دہلی

مسلمان زیادہ سے زیادہ یکساں سیول کوڈ کیخلاف اپنی رائے درج کرائیں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بورڈ نے لا کمیشن سے یو سی سی جیسے اہم مسئلہ پر رائے پیش کرنے کے لئے 6؍ ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا تھالیکن لا کمیشن نے صرف دو ہفتوں کا اضافہ کیا ہے پھر بھی ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا ہے کہ بورڈ نے لا کمیشن سے یو سی سی جیسے اہم مسئلہ پر رائے پیش کرنے کے لئے 6؍ ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا تھالیکن لا کمیشن نے صرف دو ہفتوں کا اضافہ کیا ہے پھر بھی ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں
دینی وتہذیبی شناخت کی حفاظت
لا کمیشن کی سفارش پر چدمبرم کا اعتراض
اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے تو طلاق و خلع کے لئے تڑپنا پڑے گا

انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ امید کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سلسلہ میں اپنی رائے پیش کریں گے۔ انہوں نےکہا کہ یہ ملک مختلف مذاہب، تہذیبوں، روایتوں اور رسوم وروایات کا حامل ہے، یہی تنوع اس کی پہچان اور خوبصورتی ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اس کو عزت ووقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

 جن لوگوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کی، جنگ آزادی کے اُن سپہ سالاروں اور ملک کے معماروں کے ذہن میں بھی اس ملک کا یہی تصور تھا کہ یہاں مختلف قومیں اپنی اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ مل جل کر رہیں گی اور اس طرح ہمارا ملک رنگ برنگ پھولوں کا ایک خوبصورت گلدستہ بنا رہے گا۔

صدربورڈ نے مزید کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی جی نے گول میز کانفرنس لندن1931 میں پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ مسلم پرسنل لا کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا۔

 آزادی سے پہلے بنیادی طور پر کانگریس پارٹی ہی ہندوستانیوں کی نمائندگی کرتی تھی، اس نے 1938کے ہری پور اجلاس میں صاف طور پر اعلان کیا تھا کہ اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

اسی جذبہ کے تحت 1937میں باتفاق رائے شریعت اپلی کیشن ایکٹ پاس ہوا، جس میں پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ مسلم پرسنل لا کے دائرہ میں آنے والے مسائل کو طے کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ان مسائل میں مسلمانوں پر قانون شریعت ہی لاگو کیا جائے گا، پھر جب ملک کا دستور بنا تو دستور کی دفعہ: 25 (1) میں کہا گیا۔

’’ ہر شہری کو مذہبی عقائد پر قائم رہنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہوگی‘‘ یہ دفعہ بنیادی حقوق میں شامل ہے، جس کے بارے میں دستور کی دفعہ: 13(2) میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی، ’’جو دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو، یا اس میں کمی کرے۔

‘‘ یہ دفعہ نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی قوانین کو تحفظ دیتی ہے؛ بلکہ ہر شہری کو بھی فراہم کرتی ہے؛ اس لئے مذہبی اور تہذیبی تنوع کا باقی رہنا ہمارے دستور کا حصہ ہے اور اس کو ختم کرنے کی کوشش صرف کسی ایک طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور اُن کو اُن کے حقوق سے محروم کرنا نہیں ہے؛ بلکہ کھلے طور سے ملک کے دستور پر حملہ ہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جہاں اس سے مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، جینیوں، بدھسٹوں اور دوسری اقلیتوں کی مذہبی شناخت متأثر ہوگی، وہیں دلت اور قبائلی طبقات جو ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی خاص تہذیب اور رسم ورواج کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں، وہ بھی اپنی پہچان سے محروم ہو جائیں گے۔

 نیز قوی اندیشہ ہے کہ پچھڑے ہوئے لوگوں کو ریزوریشن کا جو فائدہ دیا جا رہا ہے، آئندہ یکسانیت کے نام پر اسے بھی ختم کر دیا جائے؛ اس لئے وہ بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے، خود ہندو بھائیوں کے یہاں بھی مختلف علاقوں میں شادی بیاہ کے الگ الگ طریقے پائے جاتے ہیں۔

 وہ بھی اس سے متأثر ہوں گے، اس پس منظر میں بورڈ بلا امتیاز مذہب وملت تمام محب وطن شہریوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ کے خلاف لا کمیشن تک اپنی رائے پہنچائیں اور آئین کے تئیں اپنی بیداری کا ثبوت دیں۔