حیدرآباد

تلنگانہ کا نیا سکریٹریٹ جدید فن تعمیر اور ہند اسلامی طرز تعمیر کا عمدہ و حسین امتزاج

عمارت کے متعدد گنبد اور محراب اس انداز میں بالکل موزوں ہیں جو ہم آہنگی اور آزاد خیال دکنی طرز کی نمائندگی کرتے ہیں، اس طرح یہ تلنگانہ کی خوبی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

حیدرآباد: تلنگانہ سکریٹریٹ کی نئی عمارت جس کا افتتاح 30 اپریل کو ہونے جا رہا ہے، جدید ترین خصوصیات اور تعمیراتی عظمت کے ساتھ عصری تقاضوں کا حسین امتزاج ہے۔

متعلقہ خبریں
سکریٹریٹ میں ایڈوانسڈسیکوریٹی سسٹم نصب

یہ عمارت ہند-اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار ہے جس کی عظمت اس کے شاندار گنبدوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔

عمارت کے متعدد گنبد اور محراب اس انداز میں بالکل موزوں ہیں جو ہم آہنگی اور آزاد خیال دکنی طرز کی نمائندگی کرتے ہیں، اس طرح یہ تلنگانہ کی خوبی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

چینائی کے آرکیٹیکٹس پونی کونسیساو اور آسکر کونسیساو نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔ کمپلیکس کو انڈین گرین بلڈنگ کونسل کے تمام اصولوں کے مطابق بنایا گیا ہے جو آگ سے حفاظت، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور دیگر لازمی ضوابط کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔

وسیع و عریض کمپلیکس، ریاستی انتظامیہ کا اعصابی مرکز، شہر کے وسط میں حسین ساگر جھیل کے قریب اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پرانا سکریٹریٹ تلنگانہ اور اس سے قبل متحدہ آندھرا پردیش کے لئے کبھی ہوا کرتا تھا۔

نیا سیکرٹریٹ کمپلیکس جس میں وزیر اعلیٰ، وزراء، چیف سیکرٹری اور دیگر تمام سیکرٹریوں اور محکموں کے سربراہوں کے دفاتر ہیں، تمام جدید سہولیات سے آراستہ سات منزلہ عمارت ہے۔ اس کی تعمیر پر تقریباً 650 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔

اس عمارت پر جسے تلنگانہ کی ترقی کی علامت کہا جارہا ہے، دو بڑے گنبد نمایاں ہیں۔ ایک گنبد پر قومی نشان نصب کیا گیا ہے جس کی بلندی کو شمار کرلیں تو عمارت کی مکمل اونچائی 265 فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

سیکرٹریٹ کی نئی عمارت کو ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ 30 اپریل کو صبح 6:08 بجے مختلف مذہبی رسومات کے آغاز کے ساتھ اس کی افتتاحی تقریب کا آغاز ہوگا۔ اسی دن چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ دوپہر 1.20 بجے اپنے چیمبر میں اپنی کرسی سنبھالیں گے۔

بی آر ایس حکومت کا کہنا ہے کہ سکریٹریٹ کی عمارت تلنگانہ کے فخر کی علامت ہوگی جس میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کا عکس دکھائی دے گا۔ یہ دیگر ریاستوں کے لئے رول ماڈل کے طور پر کھڑی ہوگی۔

سیکرٹریٹ کمپلیکس میں ملاقاتیوں کے لئے ذیلی عمارتیں، پولیس اہلکاروں، فائر ڈیپارٹمنٹ، کریچ، یوٹیلیٹی بلڈنگ، مندر، مسجد اور چرچ کے لئے تعمیرات کی گئی ہیں۔

سبزہ زار کی تزئین کے لئے کافی جگہ چھوڑی گئی ہے۔ پتھر کے فرش کے ساتھ ہارڈ اسکیپ اور لان، درخت، فوارے، وی وی آئی پیز کے علاوہ دیگر کے لئے پارکنگ اور سافٹ اسکیپ کا خیال رکھا گیا ہے۔ اسے تمام جدید سہولیات کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جس میں کانفرنس ہال، وزیٹر لاؤنجز، ڈائننگ ہال اور دیگر شامل ہیں۔

265فٹ اونچے مین کمپلیکس کا کل تعمیر شدہ رقبہ 8,58,530 مربع فٹ ہے۔ ذیلی عمارت کا رقبہ 67,982 مربع فٹ ہے۔ عمارت میں زیریں گراؤنڈ کے علاوہ گراؤنڈ اور چھ منزلیں ہیں۔ ہر منزل کی اونچائی 14 فٹ ہے۔

ایسٹ ونگ میں سنٹرل ٹاور کی دو منزلیں دوہری اونچائی کی حامل ہیں جبکہ ویسٹ ونگ میں سنٹرل ٹاور کی دو منزلیں سنگل اونچائی اور ایک منزل دوہری اونچائی کی حامل ہے۔ کمپلیکس کی لمبائی اور چوڑائی 600×300 فٹ ہے۔

27.9ایکڑ کے کل رقبہ میں سے عمارت 2.45 ایکڑ پر بنی ہے۔ 7.72 ایکڑ پر لینڈ اسکیپنگ کی گئی ہے۔ مرکزی صحن کا لان 2.2 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ احاطے کے اندر 560 کاروں اور 700 دو پہیہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کا انتظام ہے۔

حکام کے مطابق اس کی تعمیر میں 7 ہزار ٹن لوہا، 35 ہزار ٹن سیمنٹ، 26 ہزار ٹن ریت، 60 ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ اور 11 لاکھ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ تین لاکھ مربع فٹ گرینائٹ اور ایک لاکھ مربع فٹ ماربل بھی استعمال کیا گیا ہے۔ تعمیر مکمل کرنے کے لئے تین شفٹوں میں 12,000 لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔

وزیراعلیٰ کے سی آر نے 27 جون 2019 کو نئے سیکرٹریٹ کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ تاہم کام کا آغاز 2020 کے آخر میں پرانی عمارتوں کے انہدام کے بعد ہوا جب ہائی کورٹ نے اپوزیشن جماعتوں اور تہذیبی ورثہ کے تحفظ کے لئے سرگرم کارکنوں کی طرف سے دائر درخواستوں کو مسترد کر دیا۔

درخواست گزاروں نے حکومت کے نئے سیکرٹریٹ کی تعمیر کے منصوبے کو عوام کے پیسے کا ضیاع قرار دیا تھا۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ موجودہ ڈھانچے اچھی حالت میں ہیں اور تمام ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔

تاہم حکومت نے عدالت میں عرض کیا کہ عمارتیں حفاظتی اصولوں کے بغیر تعمیر کی گئی ہیں اور ریاست کو جدید سہولیات کے ساتھ ایک مربوط کمپلیکس کی ضرورت ہے تاکہ چیف منسٹر، وزراء، سکریٹریز اور دیگر کے دفاتر کے کام کو آسانی سے چلایا جاسکے۔

کوویڈ کی وجہ سے عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد تعمیراتی کاموں میں تیزی آئی۔