طنز و مزاحمضامین

مجھے کتابوں سے بچاﺅ

محمد اسد اللہ

دنیا میں بے شمارآ فتیں ، بلائیں اور مصیبتیںپائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ زمینی ہیں، کچھ آسمانی۔ ان سے بچاﺅ کی خاطر ہم رات دن دعائیں مانگتے ہیں ۔بلاﺅں کی اس قطار میں طوفان، زلزلے ،اور فسادات ہیں،اس میں نصف بہتر بھی کھڑی ہیں ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آ خر الذکر، اول الذکر تمام مصیبتوںکا مجموعہ ہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیگم کو ارضی و سماوی دونوں قسم کی بلاﺅں میں شمارکیا جاتا ہے کیوں کہ مشہور ہے : رشتے آسمانوں میں بنتے ہیں اور مرزا غالب کا یہ مصرع بھی موصوفہ ہی کی شان میں ہے ۔ ” ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آ سمان کیوں ہو“
مصائب کی اس فہرست میں یقینا کہیں بھی کتابوں کا ذکرنہیں ہے ۔پھر ہم کیوں کتابوں سے پناہ مانگ رہے ہیں ؟ کتابوں کی اشاعت سے متعلق موجودہ صورتِ حال سے اگر آ پ واقف ہیں تو یہ جانتے ہوں گے کہ آ سمانی کتابوں کے منکریں کے علاوہ زمینی کتابوں سے بیزار لوگوں کا بھی ایک بڑا طبقہ روئے زمیں پر موجود ہے ۔ یقیناکتابیں علم کا خزانہ ہیںاور نعمت کہلاتی ہیں ،تاہم وقت اور انسانوں کو بدلتے اور رحمتوں کو زحمتوں میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی ۔یہی کچھ فی زمانہ کتابوں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔بہت زیادہ وقت نہیں گزرا اردو کے کسی نامور محقق کا ایک بیان ہم نے کسی رسالے میں پڑھا (پھر چند دیگر ادیبوں نے بھی اس بیان کو دہرادیا )بہر حال اس محقق نے اپنے مداحوں اور دوستوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ تحفتاً انھیں اپنی کتابیںنہ بھجوائیں کیوں کہ اب ان کے گھر میں کتابیں رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے ۔ یہ پڑھ کر اس صاحبِ علم کے بارے میں ہمارے نیک خیالات اور خوش فہمیوں کے سارے قلعے مسمار ہوگئے بلکہ غصہ بھی آ یا کہ جس زبان نے انھیں یہ مرتبہ عطا کیا اس کی کتابوں کی ایسی تحقیر!
کل جس صورتِ حال کو ہم قابلِ نفریںسمجھتے تھے وقت نے ہمیں ان ہی حالات میں لا کھڑا کر دیا ہے۔ مذکورہ محقق کے نظریاتِ بد میںآ ج ہم خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں ۔ہم اب کتابوں سے اسی طرح بیزار ہیں جیسے کوئی مفلس کثرتِ اولاد سے پریشان ہوجاتا ہے اور ہم اس پریشانی کی واحد مثال نہیں ہیں،بے شمار مل جائیں گے ، خاص طور پر ادیب اور شاعر ۔
ادیبوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کتابوں کے درمیان جنم لیتے ہیں اور پھر کتابیں ان سے تولّد ہونے لگتی ہیں ۔ تخلیقا ت کو اولاد ِ معنوی کہا جاتا ہے ۔یہ اور با ت ہے کہ موجودہ دور کی اکثر تخلیقات میں معنویت مفقود ہے اور اولادیت باقی رہ گئی ہے ۔ کبھی یہی معنویت کتابوں کو گھر میں سینت سنبھال کررکھنے کا جواز تھی اب کتابوں کا پھیلتا ہوا مادی وجودانھیں گھر سے چلتا کرنے کا سبب ہے ۔ اب اکثر لوگ اپنے گھروں میں کتابیں سجا کر مہذب اور تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں ، ظاہر ہے ڈگریاں تو کتابوں ہی کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں ۔ ہمارے ایک شناسا خود کو ادیب ثابت کر نے کے لیے ان ہی کتابوں کو محبوب کی زلفوں کی طرح گھر بھر میں بکھرا کر رکھتے ہیں ۔ کوئی ادیب ،ناقد یا محقق اگر واقعی ادبی کام انجام دے رہا ہے تو اس کی الماریوں میں کتابیں دھول کھاتی پڑی نہیں رہ سکتیں اور نہ انھیںسجا نے کا اسے ہوش ر ہ پاتا ہے ۔ کتابوں کی تزئین کاری ہوش والوں ہی کا کمال ہے۔
بھلا ہو اردو اکادمیوں کا اور سر کاری اداروں کا جن کی فیاضیوں کے طفیل ہماری کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر آ نے لگیں تو ایسا لگا ہمارا غریب خانہ، ہمارا گھر نہیں رہا کتاب گھر بن گیا ہے ۔ شروع شروع میں ہمیں یہ شکایت رہی کہ کتابیں تو چھپ گئیں، مگر ادبی دنیا نے انھیں نظر بھر کر دیکھا تک نہیں مگر جلد ہی نظر انداز کیے جانے کا یہ گلہ جاتا رہا کہ اب کتابیں گھر والوں کی نظر میں آ نے لگی تھیں بلکہ کھٹکنے لگی تھیں ۔ مذکورہ تصانیف دوائے دل تو تھی نہیں کہ کاروبار آ گے بڑھتا ،شومی ِ قسمت سے سر مہ مفت نظر ثابت ہوئیں ۔ہم نے کسی سے ان کے فروخت نہ ہونے کا ذکر کیا تو کہنے لگے: جناب ان کا ولیمہ کر وائیے ، دھوم دھام سے رسمِ اجراءکا جشن منا ئیے ۔ ایک ہی کتاب کا کئی شہروں میں،’ مکرر ارشاد ہے‘ کہہ کر اجرا دہرائیے ۔ شہر کے ادب نواز موٹے مرغوں کو پکڑئیے ۔کتاب بیچنے کے کئی شریفانہ طریقے ہیں ۔ صرف اچھا ادیب ہونا کافی نہیں ہے ،اسے اچھا بز نس مین ہونا چاہیے ورنہ ایسا آ دمی وقت گزرنے پر ادیب بھی نہیں رہ پاتا ،آ ثارِ قدیمہ بن جاتا ہے ۔ جناب ِ عالی آ پ تو کتاب چھپواکر اپنے منھ میں دہی جما کر بیٹھ گئے ۔ادب کے کاروبار میں ایسے رنگ نہیں چڑھتا ’ لو دہی لودہی ‘ کہہ کر پھیری والے کی طرح اسے بیچنا پڑتا ہے ۔ اگر آ پ بذات ِخود اپنی کتاب کی شان میں ایک جملہ بھی کہیں گے تو ادب کے وہ چرب زبان ستون جو دوسروں سے اپنی تصانیف پر تھوک کے بھاﺅ سے مضامین لکھواکر چھپواتے ہیں ،آ پ کے سر پر خود ستائی کا الزام لگا کرستانے سے باز نہ آ ئیں گے ۔ ا ن کی اس حرکت میں یہ پیغام چھپا ہے کہ آ پ بھی دوسروںسے یا دوستوں کے نام سے اپنی اور کتاب کی شان میں قصیدے لکھوا کر دنیا کو بتائیے کہ اب اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرہ ۔
بد قسمتی سے ہم بھی ادیب ہیں اور چند دوستوں کے اصرار پر ان کی کتابوں پر تبصرے چھپوانے کی خطا کر بیٹھے چنانچہ اب کئی ادیبوں کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی ہر کتاب پر ایک مضمون یا تبصرہ لکھیں۔اسی دوران ایک مقامی رسالے کے ایڈیٹر نے ہمیں پکڑا کہ کوئی مبصر نہیں مل رہا ہے یہ کہہ کر یہ ذمہ داری اور کتابوں کا ایک بنڈل تھمادیا۔ ستم ظریفی یہ کہ جن ادیبوں کی وہ کتابیں تھیں ان کو خبر ملتے ہیں انھوں نے بھی اپنی نہ صرف تازہ تصنیف بلکہ پچھلی تمام کتابیں بھجوادیں کہ ان کی روشنی میں کچھ لکھو ۔انھیں کیسے سمجھاتے کہ ہمارا دولت کدہ پہلے ہی تجلی زار بنا ہوا ہے ۔ ہمارے گھر میں ہماری اپنی دیڑھ درجن کتابوں کے بنڈلوں کے علاوہ ہمارے شوق ِ مطالعہ کا حاصل کتابیں اور قلم کاروں اور دوستوں کی سوغاتیں،غرض سارا گھر کتابوں سے بھر گیا۔ گھر والے اس طوفانِ ادب سے گھبراگئے۔
ہم نے جب مکان تعمیر کیا تھا تواس نیک کام کے دوران یہ بھلا بیٹھے کہ ہمارے اندر کتابوں کے مطالعے کا شوقین شخص اور ایک ادیب بھی تشریف فر ما ہے ۔ عام لوگوں کی طرح ہم نے گھرمیں کتابوں کا کوئی کمرہ نہیں رکھا ۔ وقت کے ساتھ جب گھر کے مکین پھولنے پھلنے لگے تو ہمارامکان اس قدر سکڑتا ہوا محسوس ہونے لگا کہ اس کا ’گھر پن‘خطرے میں گھر گیا۔ تب ہم نے کچھ کر نے کی ٹھانی ۔کسی نہ کسی چیز کو تو دیس نکالا دینا ہی تھا ؛نظر ِانتخاب سب سے پہلے کتابوں پر پڑی، بلکہ لگتا ہے وہ پہلے ہی سے نظر میں تھیں ،بس کھٹکنے کا عمل ذرا دیر میں شروع ہوا۔ اب جو ان کتابوں پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ کتابیں پورے گھر میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں جیسے کسی ملک میں بے کاری اور بے روز گاری پھیل جاتی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھاکہ ان کتابوں کا اپنا کوئی ملک یعنی کمرہ نہیں تھاجہاں کی شہریت انھیں حاصل ہوتی ۔ وہ مختلف کمروں مثلاً ڈرائینگ روم ،بیڈ روم ،اسٹور روم ،حتیٰ کہ کچن ( کوکنگ سے متعلق کتابیں )اورگاہے بگاہے ڈائینگ روم کے ٹیبل پر بھی پڑی ہوئی پائی جاتی تھیں ۔ جہاں پڑھا وہیں چھوڑ دیاگیا ۔ بیوی کے لیے تو خیر ان کی حیثیت سوتن کی تھی ،مگر گھر کے دیگر افراد کے ٹھکانوں پر بھی کتابوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھاتھا۔ ہرچند ہم ہر دوچار ماہ بعد پڑھی ہوئی یا فضول کتابوں کو چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کی طرح پکڑ پکڑ کر شہر کی لائبریری کے حوالے کر آ تے تھے ۔ایک سست قسم کے لائبریرین نے تو ایک مرتبہ ہمیں سخت سست بھی کہہ ڈالا ۔اس کا یہ جملہ اب تک یاد ہے کہ ’جناب ! لوگ لائبریری میں کتابیں لینے آ تے ہیں اور آ پ کتابیں دینے ۔ ‘بات در اصل یہ تھی کہ ہمارے اس لینے کے دینے پڑجانے پر اس کا کام بڑھ جاتا تھا،رجسٹر میں کتابوں کی انٹری جو کرنی پڑتی تھی ۔ کتابوںکو لائبریریوں اور ضرورت مند اور غیر ضرورتمند دوستوں کے حوالے کر کے ہم اکثر خود کو احساس ِ جرم کا شکار پاتے ہیں ۔ یہ احساس ایسا ہی ہے جو ان باضمیر یا سست ضمیر لوگوں کو ہوا کرتا ہے جو اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آ تے ہیں۔ کبھی کتابیں ہماری سوجھ بوجھ اور دانشمندی کی مائی باپ تھیں، اب ان کتابوں کا کوئی مائی باپ نہیں ہے۔ ہم کتابوں کے مجرم ہیں، اس لیے کہ ہم انھیں چھپواتے ہیں؛ خریدتے ہیں ،بیچتے ہیں ، ان کے پی ڈی ایف جمع کر کے یا انھیں الماریوں میں سجا کر اور لوگوں کو ان کی تعداد بتا کر ان پر رعب جماتے ہیں، کتابوں سے شہرت پاتے ہیں ، ان کی مدد سے ملازمت اور عہدے حاصل کرتے ہیں ،انھیں اونچی ایڑی کی سنڈل بنا کر پہنتے ہیں اور خود کو سماج میں اونچا اٹھاتے ہیں ، ان کی مدد سے لوگوں کو نیچا دکھاتے ہیں، مگر انھیں پڑھتے نہیں یا کم پڑھتے ہیں اور زیادہ بتاتے ہیں ۔ کتابوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان کا مطالعہ کیا جائے ۔ ہم یہ حق ادا نہ کر کے ان کے مجرم ہیں مگر یہاں معاملہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا ہے۔ میں جب بھی کتابوں کو الماریوں میں دیکھتا ہوں ( خواہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو یا عوامی لائبریری کی )مجھے محسوس ہوتا ہے ؛ الماری میں کتابیں نہیں جیل کے اندر قطار میں بیٹھے ہوئے مجرم ہیں ۔
ہم پر کتابوں کا یہ حق ہے کہ انھیں پڑھا جائے ۔مصیبت یہ ہے کہ ہم یہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ بعض لکھنے والے بھی اس کارِ فضول سے جان چراتے ہیں ۔ اس سلسلے میں دوران گفتگو ایک نوخیز ، ابھرتے ہوئے ،بلکہ اچھلتے ہوئے ادیب نے اپنی گردن ٹیڑھی کر کے یہ بتا یا کہ وہ پڑھتے نہیں صرف لکھتے ہیں ۔ ہم نے وجہ جاننے کی کو شش کی تو فرمانے لگے ،دوسروں کی کتابیں پڑھنے سے ہمار ا رائٹنگ اسٹائیل خراب ہوتا ہے ۔ ہم نے کہا: بڑے ادیبوں کی تصانیف کے مطالعے میں تو یہ خطرہ نہیںہے۔ کہنے لگے ایک دو مرتبہ کوشش کی تھی مگر میرے اندر احساسِ کمتری پیدا ہونا شروع ہوگیا ۔بھلا ایک رائٹر میں اعتماد کی کمی پیدا ہوجائے تو وہ کیسے لکھے گا۔ یہ تو ایک ادیب کی رائے تھی ،کسی حد تک صحیح بھی تھی کہ گھٹیا کتابیں یقینا ہمارے ذوق کو متاثر کرتی ہیں ۔عام طور پرہم کتابیں پڑھتے ہیں نہ اوروں کو پڑھنے دیتے ہیں کہ اچھی کتابیں ہمیںجینے کی جو راہ بتاتی ہیں،ہم اس پر چلنا نہیں چاہتے کیوں کہ ہم نے اپنے الگ راستے بنا رکھے ہیں ،پھر ان پر کون چلے گا۔ میںجب کبھی الماریوں کے شیشوں سے جھانکتی ہوئی عمدہ اور عظیم کتابوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں اس قید خانے سے باہر نکالو ،ہمیں بھی اپنی زندگی کے سفر میں شریک کرلو اور کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ لوگوں کو ان کتابوں کی جگہ قید کر دوں اوران کتابوں کو وہاں سے آ زاد کر کے سماج،سیاست ،ادب ،مذہب اور تعلیم و تدریس وغیرہ کے سب میدان ان اچھی اچھی کتابوں کے حوالے کر دوں کہ ،لو ، زندگی کے سارے شعبے اب تم سنبھالو! ہم نے تو ہر جگہ کھیل بگاڑنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں ۔
گزشتہ ماہ ایک صاحب نے جن سے ہماری جان نہ پہچان کہیں سے ہمارا پتہ حاصل کر لیا اور کتابوں کا ایک بنڈل ہمارے نام داغ دیا ۔ پہلے یہ مصیبت ایک فون کی شکل میں نازل ہوئی ۔کسی کوریئر سینٹر سے کال کر کے بتایا گیا کہ آ پ علاقے میں ہماری خدمات معطل ہیں ،اس لیے اپنا پارسل آپ کو خود ہی ہمارے آ فس سے لے جانا پڑے گا۔اس ڈر سے کہ کوئی اہم چیز نہ ہو ہم ہفت خواں طے کر کے اس آ فس پہنچے تو دیکھا اس بنڈل میں کسی نے اپنے سات شعری مجموعے بھجوادیے تھے ۔ کتابوں کی رسید کی اطلاع نہ دینا بد اخلاقی ہے یہ سوچ کر ہم نے انھیں فون کیا تو ادھر سے حکم صادر ہوا کہ جناب اب ان کتابوں پر تبصرے بھی لکھ دیجئے ۔ ہم نے تنگ آ کر وہ کتابیں کسی نیکی کی طرح ایک مقامی لائیبریری کے دریا میںڈال دیں اور اب ہم اسی نامور محقق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ اعلان کر تے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں کتابیں نہ بھجوائیںکیونکہ اب کتابوں کے لیے صرف ہمارے دل میں جگہ بچی ہے ،گھرمیں نہیں ہے اورجو کتابیںہمیں عزیز ہیں ان کے پی ڈی ایف ہم نے موبائیل اور کمپیوٹر کے دل میں ناکام حسرتوں کی طرح محفوظ کر رکھے ہیں ۔٭٭