مضامین

’شیر کی کچھار‘: غصیلے اور پُرجوش جوانوں پر مشتمل نیا فلسطینی عسکریت پسند گروہ ’عرین الاسود‘ کیا ہے؟

اسرائیلی افواج اور فلسطینیوں کے درمیان مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم کے مشرق میں کشیدگی اور تشدد میں رواں برس کے آغاز سے ہی اضافہ سامنے آ رہا ہے اور ان سب کے درمیان جو چیز سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہی ہے وہ اس صورتحال میں ایک خاص فلسطینی گروہ کا مرکزی کردار کے طور پر ابھرنا ہے۔ یہ گروہ اپنے کارکنوں کے جوش، غصے اور طاقت کی علامت کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور اپنے نام ’عرین الاسود‘ (شیر کی کچھار) کے باعث فلسطینی نوجوانوں اور دنیا میں تیزی سے شہرت پا رہا ہے۔’عرین الاسود‘ حال ہی میں قائم ہونے والا ایک ایسا عسکریت پسند گروہ ہے جو فلسطین کے شمالی مغربی کنارے پر واقع شہر نابلس سے ابھرا ہے اور اب اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے خلاف تابڑ توڑ حملے اس کی پہچان بن گئے ہیں۔اس گروہ میں موجود ارکان اور اس کے حامی بنیادی طور پر فلسطینیوں کی نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے وہ افراد ہیں جو اپنے ملک میں روایتی گروہی وفاداریوں سے اوپر اٹھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں فلسطین کی سیاست کو بھی ایک نئی شکل دی ہے مگر یہ نوجوان کون ہیں اور ان کی موجودگی اس تمام تر صورتحال میں کتنی اہم ہے؟ ’عرین الاسود‘ کے حوالے سے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں واقع ہورائزن سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ابراہیم جبریل دلال شا کہتے ہیں کہ یہ ’ایسے ناراض فلسطینی نوجوانوں پر مشتمل گروہ ہے جن کی عمریں 20 سے 30 کے درمیان ہیں۔ ان کا تعلق مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی میں موجود کسی سیاسی دھڑے سے نہیں بلکہ وہ بنیادی طور پر اپنی توجہ اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑنے پر مرکوزرکھتے ہیں۔‘
غصے اور جوش سے بھرا یہ مسلح گروپ بنیادی طور پر فلسطین کے شہر نابلس میں سرگرم ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں اس گروہ میں درجنوں فلسطینی نوجوان شمولیت اختیارکر چکے ہیں۔ اگرچہ اس گروپ کا کسی بھی موجودہ فلسطینی سیاسی گروہ سے باضابطہ کوئی تعلق نہیں تاہم ماہرین کے مطابق اس گروہ کے بعض اراکین ایسے ضرور ہیں جن کی اس سے قبل کسی نہ کسی طور پر سیاسی وابستگیاں رہی ہیں۔امریکی ریاست ورجینیا میں واقع یونیورسٹی آف رچمنڈ کے ماہر سیاسیات دانا ال کرد نے ’عرین الاسود‘ میں شامل نوجوانوں کے حوالے سے وضاحت میں بتایا کہ ’یہ نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسا غیر جانب دار گروہ ہے جو ایک ہی ملیشیا کے طور پر کام کر رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ ’عرین الاسود‘ میں شمولیت سے قبل اسلامی جہاد، الاقصیٰ بریگیڈ، حماس یا الفتح سمیت کسی نہ کسی مخصوص گروہ میں شامل رہے ہیں۔‘
وہ وجوہات جو اس گروہ کی تخلیق کا باعث بنیں:۔فروری 2022 میں اس گروپ کو ابتدا میں ’نابلس بٹالین‘کہا گیا تھا تاہم اس وقت اس گروہ میں محض 10 عسکریت پسند تھے۔ اس وقت تک اِس گروہ میں شامل نوجوان جنین میں واقع فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے سرگرم گروہ جنین بٹالین سے متاثر تھے۔اسرائیلی افواج نے اگست 2022 میں ایک سینئر جنگجو ابراہیم النبلوسی کو ان کے دو دیگر ساتھیوں سمیت نابلس میں ایک گھر پر چھاپے کے دوران ہلاک کر دیا تھا۔ النبلوسی کے قتل نے ممکنہ طور پر ’عرین الاسود“ کے متحرک ہونے اور اْبھر کر سامنے آنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ’عرین الاسود‘ نے باضابطہ طور پر پہلی بار گزشتہ موسم گرما میں دنیا کی توجہ حاصل کی جب انھوں نے نابلس میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں مارے گئے اپنے جنگجوؤں کی یاد میں دن منایا۔ سنہ 2023 کے اوائل میں اسرائیلی فوج نے اس گروہ کے کچھ ایسے سرکردہ ارکان کو گرفتار اور بعض کو ہلاک کر دیا تھا جن پر الزام تھا کہ انھوں نے اسرائیلی اہداف پر حملہ کیا ہے۔ان جنگجوؤں کی تصاویر اور ویڈیوز ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئی تھیں۔ اس کے بعد درجنوں نقاب پوش بندوق برداروں نے قدیم شہر نابلس کی سڑکوں پر پریڈ کی اور یہی لمحہ وہ تھا جب فلسطینی حکام کے ساتھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ماہر سیاسیات دانا ال کرد کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیلیوں کا اپنے جرائم کی سزا سے استثنیٰ، جبر اور آبادکاری کی سرگرمیوں میں اضافہ اور فلسطین کی صورتحال پر بین الاقوامی اور علاقائی ردعمل کا کمزور ہونا، فلسطین میں سیاسی اور اقتصادی جمود، یہ وہ تمام عوامل ہیں جو اس گروپ کی تخلیق کا سبب بنے۔‘ ال کرد کے مطابق ’عرین الاسود‘ تیزی سے مقبولیت پا کر نوجوان فلسطینیوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ”عرین الاسود‘ اس جمود اور سیاست کے اس طرز کو مسترد کر رہے ہیں جس کی الفتح اور حماس نمائندگی کرتے ہیں۔‘ ’عرین الاسود‘ کو فلسطینیوں میں نمایاں حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے کچھ اور شواہد بھی موجود ہیں۔ فلسطین کے سینٹرفار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کی طرف سے دسمبر میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے ایک سروے کیا گیا جس میں حصہ لینے والے تقریباً 70 فیصد سے زیادہ افراد نے ’عرین الاسود‘ جیسے آزاد مسلح گروہوں کی حمایت کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیادت میں موجود زیادہ ترعمر رسیدہ افراد ہیں جس کے باعث فلسطینی نوجوان اس نو تشکیل شدہ مسلح مزاحمتی گروپ میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں اور کئی ارکان نے خود کو فلسطینی اتھارٹی سے بھی دور کر لیا ہے۔ ابراہیم دلالشا کہتے ہیں کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے اور وہ پرامن ذرائع سے سیاسی آزادی حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہ مزاحمت میں لڑائی کو ہی تنازع کا حل سمجھتے ہیں۔‘
’عرین الاسود‘ کو سوشل میڈیا پر بھی مقبولیت حاصل ہے۔ سینکڑوں فلسطینیوں نے اس گروہ کے ٹیلی گرام چینل ’لائنز ڈین‘ کے ذریعے بھیجے گئے یکجہتی کے پیغام کا جواب بھی دیا۔ اس چینل کے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہے۔ اس چینل کے سبسکرائبرز سے پیغام میں کہا گیا کہ وہ چھتوں پر جائیں اور اسرائیلی اہداف پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نعرہ تکبیر بلند کریں۔ اس پیغام کے بعد مغربی کنارے اور مقبوضہ یروشلم سے نوجوان فلسطینیوں نے ”عرین الاسود‘ ناقابل شکست ہے‘ کا نعرہ بلند کیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ’عرین الاسود‘ کے تعلقات کیسے ہیں؟
دلالشا کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور الفتح کی حکمران جماعت کی قیادت کئی وجوہات کی بنا پر اس گروپ سے خوش نہیں ہے۔ ’میرے خیال میں گروپ کو زبردستی ختم کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرنے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کا ایک جسٹریٹجک فیصلہ لیا گیا ہے۔‘
ابراہیم دلالشا کہتے ہیں کہ ’عرین الاسود‘ کے کچھ ارکان مخالفت اور تنقید تو کر رہے ہیں لیکن ممکنہ طور پر وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تنازع میں پڑنے سے گریز کریں گے۔‘ تاہم اسرائیل ’عرین الاسود‘ کو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ ابراہیم دلالشا کے مطابق فلسطینی علاقوں کی سیاست پر ’عرین الاسود‘ اثر انداز ہو سکتی ہے۔’ان کے لیے اپنے بڑے مقصد یعنی آزادی اور قبضے کا خاتمے کو حاصل کرنے کے لیے فتح حاصل کرنا آسان نہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان کا وجود اور ان کی سرگرمیاں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلیوں کے لیے بہت زیادہ رکاوٹیں اور چیلنجز کا باعث بن رہی ہیں۔‘