سیاستمضامین

نیدرلینڈ کے انتخابات مسلم دشمن انتہا پسندوں کی کامیابیانتخابی مہم کے دوران گیرٹ وائلڈرز نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ مدارس، مساجد اور قرآن پر پابندی لگا دیں گے

مسعود ابدالی

نیدرلینڈ یا ہالینڈ کے حالیہ انتخابات میں اسلام مخالف گیرٹ وائلڈرز (Geerts Wilders)کی ’جماعت برائے آزادی‘ ولندیزی مخفف PVV سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس جماعت کو 150 رکنی ایوان میں 37 نشستیں ملی ہیں۔ یہ انتخابات 2025ء میں ہونے تھے لیکن امیگریشن کے معاملے پر وزیراعظم مارک رُٹ (Mark Rutte)کے اتحادی اُن کا ساتھ چھوڑگئے، اور حکومت تحلیل ہونے کی بنا پر نئے انتخابات منعقد ہوئے۔ ایک کروڑ 80 لاکھ نفوس اور 42 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ ملک شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ یورپ کے اکثر دوسرے ممالک کی طرح ماضی میں ہالینڈ بھی توسیع پسندی، غلامی، جبری قبضے اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب رہا ہے۔
گوری اقوام کی جانب سے کشور کشائی اور دنیا کو غلام بنانے کا سلسلہ سترہویں صدی کی ابتدا سے شروع ہوا، جب 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی جس نے بعد میں برصغیر کو ہتھیا لیا۔ دوبرس بعد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، ولندیزی محفف VOC کا قیام عمل میں آیا۔ تجارت کے نام پر VOCنے آبنائے ملاکا کے اردگرد فوجی چوکیاں قائم کیں اور انڈونیشیا کے بڑے علاقے کو غلام بنالیا۔ اسی دوران افریقہ میں انسانوں کا شکار شروع ہوا۔ ہزاروں آزاد افریقیوں کو غلام بناکر یورپ لایا گیا جن کی منڈی ہالینڈ کے ساحلی شہر روٹر ڈیم میں لگاکرتی تھی جسے غلاموں کی تجارت یا Dutch Slave Tardeکا نام دیا گیا۔ دوسری طرف انگولا نژاد20پابہ زنجیر غلاموں کا پہلا قافلہ 1619ء میں امریکی ریاست ورجینیا کے ساحلی شہر جیمزٹائون پہنچایا گیا۔ ورجینیا اُس وقت ایک برطانوی کالونی تھا۔ ان بدنصیبوں کو پرتگالیوں نے شکار کیا اور White Lion نامی جہاز جیسے ہی جیمزٹائون پر لنگرانداز ہوا یہ تمام کے تمام غلام وہیں بندرگاہ پر فروخت ہوگئے۔ اس کے دوسال بعد افریقہ اور لاطینی امریکہ پر قبضے کے لیے ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے جال بُناگیا۔
غلاموں کی تجارت اور مغرب کی توسیع پسندی کی روداد ہمارے آج کے موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن یہ ذکر یہاں ہم نے اس لیے مناسب سمجھا کہ ہالینڈ کے نئے ممکنہ وزیراعظم گیرٹ وائلڈرز کی سوچ اپنے آباواجداد کی چارسو سالہ پرانی فکر سے مختلف نہیں۔ آج ہی انھوں نے مشرق وسطیٰ امن منصوبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فلسطینیوں کا اپنا وطن اردن کی شکل میں موجود ہے۔ غزہ اور یروشلم سمیت مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو اردن بھیج کر علاقے میں پائیدار امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، قبل از وقت انتخاب کی نوبت اس لیے پیش آئی کہ غیر ملکی تارکینِ وطن کی آمد سے ملک میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ جنگ کی وجہ سے جو یوکرینی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں ان کی 40 فیصد تعداد نے ہالینڈ کا رخ کیا ہے۔ اوسطاً ہر ماہ ڈھائی ہزار اضافی یوکرینی باشندے ہالینڈ آرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں یوکرینی مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان کی دیکھ بھال اور بحالی پر بھاری خرچ اٹھ رہا ہے جسے پورا کرنے کے لیے حکومت نے انکم ٹیکس کی شرح بڑھا دی ہے اور اہلِ ثروت ولندیزیوں کے لیے ٹیکس کی شرح 54 فیصد ہوچکی ہے۔
حالیہ انتخابات میں یوکرینی پناہ گزینوں کی امریکہ آمد ایک بنیادی نکتہ تھا۔ امریکی تحریک اسلامی اکنا (ICNA) کے علاقائی اجتماعِ عام میں ہمیں PVV پارٹی کے سابق رہنما اور گیرٹ وائلڈرز کے قریبی دوست جناب یورام وین کیورسن سے اس معاملے پر بات کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں گیرٹ کا منفی رویہ اب بھی ویسا ہی ہے، لیکن اسلاموفوبیا کے بجائے یوکرینی پناہ گزینوں کی آمد سے ڈچ معیشت پرپڑنے والے دبائو نے PVVکی کامیابی میں بڑا کردار اداکیا ہے۔ موقر ولندیزی مرکز دانش Clingendael Instituteکا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج کو اسلام یا یورپ مخالف ووٹ کہنا مناسب نہیں، یہ دراصل بوسیدہ مقتدرہ (establishment) اور عوامی امنگوں کو نظرانداز کردینے والی طرزِ حکمرانی کے خلاف عوام کی نفرت کا اظہار ہے۔ ولندیزی عوام روایتی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور گیرٹ وائلڈرز تبدیلی کا استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔
بدھ 22 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں سوشلسٹ اور ماحول اتحاد GroenLinks–PvdAدوسرے نمبر پر رہی اور 26 نشستیں اپنے نام کرلیں۔ سابق وزیراعظم کی پیپلز پارٹی برائے حریت و جمہوریت (VVD)کے حصے میں 24 نشستیں آئیں جو دوسال پہلے ہونے والے انتخابات سے 10 کم ہیں۔ طرزِ حکمرانی میں بہتری کے نعرے پر تشکیل دی جانے والی عمرانی معاہدہ جماعت (NSC) نے پہلی بار انتخاب لڑا اور 20 نشستیں جیت کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ سوشل لبرل جماعت (D66)نے 9، دائیں بازو کے کسان اتحاد BBBنے 7، مسیحی ڈیموکریٹ CDA اور سوشلسٹ SPنے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔ باقی 18 نشستیں 7 جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔
اب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہے۔ پارلیمانی روایت کے مطابق ایوان کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے جناب گیرٹ کو تشکیلِ حکومت کی دعوت دی جائے گی۔ انھیں حکومت بنانے کے لیے اپنے 37 ارکان کے ساتھ دوسری جماعتوں سے کم ازکم 39 مزید ووٹ لینے ہوں گے۔ ایوان کی تیسری بڑی اور سابق حکمراں جماعت VVDنے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ وہ جناب گیرٹ کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اپنے ایک بیان میں پارٹی ترجمان نے کہا کہ ان کی جماعت حکومت سازی کے لیے PVVسے تعاون کو تیار ہے لیکن گیرٹ وائلڈرز بطور وزیراعظم قبول نہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم بننے کے لیے گیرٹ کو نفرت کا ایجنڈا ترک کرنا ہوگا۔ انتخابی مہم کے دوران گیرٹ وائلڈرز نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ مدارس، مساجد اور قرآن پر پابندی لگا دیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محترمہ Sigrid Kaagنے بھی تعاون کے لیے مسلم مخالف ایجنڈا ترک کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ جناب گیرٹ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اسلام کو ہالینڈ میں غیر قانونی قرار دینا ممکن نہیں۔ اُن کے ہم خیال سیاسی عناصر بھی جانتے ہیں کہ مسلم برادری یورپ میں تیزی سے بڑھتی اکائی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت سازی کے لیے بات چیت کے دوران قدامت پسند جماعتوں نے بھی گیرٹ کے مدارس، مساجد اور قرآن ایجنڈے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے گیرٹ وائلڈرز نے آج اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا ’’میں فطرتاً مثبت و معقول ہوں اور اعتدال کی طرف اپنا سفر جاری رکھوں گا، میرے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے کیونکہ میں ایک بھاری ذمہ داری کے لیے خود کو پیش کررہا ہوں‘‘۔ اتوار کی صبح اکنا کنونشن میں جب PVVکے سابق رہنما یوران وین کیورسن سے کسی نے سوال کیا کہ اگر گیرٹ وزیراعظم بن گئے تو ہالینڈ میں اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ تو جناب یوران نے کہا کہ گیرٹ کو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی جو ناممکن ہے۔ اسلاموفوبیا کے عروج کے باوجود ڈچ سیاست دان انتہاپسندی کی حمایت نہیں کریں گے، گیرٹ وائلڈرز کو کرسی اور اسلاموفوبیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ گیرٹ وائلڈرز کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ موصوف اسلام سے نفرت کو وزارتِ عظمیٰ سے محبت پر قربان کردینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
اس موقع پر جناب گیرٹ کا ایک مختصر تعارف قارئین کی دلچسپی کے لیے:
ساٹھ سالہ گیرٹ وائلڈرز کی تعلیم واجبی سی ہے۔ مزاج بچپن ہی سے آوارگی کی طرف مائل تھا، چنانچہ وہ ہائی اسکول مکمل کرتے ہی گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ادھار ٹکٹ لے کر اسرائیل چلے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب عراق اور ایران کے درمیاں گھمسان کی جنگ ہورہی تھی اور سارے اسرائیل میں مسرت و اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا داخلی امن اسرائیل کو اس کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس عرصے میں گیرٹ نے عرب ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ اُن کے احباب کا خیال ہے کہ گیرٹ اس دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستہ تھے اور یہ دوڑ بھاگ اُن کی جاسوسی مہم کا حصہ تھی۔ اس دوران آمدنی سے ماورا پُرتعیش طرزِ رہائش پر 2011ء میں اُن کے خلاف حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا جس پر گیرٹ نے ایک خفیہ کمپنی چلانے کا اعتراف کرلیا۔ ڈچ قانون کے مطابق یہ قابلِ سزا جرم ہے لیکن جس طرح معاملے کو دبا دیا گیا اس سے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں کسی حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ اسرائیل سے واپسی پر گیرٹ ہیلتھ انشورنس فروخت کرنے لگے اور اسی دوران اُن کی ملاقات VVD کے قائدین سے ہوگئی جنھوں نے اُن کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر بھاری مشاہرے پر انہیں پارٹی کا اسپیچ رائٹر یا خطبہ نویس بھرتی کرلیا۔
خطبہ نویسی کے دوران انھوں نے اسلام کے خلاف نفرت انگیز آتشیں تقریروں کا انبار لگادیا۔ قرآن کو انھوں نے عورتوں کے لیے دستاویزِ غلامی اور دہشت گردی کا تفصیلی ہدایت نامہ کہا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن دراصل نازی منشور اور ہٹلر کی خودنوشت سوانح Mein Kampf(میری جدوجہد)کا عربی ترجمہ ہے۔ ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ انھیں مسلمانوں سے نہیں قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلامؐ سے نفرت ہے۔ گیرٹ وائلڈرز نے توہینِ اسلام کے لیے ’فتنہ‘ کے عنوان سے ایک انتہائی نفرت انگیر دستاویزی فلم بھی بنائی۔ 9سال پہلے انھوں نے سعودی سفارت خانے اور اس کے قونصل خانوں پر لہراتے مملکت کے پرچموں پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی جھنڈے پر کلمہ طیبہ تحریر ہے جس سے ڈچ عوام کے جذبات متاثر ہورہے ہیں۔ انھوں نے انتہائی بے شرمی سے کہا ’’دہشت و بربریت کی شہادت (کلمہ طیبہ) سے بہتر ہے کہ پرچم پر کوئی فحش لطیفہ لکھ دیا جائے‘‘۔
اسلام سے نفرت کے اظہار میں گیرٹ وائلڈرز کسی تفریق کے قائل نہیں۔ توہین آمیز خاکوں پر دنیا بھر کے مسلمان سخت مشتعل تھے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰