مضامین

یکساں سیول کوڈ ۔کیا ملک کی ضرورت ہے!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

گجرات اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں زبردست کا میابی کے بعد بی جے پی پھر سے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈا پر آ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک پرائیوٹ بل پیش کر دیا گیا۔لوک سبھا میں بھی دو دن پہلے اس پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اب جب کہ لوک سبھا الیکشن کا مرحلہ قریب ہے، بی جے پی نے ملک میںیکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ بڑے زور و شور سے شروع کر دیا ہے۔ یکساں سول کوڈ بی جے پی کے لیے 2024میں ہونے والے عام انتخابات کا ترجیحی ایجنڈا بھی بن سکتا ہے۔ اسی لیے ابھی سے ملکی سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اورمذہبی منافرت پھیلانے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور جموں و کشمیر سے متعلق دستور کی دفعہ 370کی تنسیخ اور ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کا شروع سے ہی ایجنڈا رہا ہے۔ 6 ڈسمبر 1992کو تاریخی بابری مسجد ہندو دہشت گردوں کی جانب سے شہید کر دی گئی اور اب وہاں رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔ 5 ا گست 2019کی رات یکلخت جموں و کشمیر کی دفعہ 370کو برخاست کر کے ریاست کے حصے بخرے کردیے گئے۔ ان دو "کارناموں "کی انجام دہی کے بعد اب بی جے پی یکساں سول کوڈ کے مسئلہ کو گرما کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے نوسالہ دورِ حکومت میں ملک کے عوام جن ناقابلِ بیان مسائل کا شکار ہوئے اور کن کن مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا ، یہ سب کچھ عوام پر عیاں ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے وہ سب سراب ثابت ہوئے۔ بیروزگاری اور غربت نے عوام کے ہوش اڑادیے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی محض ایک خواب بن کر رہ گئی۔ عوام میں حکومت کے تئیں ناراضگی اور غصہ بڑھتاجا رہا ہے۔ سماج کا کوئی طبقہ حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ایسے میں فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول پیدا کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی فرسودہ پالیسی پر بی جے پی پھر سے عمل پیرا ہو گئی ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر ہماچل پردیش، ارونا چل پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور کرناٹک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے تعلق سے ان ریاستوں کی حکومتوں کی جانب سے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں تا کہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ کس انداز میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ ممکن ہو سکے۔ خاص طور پر گجرات میں عین الیکشن سے پہلے بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ کو شامل کرکے ہندو اکثریت کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ساتویں مرتبہ بر سر اقتدار آتی ہے تو گجرات میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کردے گی۔ چنا چہ رائے دہندوں کو گمراہ کر کے بی جے پی نے گجرات میں غیر معمولی کا میابی حاصل کرلی۔ گجرات میں پھر سے اقتدار پر آنے کے لیے بی جے پی نے یکساں سول کوڈ کا نعرہ بلند کیا۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب سے یہ ملک آزاد ہوا ہے۔ دستور سازوں نے آئین کی دفعہ 44کے ذریعہ یہ واضح کر دیا کہ یکساں سول کوڈ کے معاملے میں حکومت کسی جلدبازی سے کام نہیں لے گی اور اس کے نفاذ کا حق ریاستی حکومتوں کو دستور نے پہلے روز سے ہی نہیں دیا ہے۔ دستورِ ہند کے باب چہارم میں ریاست کے رہنمایانہ اصولوں کے تحت یکساں سول کوڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ مملکت ملک کے تمام طبقات کی رضامندی کے بعد ہی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی اورجب تک سارے طبقوں کی رضامندی نہیں ہوگی یکساں سول کوڈ نافذنہیں کیا جائے گا۔
مرکز میں جب سے بی جے پی کو اقتدارحاصل ہوا ہے متنازعہ موضوعات کو چھیڑ کر زبردستی ملک کے ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کا عمل بڑی تیزی سے جا ری ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کئی مذاہب پائے جا تے ہیں اور ہر ایک مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں، وہاں کیسے سب کو ایک قانون کے تحت لایا جاسکتا ہے۔ ملک کے دستور نے سب ہی شہریوں کو اپنے اپنے پسندیدہ مذہب کو اختیارکرنے اور اس کی پرامن انداز میں تبلیغ کی بھی آزادی دی ہے۔ اس دستوری حق کے ہوتے ہوئے شہریوں سے ان کی مذہبی آزادی کو چھین کر یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی باتیں کرنا ملک کو ایک بڑے بحران میں مبتلا کر نا ہے۔ مذہبی آزادی کا حق ایک بنیادی حق ہے جسے عام حالات میں کوئی حکومت ختم نہیں کرسکتی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذکے معنی مذہبی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا یہ شوشہ دراصل مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے تا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھنے کی راہیں ہموار ہوسکیں۔ لیکن مسلمانوں کے علاوہ ملک کے کئی اور طبقے بھی ایسے ہیں جو یکساں سول کوڈ کے اس راگ کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک میں کئی ایسی مذہبی اکائیاں ہیں جن کی اپنی الگ مذہبی روایات ہیں ، اس سے وہ ہرگز دستبردار نہیں ہوں گی۔ کسی بھی طبقہ کے پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ ملک میں انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے بار بار دفعہ 44کا جو حوالہ دیا جا تا ہے اور اس کی غلط انداز میں تشریح کرتے ہوئے یہ باور کیا جاتا ہے کہ دستور سازوں کا منشاءاور مقصد یہی تھا کہ ملک میں دیر یا سویر یکساں سول کوڈ نافذ کردیا جائے، اسی لیے اس دفعہ کو دستور میں درج کر دیا گیا۔ جب کہ دستور کے معماروں کا ایسا کوئی خیال ہی نہیں تھا۔ اگر یکساں سول کوڈ ملک کے مفاد میں ہوتا تو اسے رہنمایانہ اصولوں کے بجائے بنیادی حقوق کی فہر ست میں شامل کیا جاتا۔ دستور کے مدّون کرنے والے جانتے تھے کہ ہندوستان ایک کثیر مذہبی اور ہمہ تہذیبی خصوصیات رکھنے والا ملک ہے۔ یہاں کسی مخصوص مذہب یا تہذیب کو مسلط کرنا اس کی رنگا رنگی کو ختم کردینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے دستور مرتب کرنے والوں نے اپنی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے مذہبی آزادی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اسے شہریوں کا بنیادی حق قرار دیا اور یکساں سول کوڈ کو ترغیبی زمرے میں رکھتے ہوئے اسے کوئی خصوصی موقف نہیں دیا، لیکن وقفے وقفے سے یکساں سول کوڈ کی تائید میں جو آوازیں اُٹھتی ہیں، اس کے پس پردہ سیاسی عزائم ہو تے ہیں۔ ملک کی سا لمیت اور یکجہتی محض یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے حکومتوں کو دستور کے مطابق اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے ہوں گے۔ آج ملک جس دھماکو صورت حال سے گزررہا ہے، اس سے اہل ملک بخوبی واقف ہیں۔ قوم پرستی کے نعرے تو فضاو¿ں میں گونجتے ہیں، لیکن ہندوستانی قوم جس دو راہے پر لاکھڑی کردی گئی، اسے ساری دنیا سَِر کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ کر بی جے پی جہاں ایک طرف ملک کے ماحول کو خراب کرنا چاہتی ہے دوسری طرف ملک کے بنیادی اور حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ یہ دراصل اپنی مفوضہ فرائض سے فرار کی روش کے سواءاور کچھ نہیں ہے۔ جووعدے اقتدار پر آنے سے پہلے کیے گئے تھے، آج ساڑھے آٹھ سال بعد بھی شرمندہ تعبیر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ دعویٰ کی گیا تھا کہ سالانہ دو کروڑ نوکریاں دی جائیں گی ، بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لایا جائے گا اور غریبوں کی فلاح کے لیے مختلف اسکیمیں لائی جائیں گی، لیکن کسی پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اب تو حکومت سے سوال کرنا بھی ملک سے غداری مانا جا رہا ہے۔
ملک کے سلگتے ہوئے موضوعات کو نظرانداز کرکے ایسے مسائل کو ہَوا دی جا رہی ہے جس سے نہ ملک کا کوئی فائدہ ہونے والا ہے اور نہ عوام کو کوئی راحت ملنے والی ہے۔ اس کے برعکس ملک میں نِت نئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ میں بی جے پی جس تیاری کے ساتھ میدان میں کود پڑی ہے اور پارلیمنٹ میں بل لانے کی تیاری کی جارہی ہے ان سب کا مقصد عوام کو ذہنی الجھن میں مبتلا کرکے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنا ہے اور وہ ایجنڈا ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرکے سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے۔ یہ بات خود جمہوری اصولوں کے خلاف ہے کہ کوئی حکومت من مانی طور پر شہریوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کے لیے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دے۔ اس وقت کئی گھمبیر مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں اور ایسے نازک وقت ملک میں کامن سول کوڈ کے نفاذ کی باتیں کرنا ملک کی بدخدمتی کی بدترین مثال ہے۔ یہ سارے اقدامات مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، لیکن ملک کے بہت سارے طبقوں کے لیے بھی یکساں سول کوڈ ناقابل قبول ہے۔خاص طور پر دیگر اقلیتوں اور قبائلی طبقوں کے لیے بھی یکساں سول کو ڈ ایک سّم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ طبقے بھی وقت آنے پر اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ جس وقت ملک آزاد نہیں ہوا تھا اور انگریز حکومت کر تے تھے ، ایسے وقت بھی یہاں کی آبادی کو جو کہ غلام تھی ، لیکن ان کے پرسنل لا کو انگریزوں نے قبول کر تے ہوئے اس پر عمل کرنے کی انہیں پوری آزادی دی تھی۔ لیکن آج جب کہ ہندوستانی قوم آزادی کی فضاءمیں سانس لے رہی ہے اس سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اپنی دیرینہ مذہبی روایات سے دست کش ہوکر ایک انہونے سسٹم کو یکساں سول کوڈ کے نام پر قبول کرلے۔ یہ نظام کیسا ہو گا اس کا کوئی قابل قبول جواب ان لوگوں کے پاس بھی نہیں ہے جو یکساں سول کوڈ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی ملک میں الیکشن کا مرحلہ آتا ہے بی جے پی کو یکساں سول کوڈ کی یاد آجاتی ہے اور اسے نافذ کرنے کا مطالبہ سنگھ پریوار سے وابستہ مختلف تنظیموں کی جانب سے زور پکڑتا ہے۔ اب جب کہ عام انتخابات کے لیے الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، اس لیے اس ضمن میں کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ یکساں سول کوڈ، بی جے پی کا ایک سیاسی اور انتخابی حربہ ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ 2024 کے الیکشن میں کا میابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں ۔ ساڑھے آٹھ سال پہلے جو وعدے کئے گئے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ اس سے عوام میں ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی خطرہ کو محسوس کر تے ہوئے نزاعی مسائل کو چھیڑ کر بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ گجرات میں یہی آزمودہ حربہ استعمال کیا گیا۔ اب پھر سماج کے مختلف طبقات کے درمیان تناو¿ پیدا کرکے بی جے پی راج سنگھاسن پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی پروگرام اس کے پاس نہیں ہے۔ ا س لیے فرقہ وارانہ اور متنازعہ موضوعات کا سہارا لے کر سماج میں زہر گھولا جا رہا ہے ۔یہ ایک سیاسی ہتھکنڈا ہے جس کے ذریعہ عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوکر ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ حقیقی مسائل پر بحث و مباحث کی نوبت ہی نہ آئے۔ بی جے پی کے ان مذموم عزائم سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے ملک کے تما م طبقات کو متحد ہوکر اس کے خلاف آوازاٹھانی ہوگی۔ اس معاملے میں ہندوستانی مسلمانوں کو چوکس رہنا ضروری ہے لیکن جذباتی ردعمل سے اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے ۔بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نام پر مسلمان مشتعل ہو جائیں اور سڑکوں پر نکل آئیں تاکہ اس سے وہ سیاسی فائدہ اٹھاسکے۔ اس لیے مسلمانوں کو بہت ہی محتاط حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔ ٭٭
٭٭٭