بھارت

مودی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد منظور

دوپہر 12 بجے لوک سبھا کی کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔

نئی دہلی: لوک سبھا میں آج کانگریس نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جسے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے منظوری دے دی۔

متعلقہ خبریں
پرینکا گاندھی کا روڈ شو، مسلم علاقوں میں مکانوں کی چھتوں سے پھول برسائے گئے
سخت سیکوریٹی کے درمیان بیالٹ یونٹس تانڈور منتقل
کڑپہ سے شرمیلا کی امیدواری، خاندانی جھگڑے سیاسی جنگ میں تبدیل
لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی کا پتہ چلانے کجریوال کا فون ای ڈی کو مطلوب
بی آر ایس کے مزید 2 امیدواروں کا اعلان، سابق آئی اے ایس و آئی پی ایس عہدیداروں کو ٹکٹ

دوپہر 12 بجے لوک سبھا کی کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔

وقفہ صفر کے دوران ضروری دستاویزات ایوان پیش کئے جانے کے بعد مسٹر برلا نے اراکین کو بتایا کہ انہیں مسٹر گوگوئی کی طرف سے وزراء کی کونسل میں عدم اعتماد کی تحریک موصول ہوئی ہے وہ اس تحریک کو منظوری فراہم کرتے ہیں ۔

لوک سبھا اسپیکر نے کہا کہ ایوان کے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کے بعد وہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے وقت کا تعین کریں گے۔ موجودہ لوک سبھا میں پہلی بار اپوزیشن کی طرف سے مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لوک سبھا میں چہارشنبہ کو کانگریس نے اپنے 26 پارٹیوں والے انڈیا اتحاد کی جانب سے مرکز میں نو سال سے برسراقتدار قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی نریندر مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جسے لوک سبھا اسپیکر نے غور کے لیے قبول کر لیا۔

کانگریس کی جانب سے یہ قرارداد پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے ایوان میں پیش کی۔ اسپیکر اوم برلا نے وقفہ صفر کے دوران ضروری دستاویزات میز پر رکھنے کے بعد ایوان کو مطلع کیا کہ انہیں مسٹر گوگوئی کی طرف سے وزراء کی کونسل میں عدم اعتماد کی تحریک موصول ہوئی ہے۔ وہ اس تحریک کی منظوری دیتے ہیں۔

لوک سبھا اسپیکر نے کہا کہ ایوان میں تمام قائدین سے مشاورت کے بعد وہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے وقت طے کریں گے۔

منی پور کے واقعات کے بارے میں پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے بیان کا مطالبہ کرتے ہوئے پانچ دنوں سے ہنگامہ برپا کرنے والے اپوزیشن اتحاد نے اپنے ترکش کا سب سے مہلک ہتھیار نکال لیا ہے۔ کانگریس کا خیال ہے کہ تعداد کے توازن کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پاس نہیں ہو سکتی، لیکن یہ ‘دیش’ کی روح کو ظاہر کرے گی۔

مسٹر گوگوئی نے بعد میں قرارداد پر نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ "یہ درست ہے کہ ہم ایوان میں تعداد کے لحاظ سے قرارداد کے پاس ہونے کے امکان سے واقف ہیں، لیکن ہندوستان ہمارے ساتھ ہے، ہندوستان ‘انڈیا’ (اتحاد) کے ساتھ ہے۔”

قواعد کے مطابق تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کانگریس اور انڈیا کی اتحادی جماعتوں کے 50 سے زائد اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کی گئی ہے۔ لوک سبھا کے رول 198 کے مطابق صبح 10 بجے سے پہلے ممبران پارلیمنٹ کو تحریری نوٹس دیے گئے تھے، جنہیں بعد میں اسپیکر نے ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ قواعد کے مطابق اسپیکر کو نوٹس کے قبول ہونے کے 10 دن کے اندر تاریخ الاٹ کرنی ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد پر بحث کی تاریخ شام تک نہیں آئی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اپوزیشن مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی ہے۔ اس سے قبل 20 جولائی 2018 کو مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔ مودی حکومت کے موجودہ دور میں یہ پہلی بار ہے۔

این ڈی اے کے پاس اس وقت کل ملاکر 325 ممبران پارلیمنٹ ہیں اور صرف 126 ممبران پارلیمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔ این ڈی اے کو تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹوں کی تعداد 350 سے زیادہ ہونے کی امید ہے۔

این ڈی اے کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے لیکن عدم اعتماد کی تحریک کو اپوزیشن اتحاد کی یکجہتی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دراصل اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کو پارلیمنٹ میں آکر منی پور پر بیان دینا چاہیے۔ دریں اثنا، منگل کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں مسٹر مودی نے انڈیا اتحاد پر حملہ کرتے ہوئے اس اتحاد کا موازنہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انڈین مجاہدین سے کیا تھا۔ اس سے اپوزیشن میں شدید ردعمل سامنے آیا اور ردعمل میں غالباً یہ تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا۔