سیاستمضامین

2026ء میں لوک سبھا حلقوں کی نئی حد بندی میں888 نشستیں ہوں گی اور ملک میں صرف ہندی ریاستوں کی حکمرانی ہوگیجنوبی ریاستوںٹاملناڈو اور کیرالا کو16نشستوں کا نقصان ہوگا‘ صرف اترپردیش کو 26نشستوں کا فائدہ ہوگا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ 2014ء سے ہندوؤں کو آبادی بڑھانے کا مشورہ بے مقصد نہیں تھا۔
٭ جنوبی ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول کرکے اقتدار سے ہمیشہ کی محرومی کی سزا پائی۔
٭ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر بے مقصد نہیں تھی۔
٭ زعفرانی پارٹی کا نظریہ ’’ ہندو خطرے میں ہیں‘‘ بے مقصد و بے معنی نہیں تھا۔
٭ جنوبی ریاستوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔
1976ء میں مردم شماری کی اساس پر پارلیمنٹ کی 543 نشستیں قرارپائی تھیں۔ پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافہ کی باتیں ہورہی تھیں۔ آخر کار فیصلہ کیا گیا کہ 2026ء میں نئی حلقہ بندی ہوگی اور جملہ نشستیں 888 ہوں گی جو آبادی کی اساس پر ہوں گی۔ درایں اثناء آبادی پر کنٹرول کی ترغیب دی گئی اور جنوبی ریاستوں مثلاً کیرالا‘ ٹاملناڈو اور کرناٹک نے آبادی پر خاصا کنٹرول حاصل کیا اور آخر کار اس عمل کی ان ریاستوں کو سزا دی گئی جو حلقہ بندی کی صورت میں ابھری۔ اگر2026ء میں نئی حلقہ بندی ہوتی ہے تو جنوبی ریاستیں نقصان اٹھائیں گی اور صرف کیرالا اور ٹاملناڈو ریاستیں16نشستوں سے محروم ہوجائیں گی جبکہ شمالی ہندی بیلٹ کی ریاستیں مثلاً اترپردیش کو26 اور بہار کو بھی دس سے زیادہ نشستوں کا فائدہ ہوگا۔ مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ اتراکھنڈ‘ جھاڑکھنڈ‘ چھتیس گڑھ ‘ دہلی ‘ ہریانہ‘ پنجاب میں نئے حلقوں کا قابل لحاظ اضافہ ہوگا۔ گجرات اور مہاراشٹرا میں بھی یہی صورتحال رہے گی۔ جنوبی ریاستوں کے پارلیمانی حلقہ جات سکڑ کر رہ جائیں گے اور ملک پر ہندی زبان بولنے والی ریاستوں کا بول بالا ہوگا اور ملک کا اقتدار انہی کے ہاتھوں میں ہوگا اور جنوبی ریاستیں اپنی سیاسی اہمیت کو کھودیں گی اور ان کی حکومت صرف ان کی ریاستوں تک ہی محدود رہے گی۔ یہ حلقہ بندی (North-South Divide) کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ آگے کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
درحقیقت ’’ چانکیہ نیتی‘ ‘تو 2014ء سے ہی شروع ہوئی تھی اور انتہائی دور بینی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زعفرانی حکومت نے وشواہندوپریشد‘ آر ایس ایس ‘ بجرنگ دل اور سادھو سنتوں کی تنظیموں کو کھلے عام چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ اپنے پروپیگنڈے کا آغاز کریں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ہندوؤں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد مسلمان اس ملک کا اقتدار حاصل کرلیں گے اور ہندو اقلیت میں آجائیں گے لہٰذا ہر ہندو دس بچے پیدا کرے تاکہ آبادی کا توازن برقرار رہے ۔ گودی میڈیا کو نو سال تک کھلی چھوٹ دیدی گئی کہ وہ اس ٹاپک پر Debate جاررکھیں اور ایسے مباحث تمام گودی میڈیا چینلس پر جاری رہے اور آج بھی جاری ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اترپردیش‘ بہار میں فیملی ویلفیر یا فیملی پلاننگ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور ان ریاستوں کی آبادی بے تحاشہ بڑھنے لگی۔ ایسی صورت میں جہاں اترپردیش میں 80 اسمبلی حلقے تھے ان میں26حلقوں کا اضافہ ہو کر جملہ 106 حلقہ جات بن جائیں گے یہی حال دیگر ہندی ریاستوں کا ہوگا جہاں پارلیمانی حلقوں کا بے تحاشہ اضافہ ہوگا اور دوسری جانب جنوبی ریاستیں آبادی پر کنٹرول کی سزا پائیں گی اور ان کے پاس پارلیمانی حلقہ جات سکڑ کر رہ جائیں گے اور وہ پارلیمنٹ میں اپنی حیثیت کھودیں گے۔
Pandemic کے دوران جب ہندوستانی عوام مصیبت میں مبتلا تھے اور WHO کی رپورٹ کے مطابق 50 لاکھ ہندوستانی اپنی جانیں گنواچکے تھے اور ہر طرف فاقہ کشی ‘ بیروزگاری اور مہنگائی کا دور دورہ تھا‘ زعفرانی حکومت نے ہزاروں کروڑ روپیہ برباد کرکے پارلیمان کی عمارت تعمیر کروائی تاکہ888 لوک سبھا اراکین اور اس سے کچھ کم تعداد میں راجیہ سبھا اراکین کو سہولت بہم پہنچائی جائے۔ 2026ء کی حلقہ بندیوں کے بعد ملک میں صرف ہندی بیلٹ کا راج رہے گا اور جنوبی ریاستوں کی آواز سنائی نہیں دے گی۔ جنوبی ریاستیں اقتدار سے دائمی محرومی کی سزا پائیں گی۔
اگر ہندی بیلٹ اور جنوبی ریاستوں کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو جنوبی ریاستیں سیاسی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے ہی رہیں گی اور لازمی طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ جنوبی ریاستوں کے عوام اس ناانصافی کو برداشت نہ کرسکیں گے اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ ناراضگی کبھی آتش فشاں کی طرح پھوٹ سکتی ہے۔ 1966ء میں جب تشکیل دستور کے پندرہ سال بعد ہندی زبان صوبہ ٔ مدراس میں لاگو کی گئی تو ساری ریاست مدراس میں ایک آتش فشاں پھٹ پڑا اور سینکڑوں افراد نے خودکشی کرلی اور تمام سرکاری املاک کو نذر آتش کردیا اورانجام کار ہندی زبان کو لاگو کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا پھر 1967ء کے الیکشن میں انّا دورائے نے DMK پارٹی کو جیت دلائی پھر اس کے بعد دوبارہ کانگریس ٹاملناڈو میں برسراقتدار نہیں آئی۔
یہ کیسی عہد شکنی ہے کہ ایک فریق مالا مال ہورہا ہے اور دوسرا فریق منافع سے بالکل محروم
جواب:- آپ کے سوال کی اشاعت نہیں کی جارہی ہے البتہ اس مکتوب کا جواب شائع کیا جارہا ہے ۔ مکتوب کی اشاعت کئی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ آپ ایک تجربہ کار رئیل اسٹیٹ تاجر ہیں۔ آپ کو اضلاعِ تلنگانہ خصوصاً شہر سے قریب واقع ایک ضلع میں اراضیات کی خرید۔ ان کے ڈیولپمنٹ ‘ سرکاری محکمہ جات میں پیروی اور حصولِ منظوری میں آپ کو طویل تجربہ ہے۔ اسی تجربہ کی اساس پر ایک صاحب جو NRI ہیں‘ نے آپ سے ایک (MOU) ‘ 2022ء میں کیا جس کی مدد سے آپ نے کم و بیش 110 ایکر اراضی ‘ ان صاحب کی ایک نامزد خاتون کے نام پر خریدی ۔ ان اراضیات کی قیمت کئی سو کروڑ روپیہ ہے ان اراضیات کو ایک خاتون کے نام پر کم و بیش 15-20 رجسٹر شدہ بیع نامہ جات کے ذریعہ خریدا اور ازروئے معاہدہ ان اراضیات پر آپ کا ہی قبضہ ہے۔
ان سینکڑوں ایکر اراضیات کی حقیقی قیمت کئی سو کروڑ ہے اور جو رقم رجسٹر شدہ بیع ناموں میں درج ہے وہ بہت ہی کم ہے۔ یہ بھاری رقومات حوالے کے ذریعہ آئیں اور گاؤں کے فروخت کنندگان کو ادا کردی گئیں اور وہ رقم جو سرکاری قیمت کے مطابق ہے‘ اسے RTGS یاDD کے ذریعہ ادا کردیا گیا ۔ فی الوقت ان اراضیات کے پلاٹس کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اراضیات پر آپ کا ہی قبضہ ہے اور ان کی فروخت کی ذمہ داری بھی آپ پر ہی ہے۔
(MOU) کے مطابق ہر پلاٹ کی فروخت کی حقیقی قیمت کے آپ صرف15فیصد کے ہی حقدار ہیں جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ آپ ان اراضیات کی جملہ حقیقی قیمت یا کل رقبۂ اراضی کے 15فیصد حصہ کے حقدار ہیں جو آپ کو مل کر ہی رہے گا۔
آپ نے مزید لکھا ہے کہ ایک غیر مسلم ریڈی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ نے آپ کو رائے دی ہے کہ آپ فوری اس ضمن میں کوئی قانونی اقدام کریں اور یہ بھی رائے دی ہے کہ ان معاملات کی اطلاع EDاور IT کو دے دیں۔ ایڈوکیٹ صاحب آپ کے اور فریقِ مخالف کے جانی دشمن نظر آتے ہیں کیوں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ساری کی ساری اراضیBenami میں آجائے گی اور ضبط ہوجائے گی اور علاوہ ازیں مقدمات بھی چلیں گے۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو ہم سے استفسار کیا ورنہ بڑی تباہی ہوجاتی۔
آپ کے مکتوب کے مطابق آپ کو آج تک اس ضمن میں ایک روپیہ کا بھی فائدہ نہیں ہوا ‘ البتہ سرکاری اخراجات ‘ نگرانی‘ سروے اور پلاٹنگ میں آپ کے لاکھوں روپیہ صرف ہوئے اور آج تک اس ضمن میں آپ کو کوئی منافع نہیں ملا اور نہ ہی فریقِ مخالف نے اس ضمن میں کوئی بات چیت کی۔ آپ کو غلط قانونی مشورہ دیا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ اچھی بات نہیں ہوگی۔
اگر سچ دیکھا جائے تو آپ کے مکتوب سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ آپ نے اپنے حق کا کبھی مطالبہ کیا۔ اگر آپ نے بذاتِ خود یا بذریعۂ قانونی نوٹس اپنے حق کا مطالبہ کیا ہوتا تو فریقِ مخالف ضرور آپ کی بات سنتے اور آپ کا حق آپ کو دیدیتے لیکن ایسا کچھا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
اگر آپ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوگی تو آپ قانونی کارروائی کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ آپ بہ آسانی اس (MOU) کی بنیاد پر متعلقہ عدالت میں دعویٰ کرسکتے ہیں اور تمام اراضیات کی فروخت کے خلاف انجنکشن آرڈر حاصل کرسکتے ہیں کیوں کہ ازروئے(MOU) تمام اراضیات کا قبضہ آپ ہی کے پاس ہے۔
لہٰذا آپ کو رائے دی جاتی ہے کہ ریڈی صاحب ایڈوکیٹ کی ورغلاہٹ میں ہرگز نہ آئیں اور اپنے جائز حق کا مطالبہ فریق مخالف سے کریں اور ہمیں قوی امید ہے کہ فریقِ مخالف آپ کے حق کو نقد رقم یا اراضی میں15فیصد حصہ کی شکل میں دے دیں گے۔ آپ کے مکتوب اور (MOU) کی نقل کو تلف کردیا گیا ہے جس کی واپسی کا مطالبہ آپ نہیں کرسکتے۔
E-STORE نا عاقبت اندیشانہ سرمایہ کاری ۔ نقصان ہی نقصان۔
رواں کالم کی بروقت وارننگ کسی کام نہ آسکی
تقریباً ایک سال قبل اس کالم کے ذریعہ بے چین اور بے قرار سرمایہ کاروں کو رائے دی گئی تھی کہ اس کمپنی میں سرمایہ کاری نہ کریں کیوں کہ اس میں نقصان کا صد فیصد امکان تھا۔ افسوس کہ اس قیمتی رائے پر عمل نہیں کیا گیا۔ پیسہ جیبوں پر بھاری ہوکر چھلک رہا تھا اور سنبھالا نہیں جارہا تھا۔ سرمایہ کار بھاری منافع کی لالچ میں آگئے۔ اس ضمن میں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک نظم مکھی اور مکڑا یاد آرہی ہے۔ اس نظم کو پڑھ لیجئے۔