حیدرآباد

برقی بقایا جات معاملہ، مرکز ناانصافی کررہا ہے: ونود کمار

ونود کمار نے کہا کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درمیان تنازعات کے معاملے میں صرف مرکزی محکمہ داخلہ کو مداخلت کرنی چاہئے اور حل تلاش کرنا چاہئے،مرکزی وزارت بجلی کو نہیں۔

حیدرآباد: تلنگانہ کے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدرنشین ونود کمارنے اعتراض کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مرکزی حکومت، بجلی کے بقایہ جات کے معاملے میں تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درمیان تنازعات کے معاملے میں صرف مرکزی محکمہ داخلہ کو مداخلت کرنی چاہئے اور حل تلاش کرنا چاہئے،مرکزی وزارت بجلی کو نہیں۔

 ونود نے یاد دلایا کہ اگر اے پی تنظیم نو ایکٹ کے تحت ریاستوں کے درمیان کوئی تنازعہ ہے تو مرکزی وزارت داخلہ پہل کرے اور انہیں حل کرنے کے طریقے اختیار کرے تاہم مرکزی وزارت برقی کی جانب سے بجلی کے بقایا جات کے معاملے میں یکطرفہ فیصلہ لینا مناسب نہیں ہے۔

 انہوں نے کہا کہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کیا جانا چاہئے۔صرف آندھرا پردیش کے دلائل کا دفاع کرنا اور ایک ماہ کے اندر اندر بجلی کے واجبات کی ادائیگی کے لئے تلنگانہ کو احکامات جاری کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ ونود کمار نے کہا کہ مرکزی وزارت داخلہ، جسے بڑا رول ادا کرنا ہے، کا اس معاملہ میں خاموش رہنا مناسب نہیں ہے۔

 آندھرا پردیش، ریاست تلنگانہ کی بجلی کی کمپنیوں کو 12,940 کروڑ روپئے واجب الادا ہے لیکن مرکزی وزارت بجلی کی جانب سے اس کو نظر انداز کرنا اور صرف اے پی کے دعوؤں کو سننا درست طریقہ نہیں ہے۔ ونود کمار نے کہا کہ بجلی کی کمپنی اے پی جینکو نے تلنگانہ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی اور بجلی کے بقایا جات کے معاملے میں اسے واپس لے لیا۔

تلنگانہ کی بجلی کی کمپنیوں ٹی ایس جینکو اور ڈسکام نے اے پی جینکو کی پالیسی کے خلاف ریاستی ہائی کورٹ میں رٹ درخواستیں داخل کیں۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں، اس وقت کے چیف منسٹر  این چندرابابو نائیڈونے اے پی تنظیم نو قانون پر عمل نہیں کیا تھا اور اس ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس کی وجہ سے تلنگانہ حکومت کو دوسری ریاستوں سے زیادہ قیمت پر بجلی خریدنی پڑی۔