مذہب

یکساں سیول کوڈ: ایک خوش نما سراب

حکومت کی طرف سے اب تک یکساں کوڈ نافذ کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ، لیکن اسے کام یابی نہیں ملی ہے۔ 1963 میں اس کی طرف سے ایک کمیشن مقرر کیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا ، جس کا مقصد مسلم پرسنل لا میں تبدیلی پر غور و فکر اور اس کے لیے عملی راہوں کی تلاش تھی۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جن لوگوں نے کسی ریگستان میں دن میں سفر کیا ہو وہ ’’سراب‘‘ سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ راستہ چلتے ہوئے آگے کچھ فاصلے پر ریت اس طرح چمکتی ہے جیسے پانی کی لہریں اٹھ رہی ہوں۔ حقیقت میں یہ پانی نہیں ہوتا ، بلکہ ریت پر سورج کی کرنیں پڑنے سے دیکھنے والے کو پانی کا واہمہ ہوتا ہے۔ مسافر جوں جوں آگے بڑھتا ہے ، سامنے کی ریت پانی کی لہروں کی طرح چمکتی رہتی ہے۔ وہ چاہے جتنی طویل مسافت طے کرلے کبھی سراب تک اس کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ یہیں سے یہ لفظ اردو ادب میں استعمال ہونے لگا۔ جب خواہش اور جدّو جہد کے باوجود کوئی چیز حاصل نہ ہوسکے تو اسے سراب کے پیچھے دوڑنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو شعراء نے اس پر طرح طرح کے مضامین باندھے ہیں اور خواہشات کی عدمِ تکمیل پر حسرت و یاس کا اظہار کیا ہے۔

اِدھر کچھ دنوں سے ملک کی بعض ریاستوں سے یکساں سِوِل کوڈ کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ اقتدار کے نشے میں چور بعض لوگ کہنے لگے ہیں کہ انھوں نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری کرلی ہے اور وہ جلد اسے نافذ کرکے رہیں گے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ ان کے بڑبول ہیں اور وہ اپنے ارادوں میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکیں گے۔

دستورِ ہند کے رہ نما اصولوں کے تحت دفعہ 44 میں کہا گیا تھا کہ حکومت پورے ملک میں یکساں سِوِل کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نکاح ، طلاق ، وراثت ، تبنّیت (گود لینے) اور دیگر عائلی قوانین بلا تفریق مذہب و ملّت ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں ہوں گے۔ یہ ایسی بات تھی جو ملک کے مسلمانوں کے لیے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی تھی ، اس لیے کہ اسے وہ اپنے مذہبی امور میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اسی زمانے میں ان کے اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں اعلان کیا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

یہ دستور کا بہت بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف اس میں یکساں سِوِل کوڈ کو نافذ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تو دوسری طرف اقلیتوں کو ان کے پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی بھی دی گئی ہے۔

حکومت کی طرف سے اب تک یکساں کوڈ نافذ کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ، لیکن اسے کام یابی نہیں ملی ہے۔ 1963 میں اس کی طرف سے ایک کمیشن مقرر کیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا ، جس کا مقصد مسلم پرسنل لا میں تبدیلی پر غور و فکر اور اس کے لیے عملی راہوں کی تلاش تھی ، لیکن مسلمانوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ کمیشن مقرر نہیں کیا جاسکا تھا۔ 1972 میں اسی پالیسی کا اعادہ کیا گیا۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں متنبی بل پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مسوّدۂ قانون یکساں سِوِل کوڈ کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ لیکن مسلمانوں کی مخالفت کے بعد انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا اور اسے ان کے لیے اختیاری رکھا گیا۔ اسی واقعہ کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا ، جو الحمد للہ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے برابر قابلِ قدر اقدامات کررہا ہے۔

یکساں سِوِل کوڈ کے حق میں جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ بڑے بودے اور لچر ہیں۔ مثلاً :

کہا جاتا ہے کہ دستور کے رہ نما اصولوں میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یکساں سِوِل کوڈ نافذ کرنے کے لیے اقدامات کرے، اس لیے اس سلسلے میں حکومت جو بھی اقدامات کرے ان کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ یہ بات کہنے والوں کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوتی کہ دستور ہی اقلیتوں کو ان کے پرسنل لا پر عمل کی آزادی دیتا ہے۔ دونوں باتوں میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ پہلے اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، جس کا تقاضا ہے کہ ملکی قوانین مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوں۔ اس سلسلے میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ سیکولرازم کا مطلب وہ نہیں جو یہ حضرات بتاتے ہیں ، بلکہ اس کا درست مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، وہ کسی مذہب کی طرف دار نہیں ہوگی اور ملک میں رہنے والے ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی۔

کہا جاتا ہے کہ مذہبی قوانین بہت پرانے ہیں اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ بات چاہے دیگر مذاہب پر صادق آتی ہو ، لیکن اسلام پر اسے چسپاں کرنا بالکل درست نہیں ہے۔ اسلام کے عائلی قوانین بہت زیادہ سائنٹفک اور مبنی بر عدل ہیں اور ان میں عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کے بارے میں غلط فہمیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ بہت سے مسلمان ان پر عمل نہیں کرتے اور کم زوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اگر تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو ان کی معقولیت اور فطرتِ انسانی سے ان کی ہم آہنگی کا دنیا مشاہدہ کرے گی۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جتنی اہمیت عبادات : نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کی ہے ، اتنی ہی اہمیت نکاح ، طلاق ، خلع ، مباراۃ ، ہبہ ، وصیت ، وراثت ، تبنّیت اور دیگر عائلی احکام و قوانین کی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں ان سے دست بردار نہیں ہوسکتے ، چاہے اس کے لیے انہیں خون کا دریا پار کرنا پڑے۔

کہا جاتا ہے کہ ملک میں قومی یک جہتی کے جذبے کو فروغ دینے اور شہریوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب کے شخصی قوانین ایک ہوں۔ قوانین الگ الگ ہوں تو وہ اختلافات کا ذریعہ بنتے ہیں اور اس سے قومی یک جہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بھی بغیر سوچے سمجھے کہی جانے والی بات ہے۔ یک جہتی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دینے سے پیدا ہوگی نہ کہ سب کو یکساں قوانین کا پابند بنانے سے۔ یک جہتی تحمل ، برداشت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینے سے پیدا ہوگی نہ کہ ایک کلچر سب پر تھوپنے کی کوشش سے۔ اس کی نمایاں مثال زبان ہے۔ ملک میں بیسویں زبانیں بولی جاتی ہیں ، لیکن اس اختلاف کو گوارا کیا گیا ہے ، اسے یک جہتی میں حارج نہیں مانا گیا ہے اور تمام زبانوں کو ختم کرکے ملک کے تمام باشندوں کو ایک زبان بولنے کا پابند کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ایسی ہی آزادی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو شخصی قوانین پر عمل کرنے کے سلسلے میں بھی دی جانی چاہیے۔

ملک کے اربابِ حلّ و عقد کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ یکساں سِوِل کوڈ نافذ کرنے میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکتے۔ یہ وہ سراب ہے جو دیکھنے میں بہت خوش نما معلوم ہوتا ہے ، لیکن کوئی اس کے پیچھے جتنا بھی دوڑے وہ دور سے دور تر ہوتا جاتا ہے اور کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ دانش مندی اسی میں ہے کہ اس کا خواب و خیال چھوڑ دیا جائے اور تمام مذہبی اقلیتوں کو ان کے مذاہب ، کلچر ، رسوم و روایات اور پرسنل لا پر عمل کی پوری آزادی دی جائے۔
٭٭٭