دہلی

یکساں سول کوڈمسلمانوں کیلئے ناقابل قبول اورملک کی یکجہتی اورسالمیت کیلئے نقصاندہ :مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یکساں سول کوڈپر اصرارآئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے ، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت پر باقی رکھنے کا ہے۔

نئی دہلی: یکساں سول کوڈکی بحث کو ازسرنواٹھائے جانے کو ہم سیاسی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں ، یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا ہے ، ہماراشروع سے یہ موقف رہاہے کہ ہم تیرہ سوسال سے اس ملک میں اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرتے آئے ہیں۔یہ بات جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہی ہے۔

متعلقہ خبریں
کینڈا میں مسلمانوں کیلئے حلال رہن کیلئے قانون سازی
حیدرآباد کرکٹ اسوسی ایشن کے انتخابات
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
مسلمان، بی جے پی کوووٹ دیں گے: صدر آسام یونٹ
میرٹھ میں ہزاروں مسلمانوں کی مودی کی ریالی میں شرکت

انہوں نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن ہندوستانی اپنے مذہب پر مرتا جیتا رہا، اس لئے ہم کسی بھی صورت میں اپنے مذہبی معاملات اورعبادات کے طورطریقہ سے سمجھوتہ نہیں کریں گے اورہم قانون کے دائرہ میں رہ کر اپنے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈپر اصرارآئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے ، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت پر باقی رکھنے کا ہے۔

 ہماراپرسنل لاء قرآن وسنت پر مبنی ہے جس میں قیامت تک کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی ، ایساکہہ کر ہم کوئی غیر آئینی بات نہیں کررہے ہیں ،بلکہ سیکولرآئین کی دفعہ 25 نے ہمیں اس کی آزادی دی ہے ، یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے اورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے نقصاندہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈشروع سے ہی ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے،ہمارا ملک صدیوں سے کثرت میں وحد ت کا مظہر رہا ہے جس میں مختلف مذہبی و سماجی طبقات اور قبائل کے لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن و یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔

سب کو نہ صرف مذہبی آزادی حاصل رہی ہے بلکہ بہت سی چیزوں میں عدم یکسانیت کے باوجود ان میں نہ تو کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوا اور نہ ہی ان میں سے کسی نے دوسرے کے مذہبی عقائد اور رسم ورواج پر کبھی کوئی اعتراض کیا۔

ہندوستانی معاشرے کی یہ خصوصیت اسے دنیا کے تمام ممالک سے ممتاز بناتی ہے۔یہ عدم یکسانیت سو دوسو سال پہلے یا آزادی کے بعد نہیں پیدا ہوئی بلکہ یہ ہندوستان میں صدیوں سے یہ موجود ہے۔ایسے میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو ملک بھر میں ایک فیملی لا ء لاگو کرنے پر زور کیوں؟

انہوں نے اخیر میں کہا کہ ہم ارباب اقتدار سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شہریوں پر کسی فیصلے کو تھوپا نہیں جانا چاہیے،بلکہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اتفاق رائے پیداکرنے کی کوشش ہونی چاہیے،تاکہ وہ فیصلہ سب کے لئے قابل قبول ہو۔

یونیفارم سول کوڈ کے تناظر میں بھی ہمارا یہی کہنا ہے کہ اس پر کوئی فیصلہ لینے سے قبل حکومت ملک کے تمام مذاہب کے پیشوا اور سماجی وقبائلی گروپوں کے نمائندوں سے مشاورت کرنی چاہیے، اور انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔

جمہوریت کا یہی تقاضا ہے۔جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 25,26 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے، ہندوستان کے دستور میں سیکولرزم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔

 یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے ہند وستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔

 وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات انتہائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 44 کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو آئین میں کہی گئی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سرسنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ‘‘یونیفارم سول کوڈ ہندوستان کے لئے غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے’’۔

حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے آئین کے باب ۳ کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلمنٹ ہو یا سپریم کورٹ تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔

آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں ۔ درحقیقت ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ کہہ کر اکثریت کوگمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کی بات آئین کا حصہ ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

 ملک میں قانون وانتظام کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں ان کے تحت ہی مختلف جرائم کے لئے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کے دائرہ میں ملک کے تمام شہری آتے ہیں، البتہ ملک کی اقلیتوں، قبائل اور بعض دوسری برادریوں کو مذہبی وسماجی قانون کے تحت آزادی دی گئی ہے ۔

کیونکہ مذہبی خاندانی وسماجی ضابطوں سے ہی مختلف مذہبی برادریوں اورگرپوں کی شناخت وابستہ ہیں اور یہی ملک کی یکجہتی، سا لمیت اور اتحا د کی بنیاد ہے، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قد غن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔

جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اس سازش کی مخالفت کرتی آئی ہے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈپر اصرار شہریوں کی مذہبی آزادی اور آئین کی اصل روح کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے اور آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ، مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول اورملک یکجہتی اور سا لمیت کے لئے نقصاندہ ہے۔