سوشیل میڈیامذہب

مساجد کے لئے چندہ

بہتر تو یہ ہے کہ مسجد میں دنیوی گفتگو نہ کی جائے ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت میں وقت گذارا جائے ؛ لیکن ضروری گفتگو اور ایسی گفتگو جس میں کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو ، کی جاسکتی ہے :

سوال:- مساجد میں فرض نماز کے فوراً بعد اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مدارس کے سفیر چندہ سے متعلق اعلان کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بلند آواز میں مدرسہ میں طلباء کی تعداد ، سالانہ اخراجات اور مدرسہ جن حالات سے دوچار ہے ، ان کو تفصیلاً بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے جو نمازی (مسبوق) تاخیر سے نماز میں شامل ہوتے ہیں ، ان کی بقیہ نماز میں خلل پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔(فیضان اللہ، مہدی پٹنم )

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جواب :- بہتر تو یہ ہے کہ مسجد میں دنیوی گفتگو نہ کی جائے ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت میں وقت گذارا جائے ؛ لیکن ضروری گفتگو اور ایسی گفتگو جس میں کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو ، کی جاسکتی ہے :

’’الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز فی المساجد وإن کان الاولٰی ان یشتغل بذکر اﷲ تعالٰی‘‘ (ردالمحتار :۱؍۶۶۲) –

جہاں تک مدرسہ کے چندہ کی بات ہے تو مسلمانوں کی ضروریات اور دینی مقاصد کے لئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں ترغیب دیا کرتے تھے ،

اس لئے مدارس یا مساجد کے چندہ کا اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ؛ البتہ اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ دوسروں کو نماز میں خلل نہ ہو ،

اس لئے یا تو سنت مکمل ہونے کے بعد اعلان کرنا چاہئے یا آواز ایسی رکھنی چاہئے کہ نماز پڑھنے والوں کو دقت نہ ہو ۔