مشرق وسطیٰ

ترکیہ اور شام زلزلے میں اموات کی تعداد 41 ہزار ہوگئی

ترک صدر رجب طیب اردغان نے زلزلہ زدہ علاقوں میں ریسکیو اور بحالی کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ قدرتی آفت کے نتیجے میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 41 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

انقرہ/ دمشق: ترک صدر رجب طیب اردغان نے زلزلہ زدہ علاقوں میں ریسکیو اور بحالی کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ قدرتی آفت کے نتیجے میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 41 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

متعلقہ خبریں
مشرقی انڈونیشیا میں 6.4 شدت کا زلزلہ
غزہ نسل کشی پر جشن منانے والا اسرائیلی فٹبالر گرفتار
ترکیہ نے 15 لاکھ بے گھر افراد کیلئے دوبارہ تعمیر شروع کر دی
ترکیہ میں ملبے تلے دبے افراد کو بچانے کی کوششیں ختم
استنبول میں ایک اور زلزلہ کا امکان: ماہرین

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں شام اور ترکیہ میں ہلاکتوں کی تعداد 41 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور بچ جانے والے بے سروسامانی کے عالم میں شدید سرد موسم سے نبرد آزما ہیں۔

ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (ایف اے ڈی) کے ہیڈکوارٹرز میں کابینہ کے اجلاس کے بعد ترک صدر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ‘منہدم ہوئی عمارتوں سے آخری شہری کو نکالنے تک ہم اپنا کام جاری رکھیں گے ’۔

انہوں نے کہا کہ عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ ایک ہفتے میں مکمل کرلیا جائے گا جبکہ آئندہ آنے والے مہینوں میں تعمیر نو شروع کردی جائے گی۔دریں اثنا ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم زلزلے کے نتیجے میں تباہ یا ناقابل استعمال ہوجانے والے تمام گھروں، کام کی جگہوں کو دوبارہ تعمیر کریں گے اور انہیں ان کے حقیقی مالکان کے حوالے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں ایک لاکھ 5 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے جس میں سے 13 ہزار اب بھی ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔حالانکہ ملبے تلے دبے ہوئے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں تاہم اب بھی لوگوں کے معجزانہ طور پر زندہ نکالے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور منگل کے روز 10 لوگوں کو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے زندہ نکالا گیا۔

ترک صدر نے 7.8 شدت کے قیامت خیز زلزلے پر ابتدائی ردِعمل میں مسائل کا اعتراف کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال قابو میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ انسانی تاریخ کی بدترین قدرتی آفات میں سے ایک کا سامنا کررہے ہیں۔رجب طیب اردغان نے کہا کہ شدید متاثرہ علاقوں سے 22 لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں اور عمارتیں ناقابلِ رہائش بن گئی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے حکام نے کہا کہ ریسکیو کا مرحلہ اب ختم ہونے کے قریب ہے اور اب شیلٹر، خوراک اور اسکولنگ پر توجہ دی جائے گی۔ترکیہ کے جنوب مشرقی شہر غازی انتیب کے ایک کھیل کے میدان میں اپنے خاندان کے ہمراہ مقیم شامی پناہ گزین حسن سائموا نے کہا کہ‘لوگوں کو بہت تکالیف کا سامنا ہے، ہم نے ایک خیمے، امداد اور کچھ چیزوں کے حصول کی کوشش کی لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا’۔

اپنے ملک میں جاری جنگ سے پناہ لینے کے لیے ترکیہ کے شہر غازی انتیپ آنے والے حسن سمیت دیگر شامی مہاجرین زلزلے سے بے گھر ہوچکے ہیں، انہوں نے پلاسٹک شیٹس، کمبلوں اور کارڈ بورڈ کی مدد سے عارضی خیمے بنا رکھے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے یورپ ہنری پی لیوگ نے کہا کہ‘ضروریات بہت زیادہ ہیں جن میں ہر لمحے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، دونوں ممالک میں 2 کروڑ 60 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے ’۔

اس کے علاوہ شدید ٹھنڈ، صفائی ستھرائی اور نکاسی آب کے باعث پیدا ہونے والے صحت کے مسائل اور وبائی امراض بھی خدشات بڑھا رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ خطرہ کمزور افراد کو ہے۔ترکیہ اور شام کے متاثرہ علاقوں میں خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان کے بچے زلزلے کے بعد نفسیاتی اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔

حسن معاذ نے اپنے 9 سالہ بیٹے کے بارے میں بتایا کہ جب بھی وہ زلزلے کو بھولتا ہے، کوئی زوردار آواز سن کر اسے پھر یاد آجاتا ہے، سوتے ہوئے بھی اگر کوئی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی ہے تو وہ اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ‘ابو، آفٹر شاک آیا ہے ’۔

اقوامِ متحدہ سے امداد کا پہلا قافلہ ترکی سے نئے کھولی گئی باب السلام کراسنگ کے ذریعے شام کے شمال مغرب میں باغیوں کے زیرِ اثر علاقے میں پہنچا۔شام میں امدادی کام کرنے والی تنظیم وائٹ ہیلمٹس کے سربراہ رعید الصالح نے کہا کہ شام مغربی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش اب ختم ہونے والی ہے۔

ترک صدر نے بتایا کہ زلزلے کے نتیجے میں ترکیہ میں اب تک اموات کی تعداد 35 ہزار 418 تک پہنچ چکی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کے ادارے اور شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق وہاں 5 ہزار 814 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔بچ جانے والوں نے بڑے پیمانے پر متاثرہ علاقوں میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی کرلی ہے۔