سیاستمضامین

تربیت کے سواکوئی دوا نہیں بس رونا ہے

محمد مصطفی علی سروری

ویرش بھوشن کی عمر 13 برس ہے۔ وہ پنجاب کے شہر لدھیانہ کا رہنے والا ہے۔ ہر روز کی طرح 4؍ اکتوبر منگل کے دن بھوشن اسکول جانے کے لیے گھر پر سائیکل سے نکلتا ہے اور شام ہوجانے کے بعد بھی گھر واپس نہیں ہوتا۔ گھر والے پریشان ہوکر بھوشن کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔اسکول سے پتہ چلتا ہے کہ منگل کے دن تو بھوشن اسکول آیا ہی نہیں۔ گھر والوں کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے۔ وہ لوگ فوری طور پر پولیس اسٹیشن جاکر شکایت درج کرواتے ہیں۔
لدھیانہ کی سائبر پولیس کو بھی بھوشن کی گمشدگی کے معاملے میں شامل کیا جاتا ہے۔ پولیس بھوشن کی آن لائن انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا جائزہ لیتی ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھوشن سوشیل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک ہے اور یوٹیوب پر Malhan کے چیانل کو لائیک کرنے میں پیش پیش ہے اور ملھن سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔
اخبار انڈین ایکسپریس کی 9؍ اکتوبر کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس کو پتہ چلتا ہے کہ بھوشن 4؍ اکتوبر کو اسکول جانے کے لیے گھر سے سائیکل پر نکلتا تو ہے مگر وہ اسکول نہیں پہنچتا۔ راستے میں لگے سی سی ٹی وی کے فوٹیج کو دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ بھوشن اپنی سائیکل پر سوار ہوکر اسکول کے بجائے ایک نئے راستے پر سفر شروع کردیتا ہے۔ ادھر پولیس نے جب بھوشن کی آن لائن سرگرمیوں کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ بھوشن نے اپنے پسندیدہ یوٹیوبر نشچئے ملھن سے ملنے کی بار بار خواہش ظاہر کی تھی۔
بھوشن لدھیانہ پنجاب کا رہنے والا اور نشچے ملھن دہلی کا رہنے والا۔ لدھیانہ سے ملھن کا گھر 250 کیلومیٹر دور تھا اور پولیس نے جب سی سی ٹی وی کا مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ بھوشن اپنی سائیکل پر دہلی کو جانے والے ٹول پلازہ پر صبح ساڑھے دس بجے دیکھا گیا۔
قارئین کرام سوشیل میڈیا کس طرح سے ہمارے نوجوان ذہنوں کو متاثر کر رہا ہے اس کا اندازہ لگائیں کہ 13 برس کا لڑکا بھوشن اپنے پسندیدہ یوٹیوبر سے ملنے کے لیے اپنی سائیکل پر 250 کیلو میٹر کا سفر طئے کر کے دہلی پہنچ جاتا ہے۔ لدھیانہ پولیس سے اطلاع ملنے پر دہلی کی پولیس نے حرکت میں آکر بھوشن کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ بھوشن نے اپنی سائیکل پر ملھن کے گھر تک کا سفر طئے کرلیا اور ملھن کے گھر کے باہر اپنی سائیکل کھڑی کردی اور ملھن یوٹیوبر کے انتظار میں قریبی پارک میں بیٹھ گیا۔ تفصیلات کے مطابق یوٹیوبر ملھن تو دوبئی گیا ہوا تھا۔ اس لیے بھوشن سے ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن پولیس نے بھوشن کو ملھن کے گھر کے قریب واقع ایک پارک سے ڈھونڈ نکالا اور اس کو لدھیانہ پولیس کے حوالے کردیا۔
بالآخر جمعہ 7؍ اکتوبر 2022 کو بھوشن کو اس کے گھر والوں کے حوالہ کردیا گیا۔ جو کہ اپنے اسکول ڈریس میں ہی سائیکل پر 250 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے اپنے چہیتے یوٹیوبر کے گھر پہنچ گیا۔
جب خود ملھن کو اپنے ایک کم عمر فیان کی گمشدگی کی اطلاع ملی تو اس نے اپنی سوشیل میڈیا کے اکائونٹ سے دہلی پولیس سے بھوشن کو ڈھونڈ نکالنے کی اپیل کی اور بھوشن کا پتہ چلنے کے بعد دہلی پولیس اور دیگر کا شکریہ ادا کیا۔
قارئین بھوشن کے بارے میں تو اخباری رپورٹ میں بتلایا گیا کہ تیرہ برس کا یہ لڑکا اسکول کا طالب علم ہے اور سوشیل میڈیا استعمال کرتا ہے اور سوشیل میڈیا پر ہی ملھن کو پسند کرتا ہے اور اسکول کو چھوڑ کر 250 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے اپنے پسندیدہ یوٹیوبر سے ملنے اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ واقعی یہ دیوانگی نظر آتی ہے کہ اتنی کم عمر میں ایک لڑکا 250 کیلومیٹر کا طویل فاصلہ سائیکل پر طئے کرلیتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے یہ نشچے ملھن کون ہیں اور یوٹیوب پر کیا کرتا ہے ۔
نشچئے ملھن کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی ڈگری رکھتا ہے اور یوٹیوب پر ویڈیو بناکر اپ لوڈ کرتا رہتا ہے۔ یعنی ملھن کے پاس ڈگری تو کمپیوٹر سائنس کی ہے مگر وہ تفریحی نوعیت کے ویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا رہتا ہے۔ ملھن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف یوٹیوب پر اس کے شائقین 17 ملین سے زائد ہیں۔
فیس بک ہو یا یوٹیوب سوشیل میڈیا پر اپنا مواد ڈال کر لوگوں کو تفریح فراہم کر کے اپنے لیے لاکھوں روپئے کمانے والے لوگ دو ایک نہیں بلکہ ہزاروں ہیں اور جہاں تک ان سوشیل میڈیا کے پرستاروں کی بات ہے تو ان کے چاہنے والے ہزاروں ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ جن میں 13 سال کے بھوشن جیسے کم عمر بچے بھی شامل ہیں جو سائیکل پر پنجاب سے دہلی تک سفر کرنے تیار ہیں تاکہ سوشیل میڈیا کے ان ستاروں سے ملاقات کریں۔
قارئین کرام 13 سال کے بھوشن کے بارے میں آپ نے پڑھا کہ یہ کیسے یوٹیوبر سے متاثر ہوا اور اپنے پسندیدہ فنکار سے ملنے کے لیے کیسے جتن کیے ۔
اب ذرا 10 سال کی کشمیری اسکول کی طالبہ اقصیٰ مسرت کے بارے میں بھی جان لیجئے گا۔ اقصیٰ مسرت سوپور کے ایک اسکول کی طالبہ ہے۔ انٹرنیٹ پر اس کم عمر لڑکی کے ویڈیوز نے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ جی ہاں اقصیٰ مسرت کسی یوٹیوبر کی فیان نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنی ویڈیوز یوٹیوب پر اپلوڈ کرتی ہے۔ اس کے شائقین تین ہزار سے زائد ہیں۔ فیس بک پر اقصیٰ کو پسند کرنے والوں کی تعداد 58 ہزار سے زائد ہے۔
اقصیٰ کس طرح کے ویڈیوز بناتی ہیں اس حوالے سے این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام نے 3؍اکتوبر کو بھاویاکی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقصیٰ اپنے ویڈیوز میں کشمیر کی خوبصورتی پر تو بات کرتی ہے ساتھ ہی 10 برس کی یہ کم عمر طالبہ اپنی کمیونٹی کو درپیش مسائل اور چیالنجس پر بھی بات کرتی ہے۔
اتنا ہی نہیں خبر رساں ادارے اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق تو اقصیٰ نے اپنا سب سے پہلا ویڈیو اس وقت بن ایا تھا جب اس کی عمر صرف 6 برس تھی۔
اقصیٰ نے ایک ویڈیو میرے ماموں کی شادی کے عنوان سے بنایا تھا جس کو دس لاکھ سے زائد لوگوں نے مشاہدہ کیا۔
سوشیل میڈیا پر لوگ ویڈیو بناتے ہیں اور بنارہے ہیں تو اس میں کونسی خاص بات ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔ قارئین کرام سوشیل میڈیا جانے انجانے میں ہماری نوجوان نسل کی روز مرہ زندگی کا ایک اٹوٹ جز بن چکا ہے۔کیا آپ نے سونچا ہے کہ یہ لوگ آن لائن کیا دیکھتے ہیں۔
سوشیل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب جیسے ملک میں General Authority for Statics نے Saudi Youth Development Survey کے نتائج کو جاری کیا تو پتہ چلا کہ 34 سال سے کم عمر 67 فیصدی سعودی عوام سوشیل میڈیا پر اپنا اکائونٹ رکھتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔
15 تا 34 برس کے سعودیوں کے حوالے سے رپورٹ میں بتلایا گیا کہ اس طبقے کے 98 فیصدی سعودی سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ قارئین یہ تو ان سعودیوں کی تعداد ہوگئی جو سوشیل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس کا استعمال کرتے ہیں۔
سال 2021 کے دوران سعودی عرب میں کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ سوشیل میڈیا سعودیوں کی غذائی عادات کو بھی متاثر کر رہا ہے اور ان پر اثر انداز ہو رہا ہے اور مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین سوشیل میڈیا سے زیادہ اثرات قبول کر رہی ہیں ۔ ان لوگوں میں بھی گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین سوشیل میڈیا کے اثرات کو زیادہ قبول کر رہی ہیں۔ بہ نسبت کم تعلیم یافتہ خواتین کے۔
موٹاپے کا شکار سعودیوں کی اکثریت موٹاپے کو کم کرنے اور دبلے ہونے کے لیے سوشیل میڈیا پر بتلائے گئے طریقوں اور مصنوعات پر انحصار کر رہی ہیں۔صرف سعودی عرب ہی نہیں آسٹریلیاء میں بھی یہ بات تحقیق سے ثابت ہوئی کہ سوشیل میڈیا کا استعمال کرنے والے غذائی بد احتیاطی کا شکار ہوتے ہیں۔
امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کم عمر اور نوخیز نوجوانوں میں صحت مند غذائی عادات کا نہ ہونا، نیند کی کمی کی شکایت کا راست تعلق سوشیل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
غرض سعودی عرب میں کی گئی تحقیق سے یہ بات ثابت کی کہ سوشیل میڈیا کے سبب لوگوں میں غیر صحت مند غذاء کے استعمال اور موٹاپے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سوشیل میڈیا کی ہر لحظہ بدلتی ہوئی صورتحال میں والدین اور سرپرستوں کے لیے نئے چیالنجس ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ سب سے بڑا چیالنج کہ اپنے بچوں کو سوشیل میڈیا کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جاسکے۔دوم بچوں میں سوشیل میڈیا کے صحت مند استعمال کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ہاتھوں سے موبائل فون چھین کر ان کو کمپیوٹر کے استعمال سے روک کر بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے تو عملی طور پر یہ حقیقت ہے کہ ایسا کرنا بلکہ سونچنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔
اب حکومت بھی سوشیل میڈیا کے ذریعہ غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے۔ قواعد بنائے جارہے ہیں۔ 11؍ اکتوبر 2022کو کرناٹک ہائی کورٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ انسٹاگرام کے ذریعہ جعلی تھراپی کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کرے۔ یہ تو حکومتی اقدام تھا۔
اب والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل پر گفتگو کے آداب سے لے کر سوشیل میڈیا کے صحت مند استعمال کے متعلق تربیت فراہم کریں۔ اگر والدین بچوں سے بات نہیں کریں گے تب بچے تربیت دوستوں سے لیں گے جس کا مقصد تفریح و طبع ہی ہوگا۔ بہتری اور بھلائی کے بارے میں کوئی خیال نہیں رکھا جائے گا۔ اس لیے یہ کہنا سچ ہے اگر تربیت نہ ہو تو کوئی دوا نہیں بس رونا ہے۔ اس لیے قبل اس کے کہ سوشیل میڈیا ہمارے بچوں کے لیے ہم سے زیادہ پیارا ہوجائے، ہمیں خود اپنے بچوں سے پیار کا اظہار کرنا ہوگا اور انہیں اچھا کیا ہے اور برا کیا اس کی تمیز کروانی ہوگی۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔ sarwari829@yahoo.com