مضامین

امریکہ اور افغان طالبان کے تعلقات کا دو سالہ دور

عبدالباسط خان

طالبان کے دو سالہ اقتدار میں بعض غیر متنازع علاقوں میں پیش رفت کے باوجود امریکہ اور طالبان کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی ہے۔ امریکہ نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ طالبان حکومت نے حال ہی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اگرچہ طالبان کے دور میں افغانستان بین الاقوامی عسکریت پسندوں کا مرکز نہیں بنا ہے، تاہم القاعدہ اور داعش خراسان سے متعلق امریکی سلامتی کے خدشات برقرار ہیں۔ مسائل کے باوجود امریکہ اور طالبان میں معاشی بحران اور افغانستان میں خانہ جنگی سے بچنے کے لیے محدود تعلقات ہیں۔ 30 اور 31 جولائی کو دوحہ میں امریکی محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان تھامس ویسٹ اور افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پہلی باضابطہ ملاقات کی۔ یہ ملاقات امریکہ اور طالبان کے تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگرچہ امریکہ نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن اب امریکہ نے طالبان کو افغانستان کا سرکاری نمائندہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ امریکہ کی طرف سے طالبان کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے کہ افغانستان میں ان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور امریکہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کی کسی بھی کوشش کی پشت پناہی نہیں کرے گا۔
ماضی میں، امریکہ نے طالبان کے کسی نمائندے سے اس وقت تک ملاقات کرنے سے اجتناب کیا کہ جب تک وہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام کرنے پر پابندی کو واپس نہ لیں۔ مزید برآں، انسانی حقوق کے معاملے پر امریکہ کے شدید تحفظات کے باوجود، بائیڈن انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی، بدعنوانی، انسداد منشیات اور افغانستان میں امن و استحکام پر پیش رفت کا اعتراف کیا ہے۔ لہٰذا امکان ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان غیر متنازع مسائل جیسے انسدادِ منشیات، انسانی امداد، انسدادِ دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے مسئلے پر تعاون بڑھے گا۔ حال ہی میں امریکہ نے اعلیٰ سطح پر انسداد دہشت گردی کے عزم پر طالبان کی محدود پیش رفت کا اشارہ دیا ہے۔ 30 جون کو ایک تقریر میں صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے کہا ہے۔ بقول بائیڈن: ’ہمیں طالبان سے مدد مل رہی ہے۔‘ یہ بیان بالواسطہ طور پر دولت اسلامیہ صوبہ خراسان (آئی ایس کے پی) کے خلاف امریکہ اور طالبان کے بڑھتے ہوئے تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ طالبان داعش خراسان کے خلاف موثر کارروائی کررہے ہیں اور گزشتہ چھ مہینوں میں گروپ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو مارا جا چکا ہے، جس کے سبب داعش خراسان کو آپریشنل اور تنظیمی طور پر نقصان اٹھانا پڑا ہے اور یہ گروپ کی کم ہوتی کارروائیوں اور پروپیگنڈا میں نظر آتا ہے۔
گزشتہ سال 2022 میں 235 حملوں کا دعویٰ کرنے والے داعش نے 2023 میں صرف 12 حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔ داعش خراسان کے خلاف موثر پیش رفت کے باوجود گروپ کی افغانستان سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت برقرار ہے۔ مثال کے طور پر رواں سال فروری میں افغانستان میں مغربی سفارت خانوں /قونصل خانوں، گرجا گھروں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے تقریباً 13 بین الاقوامی دہشت گردی کی سازشوں کا سراغ لگایا گیا تھا۔ طالبان کا انسداد دہشت گردی کا نقطہ نظر تین واضح عمودی نکات کے ساتھ تیار ہوا ہے۔ پہلا داعش خراسان کے خلاف ایک ’بے رحم‘ کریک ڈاؤن۔ دوسرا تعاون کا فقدان اور افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے مکمل انکار۔ تیسرا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروپوں کی کھلی سرپرستی۔ امریکہ دوحہ معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کے خلاف غیر مشروط تعاون فراہم کیا تو نہ صرف وہ اپنا نظریاتی جواز کھو دیں گے، بلکہ اندرونی طور پر بھی تقسیم کا سبب بنیں گے۔ افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور معیشت کی زبوں حالی کے باوجود، امریکہ نے افغانستان کے سات ارب ڈالر کے اثاثوں کو غیر منجمد کرنے سے انکار کیا، جن میں سے نصف کو سوئٹزرلینڈ میں قائم فنڈ میں منتقل کردیا گیا۔ مارچ میں یونائیٹڈ اسٹیٹ ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) کی طرف سے مالی اعانت فراہم کرنے والا اور منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور بینکنگ کی نگرانی کے خلاف ایک آزاد ٹھیکیدار ’ڈی اے بی‘ کے ذریعے کروایا گیا آڈٹ، امریکی محکمہ خزانہ کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔جب تک ڈی اے بی خود کو سیاسی مداخلت اور اثر و رسوخ سے آزاد نہیں کرتا اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف تکنیکی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرتا، افغان اثاثوں کو جاری نہیں کیا جائے گا۔
31-30 جولائی کی ملاقات کے بعد فریقین کی طرف سے جاری کردہ ہینڈ آؤٹ بھی کچھ اختلافات اور چیلنجوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ طالبان کے لیے سفارتی شناخت، سفری پابندیاں اور معیشت اہم معاملات ہیں۔ دوسری طرف امریکہ انسانی حقوق کے بارے میں اپنے موقف میں نرمی کے باوجود، چاہتا ہے کہ طالبان خواتین اور اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دیں اور ساتھ ہی بینکنگ سیکٹر میں تکنیکی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے امریکی ہچکچاہٹ بھی دو طرفہ معاملات میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان رہنماؤں کے حوالے سے سفری پابندیوں پر بھی دونوں جانب اختلافات برقرار ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں دو سالہ اقتدار کے باوجود امریکی سکیورٹی کے خدشات برقرار ہیں، جس کے سبب امریکہ افغانستان کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور اس کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں افغان حکومت کے منجمد اثاثوں کو افغان حکام کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر طالبان حکومت افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور روزگار سمیت اقلیتوں کے حقوق سے متعلق رویہ سخت کرتی جا رہی ہے، جس کے سبب مستقبل قریب میں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔