مضامین

مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کی نئی لہر!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں فسطائی طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک نیا سلسلہ پھر شروع ہو چکا ہے۔ اسی ہفتہ ایک ہی دن میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے دل دہلادینے والے واقعات سامنے آئے ہیں۔ پیر کی رات گروگرام کی مسجد میں ہندوتوا دہشت گرووں نے ایک جواں سال حافظ قرآن محمد سعد کو مسجد میں گھس کر شہید کر دیا اور پھر مسجد کو آگ لگادی گئی۔ اسی دوران جئے پور ایکسپریس ٹرین میں آر پی ایف کانسٹبل اپنے سروس ریوالور سے تین بے قصور مسلمانوں کو شہید کر دیتا ہے۔ مسجد کے نائب امام کا قتل ہو یا ٹرین میں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بات ہو یہ ہندوتوا دہشت گردی کا واضح ثبوت ہے۔ آر پی ایف کانسٹبل چیتن جس نے اپنے ایک سنیئر آفیسر کے علاوہ تین مسلمانوں پرچلتی ٹرین میں اچانک فائرنگ کر تے ہوئے ان کی زندگیوں کو ختم کردیا، اس کے تعلق سے ریلوئے پولیس اور میڈیا کے ایک گو شے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ چیتن ایک ذہنی مریض ہے۔ اسی وجہ سے اس نے یہ جنونی حرکت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا تو اسے ڈیوٹی پر کیسے رکھا گیا؟ اسے سروس ریوالور کیسے دیا گیا؟ اور پھر وہ اگر ذہنی مریض تھا تو کیوں کر صرف مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا؟ اس کی بندوق کی گولی کسی پر بھی چل سکتی تھی۔طرفہ تماشا یہ کہ وہ بندوق کی گولیاں چلاتے ہوئے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا تھا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا۔ کوئی فاتر العقل آدمی کیا اس قسم کے نعرے لگا سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے واقعہ کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے یہ کہانی گھڑی جا رہی کہ چیتن جان بوجھ کر یہ مجرمانہ حرکت نہیں کیا۔ چیتن کے بجائے کسی مسلمان سے یہ حرکت سرزد ہو جاتی تو کیا اتنی آسانی سے مسئلہ کو ٹال دیا جا تا۔ سنگھ پریوار کی جانب سے نفرت کی جو آگ سلگائی گئی ہے اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی شناخت کرکے ان کی جانیں لی جا رہی ہیںاور انتظامیہ کہہ رہا ہے کہ حملہ آور دماغی مسائل سے دوچار شخص ہے۔ اگر وہ پاگل شخص ہے تو اسے ہندو اور مسلمان میں فرق کیسے نظر آیا۔ وہ اپنے پاگل پن کا ثبوت دیتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر سکتا تھا لیکن اس نے تو صرف داڑھی رکھنے والے مسلمانوں پر فائرنگ گی۔ ملک کا گودی میڈیا بھی حقائق پر سے پردہ ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ جب کہ معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ہمارا میڈیا بہت آ گے ہیں۔ جب معاملہ مسلمانوں کا ہو تو اس کی مستعدی اور بڑھ جا تی ہے۔ لیکن حساس مسئلہ پر تعصبانہ رویہ اختیار کرنا اب یہاں کی قومی صحافت کا مزاج بن گیا۔ ملک کے دو، چار روزناموں کے سوا کسی انگریزی یا ہندی اخبار یا ٹی وی چینل نے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا۔ ہریانہ کے علاقہ گڑ گاو¿ں میں گروگرام کی انجمن مسجد کے 20سالہ نائب امام کو بھگوا انتہا پسندوں نے پیر کی رات مسجد میں شہید کر دیا۔ یہ اندوہناک واقعہ بھی ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ بھگوا دہشت گردوں نے پہلے مسجد کی لائٹ کاٹ دی اور اسکے بعدحملہ کر دیا۔ مسجد کے سامنے پولیس کا دستہ پہرہ دے رہا تھا۔ اس کے باوجود بلوائی مسجد میں داخل ہو تے ہیں اور حافظ سعد کے ساتھ ان کے دو ساتھیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اس دہشت گردانہ حملہ میں ایک نوجوان جو اپنے خاندان کا کفیل تھا شہید ہو جا تا ہے۔
جئے پور۔ممبئی ٹرین میں تین مسلمانوں کا قتل عام ہو یا گڑگاو¿ں کی مسجد میں حافظ قرآن کی شہادت کا معا ملہ ہو یہ ملک کی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کو بسوں اورٹرینوں میں قتل کرنے کے واقعات سامنے آ ئے ہیں۔ لیکن حالیہ عرصہ میں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ بی جے پی حکومت نے اپنے چاہنے والوں کولائسنس دے دیا کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ حکومتوں کی سر پرستی کے بغیر ایسی مجرمانہ کارستا نیاں کم از کم جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارے دور میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے لیکن دوسری طرف ہر روز مسلمانوں کے قتل کی واردات ہو تی رہتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ بھی یہ پروپگنڈا کیا جاتا ہے ہمارا ملک وشو اگرو بن گیا ہے۔ اب اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا، لیکن میڈیا کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے ٹرین میں سفر کرنے والے مسلمانوں کو ان کا نام پوچھ کر یا ان کا حلیہ دیکھ کر سر ِ عام قتل کر دیاجا تا ہے۔ یہ دراصل اس نفرتی سیاست کو بڑھاوا دینے کا نتیجہ ہے کہ ملک کے بے قصور لوگ بھگوا دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا جو سلسلہ ہندوتوا طاقتوں نے گز شتہ دس سال سے جاری رکھا ہے، اس سے عام ہندو ذہن پراگندا ہو تا جا رہا ہے۔ ان کو یہ باور کرایا جا رہا کہ ان کے اصل دشمن مسلمان ہیں۔ ان کو دیش سے نکالے بغیر دیش کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ دھرم سنسدوں میں ہونے والی اشتعال انگیز تقاریر کو دیکھئے کہ کس انداز میں ہندو دھرم کے ٹھیکدار زہر افشانی کر تے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ ان دھرم سنسدوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔ گڑگاو¿ں میں بے گناہ حافظ قرآن کی شہادت کا سانحہ اسی لئے پیش آیا کہ میوات میں ایک مذہبی یاترا کو منظم کر تے ہوئے حالات کو اس حد تک بگاڑ دیا گیا کہ میوات میں فساد ہو گیا۔ اس مذہبی یاترا میں فرقہ پر ست اور شرپسند عناصر شامل ہو گئے۔ ایک ایسا شر پسند جس نے دو مسلم نوجوانوں کو زندہ جلا کر مار دیا تھا، وہ اس یاترا میں نہ صرف شامل تھا بلکہ یاترا کی سرپرستی کر رہا تھا۔ پولیس کی نظر میں وہ ایک مفرور ملزم تھا اور پھر مذہبی یاترا میں لاٹھیوں اور ہتھیاروں کا استعمال کس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس یاترا کے پس پردہ کچھ اور عزائم تھے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی لاکھوں روپیوں کی املاک تباہ برباد کر دی گئی۔ بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔جن شرپسندوں پر عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں، ان کا پوری آزادی کے ساتھ ان یاتراو¿ں میں گھومنا پھرنا اور اشتعال انگیزی پھیلانا یہ ثابت کر تا ہے کہ میوات کی پرامن فضاءکو خراب کرنے کی منظم انداز میںکوشش کی گئی۔ مسلمانوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سنگباری کی ۔ اس کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا۔ جب کہ ہر فساد کے بعد یہی بات دہرائی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے جلوس پر پتھراو¿ کیا ۔ اس وجہ سے فساد ہو گیا۔ یہ تاویل اب کام آنے والی نہیں ہے۔ مسلمان اتنے عقل سے معذور نہیں ہو گئے ہیں کہ حالات کی اس سنگینی میں وہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے خود ان کا جانی اور مالی نقصان ہو۔ اب تو مسلمان جہاں کہیں ہندوو¿ں کا جلوس نکلتا ہے یا کوئی یاترا منظم کی جا تی ہے وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے لگے ہیں۔ اس لیے کہ مذہبی یاترا کے نام پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنا اب ہندو فرقہ پرستوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ میوات کی یاترا کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی طرح یہاں کے مسلمانوں کو ڈرا دھما کر اپنا الوّ سیدھا کرلیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حالات کو سنگین کر دیا جا تا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کو مارنے اورکاٹنے کا ایک خونین دور شروع ہو جا تا ہے۔ ابھی حکومت کے مطابق میوات میں حالات قابو میں ہیں لیکن اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ جو آگ وہاں بھڑکائی گئی ہے وہ وہیں پر ختم ہوجائے گی۔
ملک میں اس وقت جوبدترین صورت حال دیکھی جا رہی ہے اس سے اسی بات کا پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا قتل کرنے والوں کے خلاف حکومت کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرتی۔ اس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ جب تک حکو مت نفرت پھیلانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتی اور انہیں سخت ترین سزا نہیں دیتی ملک میں معصوم مسلمانوں کا قتل عام ہو تا رہے گا۔ ٹرین میں آر پی ایف کے کانسٹبل کی بندوق کی گولیوں سے ہلاک ہونے والے تین مسلمان ہوں یا گڑگاو¿ں کی مسجد میں جواں سال حافظ قرآن کا جاں بحق ہونا یہ دہشت گردانہ حملے ہیں۔ اسے کوئی عام نوعیت کا واقعہ قرار دے کر نظر اندازنہیں جا سکتا۔ انصاف کا تقاضاہے کہ خاطیوں کو فوری گرفتار کرتے ہوئے ان پر یو اے پی اے کا قانون لگا کران کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی ایسا جرم کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔ اس قسم کی کڑی کارروائیوں کے ذریعہ ہی ان بدبختانہ واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت قانون کی حکمرانی کی باتیں تو بہت کر تی ہے لیکن اپنے سائے میں ایسے عناصر کو پال رکھی ہے جو سماج میں انتشار پھیلاکر ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرکے پورے ملک کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر پر روک نہیں لگائی جائے گی، قتل و غارت گری کا یہ بازار گرم ہوتا رہے گا۔ بی جے پی اپنی سیاسی مقصد براری کے لیے ایسی شرانگیزی کا ساتھ دیتی ہے تو اس سے ملک کانقصان ہو گا۔ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر ماحول کو گرمانے کی مذموم کوشش بی جے پی کر رہی ہے۔ ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے انڈیااتحاد کے قیام سے بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ تیسری مرتبہ مرکز میں اقتدار کے حصول کے لیے اب بی جے پی کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ اس لیے پھر ایک بار جارحانہ فرقہ پر ستی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں مذہبی یاترا کے دوران جو کچھ ہوا اور آر پی ایف کے جوان نے جو گولیاں چلائیں جس سے چار افراد بشمول تین مسلمان اپنی جان دھو بیٹھے یہ سب ایک منصوبہ کے تحت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانسٹبل کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس نے کھلے عام بے گناہوں کا قتل کیا۔ مجرم سے اتنی ہمدردی تو جتائی جا رہی ہے لیکن جن کی جانیں گئی ہیں، ان کے افراد خاندان پر کیا گزری ہوگی۔ ٹرین سانحہ میں حیدرآباد کے نوجوان سید سیف الدین شہید ہوئے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ تین کم عمر لڑکیاں ہیں۔ ان میں ایک لڑکی کی عمر صرف چھ ماہ ہے۔ اب اس خاندان کا گزر بسر کیسے ہوگا جب کہ ان کاکوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ گڑگاو¿ں کی مسجد میں دہشت گردوں نے حافظ سعد کو شہید کر دیا۔ وہ اپنی تین بہنوں کی ذ مہ داری نبھا رہے تھے ۔ اسی کی خاطر وہ اپنے وطن بہار سے نکل کر ہریانہ میں گروگرام مسجد میں خدمت انجام دے رہے تھے۔ اب ان کے افراد خاندان کا کیا ہوگا؟ حکومت مجرموں کو پناہ دے رہی ہے لیکن مظلوموں کے ساتھ انصاف کرنا وہ اپنی ذ مہ داری نہیں سمجھتی۔ حالیہ واقعات سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ بی جے پی اپنی حکمرانی کا خواب لیے فرقہ پر ستی پر مبنی ایجنڈا کو روبہ عمل لا رہی ہے۔ منی پور گزشتہ تین ماہ سے جل رہا ہے۔ منی پور میں خواتین کو برہنہ کرکے ان کی پریڈ کرائی گئی۔ ان کی سرِ بازار عصمت ریزی کی گئی۔ افسوس کہ ملک کے وزیر اعظم منی پور کے ہولناک واقعات پر پارلیمنٹ میں دولفظ بولنا نہیں چاہتے۔ وہ ہریانہ میں ہوئی بھگوا دہشت گردی کے تعلق سے یاجئے پور ٹرین کے سانحہ پر کچھ نہیں بولیں گے۔ اس لئے کہ یہ نفرت اور عنادکی فضاءان کے لیے آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کے لیے آکسیجن ثابت ہو گی۔
٭٭٭