہ ولادمیر پوتن ابھی یوکرین سے پوری طرح نمٹ نہیں سکے‘ چین کا تائیوان سے تنازعہ ہنوز باقی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین‘اسرائیل جنگ سے دنیا کے تمام مما لک کے مفادات وابستہ ہیں۔ ولیعہدسعودی عرب شہزادہ سلمان بن محمدنے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ووزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن کو پانچ گھنٹے انتظار کے بعد ملاقات کا موقع دیا اور پہلا سوال یہی تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کب ہوگا؟یہ اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عربیہ‘فلسطین اسرائیل جنگ میں امریکہ کی تائیدکو پسند نہیں کرتا۔
عرب مما لک کی جانب سے اگر دنیا کو گیس اور ایندھن بند کردیا جائے تو مغربی مما لک میں عوامی انقلاب آجائے گا۔قطر نے اس معاملہ میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان بھی کردیا۔اب برطانیہ کے وزیر آعظم رشی سونک بھی سعودی عرب کے ولی عہد سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے ہیں تاکہ معاملات میں مزید تلخی نہ آجائے۔او آئی سی کا اجلاس محض زبانی جمع خرچ اور مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔اس پس منظر میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ تو بڑھ گیا ہے لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ہر ملک کو اپنے مفادات اور سلامتی عزیز ہے۔ امریکہ چاہتے ہوئے بھی عوامی رجحانات کو دیکھتے ہوئے فلسطین کی مخالفت نہیں کرسکتا۔پوری دنیا لندن‘امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘اسٹریلیا‘ کینڈا وغیرہ کے علاوہ مسلم ممالک میں زبردست عوامی احتجاج کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یو این میں اسرائیل کے خلاف ایک سو بیس ووٹوں سے قرار دا د منظور کی گئی مگر اس کا بھی کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اسلامی مما لک کی غیر ت کو جگانے کی ضرورت ہے۔ اب اگر دنیا کو تیسری عالم جنگ کی تباہی سے بچانا ہے تو فلسطین کو آزاد مملکت تسلیم کرنا ہوگا اور بیت المقدس کے تقدس کو بحال کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنی حدود میں رکھنا پڑے گا ورنہ یہ اپنی مکاریوں اور سازشوں سے دنیا کو تباہ کردیں گے۔ اسرائیل میں بھی چند صہیونی ہیں جو مسلم دشنی میں یکتا ہیں ورنہ اصل یہود ی تو آج بھی فلسطینوں کا احترام کرتے ہیں۔ تاریخی حقائق سے کما حقہ‘ واقف ہیں ان کے احسان کے ممنون و مشکور ہیں۔ ان کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔
دنیا میں اب بھی امن و چین‘ خیر اور صلح پسند لوگ ہیں جو دنیا کو تباہی اور بربادی سے بچا سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں اور دنیا کو تباہی سے بچا لیں۔ دنیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھ چکی ہے۔شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔