حیدرآباد

شاہی مسجد باغ عامہ میں رمضان المبارک کے لئے انتہائی ناقص انتظامات، مصلیوں کو تکالیف کا سامنا

مسجد کے اصل احاطہ کی سیدھ میں جو بڑا شیڈ ہے وہاں بھی پنکھوں کی تعداد ناکافی ہے تاہم یہاں اچھی خاصی تعداد میں بڑے بڑے کولرس جگہ جگہ کچھ ایسے ڈھنگ سے رکھے گئے ہیں کہ ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

حیدرآباد: ہر سال اخبارات میں یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ شہر کی تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ میں مصلیوں کی سہولت کے لئے مختلف النوع انتظامات کئے جارہے ہیں اور ہر سال یہ خبر بھی آتی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل مکہ مسجد میں جاری تعمیر و مرمت کے کام مکمل کرلئے جائیں گے۔ قارئین کو اس قسم کی خبریں سال بھر پڑھنے کوملتی ہیں۔

متعلقہ خبریں
’’تلنگانہ وقف املاک کا تحفظ، وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات کی فراہمی اور وقف کمشنریٹ کے قیام‘‘ کے موضوع پر گول میز کانفرنس
ائمہ وموذنین اعزازیہ کیلئے 9.99 کروڑ جاری
درگاہ حضرت جہانگیر پیراں ؒ کے ترقیاتی کاموں کا جلد آغاز ہوگا

تاہم عوام الناس آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مکہ مسجد میں سال بھر ایسی کونسی تعمیر ہورہی ہے اور مرمت کے ایسے کونسے کام سرانجام دیئے جارہے ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ واضح رہے کہ دونوں مساجد کا انتظام و انصراف تلنگانہ وقف بورڈ کے ذمہ ہے اور وقف بورڈ کے عہدیداروں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

جیسے ریاست بھر میں موجود وقف جائیدادوں کے تحفظ میں بورڈ اور اس کے عہدیداروں کی ناکامی ہر کسی پر آشکار ہے، اسی طرح شہر کی دونوں تاریخی مساجد میں نام نہاد تعمیر و مرمت کے کاموں کی تکمیل اور بالخصوص رمضان المبارک میں مصلیوں کے لئے انتظامات میں بھی بورڈ ہر سال کی طرح اس سال بھی عملاً ناکام دکھائی دیتا ہے۔

آج چاند رات سے دیگر مساجد کی طرح شاہی مسجد باغ عامہ میں بھی تراویح کی نماز کا آغاز عمل میں آیا۔ اس موقع پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسلمان، نماز تراویح کے لئے مسجد میں جمع ہوئے تاہم ناقص انتظامات کے باعث لوگوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مسجد کی سیدھی جانب مصلیوں کے لئے ایک شیڈ نصب کیا گیا ہے۔ کافی بڑے احاطہ میں شیڈ کی تنصیب عمل میں لائی گئی ہے تاہم اس شیڈ میں پنکھوں یا کولرس کا کوئی انتطام نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث مصلیوں کا گرمی کے مارے برا حال ہورہا ہے۔ پینے کے پانی کے لئے واٹر کینس درمیان میں رکھ دیئے گئے ہیں جہاں تک شیڈ کے تمام مصلیوں کی رسائی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔

مسجد کے اصل احاطہ کی سیدھ میں جو بڑا شیڈ ہے وہاں بھی پنکھوں کی تعداد ناکافی ہے تاہم یہاں اچھی خاصی تعداد میں بڑے بڑے کولرس جگہ جگہ کچھ ایسے ڈھنگ سے رکھے گئے ہیں کہ ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

دونوں شیڈس کے پچھلے حصے میں میلی کچیلی جائے نمازیں بچھائی گئی ہیں جنہیں لوگوں نے چل پھر کر مزید گندہ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ نمازیوں کی صفیں مسجد کے مین گیٹ سے باہر نکل کر باغ عامہ کی سڑک تک آگئی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں بھی وہیں جگہ جگہ بے ترتیبی سے پارک کردی گئی ہیں۔

اگر کوئی مصلی نماز تراویح کی تکمیل سے قبل اپنی گاڑی لے کر واپس ہونا چاہے تو اس کا نکلنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا کیونکہ نہ صرف گاڑیاں بے ترتیبی سے پارک کی گئی تھیں بلکہ مسجد کی گیٹ سے باہر نمازیوں کی صفیں بھی ان میں گڈ مڈ ہوگئی تھیں۔ یعنی پتہ نہیں چلے گا کہ آیا یہ پارکنگ کا مقام ہے یا نماز کی ادائیگی کا۔ اور اس پر مستزاد لوگوں کے باہر نکل کر جانے کا راستہ بھی یہی ہے۔

نمازیوں کی صفیں مزید آگے بڑھ کر باغ عامہ کی گیٹ سے باہر نکل کر کہیں مین روڈ تک نہ آجائیں، اس ڈر سے وہاں عارضی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔

ارباب مجاز کی لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت یہ دیکھنے میں آیا کہ دو تین جگہ پلاسٹک کے جائے نمازوں کا ڈھیر ڈال دیا گیا تھا اور لوگوں نے اپنی سہولت کے مطابق آمد و رفت کے مقامات پر انہیں بچھا کر وہاں نماز ادا کی بلکہ تراویح بھی وہیں ادا کی جارہی ہے۔ راستہ چلنے کے مقامات پر نماز کی ادائیگی کے باعث دیگر لوگوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔  

ہر سال یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نماز کے لئے مقررہ مقامات پر گنجائش سے بڑھ کر لوگوں کی تعداد نماز عشاء اور نماز تراویح کی ادائیگی کے لئے مسجد پہنچتی ہے تو کیا ذمہ دار عہدیدار قبل از وقت اس کے لئے مناسب انتظامات نہیں کرسکتے؟

مسجد کا ساؤنڈ سسٹم شاندار ہے، شاید نئے آلات نصب کئے گئے ہیں تاہم آواز اتنی بلند رکھی گئی کہ بزرگ تو بزرگ نوجوان حضرات کو بھی اتنی اونچی آواز تکلیف دہ محسوس ہوگی۔ احاطہ مسجد میں ہر مصلی تک آواز پہنچنے کے لئے آواز کی جو حد ہونی چاہئے، اس سے کہیں زیادہ بلند آواز باہر سڑک تک آرہی تھی۔ تعجب نہیں ہے کہ لاؤڈ اسپیکرس پر پابندی کے مطالبے کیوں ہوتے رہتے ہیں۔

گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے انتہائی بدترین صورتحال دیکھی گئی۔ نہ صرف باغ عامہ کے احاطہ میں جگہ جگہ گاڑیاں پارک کی گئیں بلکہ باہر مین روڈ پر بھی سینکڑوں گاڑیاں بے ترتیبی سے پارک کردی گئی تھیں۔

کیا پارکنگ کے سلسلہ میں نظم و ضبط کی برقراری کو یقینی بنانے والینٹرس یا ٹریفک پولیس کانسٹیبلوں کو تعینات نہیں کیا جاسکتا۔ کیا وقف بورڈ کے عہدیدار اتنے نااہل ہیں کہ سٹی پولیس کمشنر سے کہہ کر کچھ ٹریفک پولیس کانسٹیبلوں کی وہاں تعیناتی بھی عمل میں نہیں لاسکتے، تاکہ لوگوں کو افراتفری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جب تراویح ختم ہوئی اور لوگ واپس ہونے لگے تو مسجد سے لے کر سڑک تک ہنگامہ دیکھا گیا۔

ان امور پر مزے کی بات تو یہ رہی کہ امام و خطیب شاہی مسجد باغ عامہ کو بھی بخوبی اس بات کا احساس تھا کہ انتظامات ناقص ہوئے ہیں، اسی لئے وہ نماز تراویح سے قبل اپنی مختصر تقریر میں بورڈ کے لاپرواہ عہدیداروں کی پشت پناہی کرتے نظر آئے۔

فرماتے ہیں: ہمیں سب سے پہلے اس بات کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اُس کا مہمان بن کر مسجد کو آنے کا موقع دیا۔ یہاں بہتر سے بہتر انتظامات کئے گئے ہیں لیکن کہیں کچھ کوتاہی ہوتی ہے تو اسے واٹس ایپ کے ذریعہ عام نہ کریں۔

انہوں نے گاڑیوں کی پارکنگ کی مکمل ذمہ داری بھی مصلیوں پر ڈال دی اور کہا کہ ایک مومن اپنی جانب سے کسی کو بھی تکلیف نہیں دیتا۔ اپنی گاڑیوں کو مناسب جگہ پارک کرکے مسجد تشریف لائیں، مناسب جگہ نہ ملنے کی صورت میں دوسری مسجد کو چلے جائیں۔ انہوں نے کار مالکین کو حج ہاؤز کے میدان میں اپنی گاڑی پارک کرکے مسجد تک پیدل آنے کا مشورہ بھی دیا۔

سڑک پر نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ملک کے حالات ایسے نہیں رہے کہ سڑکوں پر نماز ادا کی جاسکے۔ انہوں نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوتے تو کیا سڑکوں پر نماز کی ادائیگی درست ہوتی؟

عوام کا سوال ہے کہ آخر کب تک وقف بورڈ مسلمانوں کو بے وقوف بناتا رہے گا۔ رمضان المبارک میں مصلیوں کی سہولت کے لئے مناسب انتظامات کی خاطر حکومت کی جانب سے فنڈس جاری ہوتے ہیں تاہم ان کا استعمال کہاں اور کیسے ہوتا ہے، ان انتظامات کو دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

کب تک یہ خبریں پڑھنے کو ملتی رہیں گی کہ مکہ مسجد اور شاہی مسجد میں تعمیر و مرمت کے کام جاری ہیں، رمضان سے قبل یہ مکمل کرلئے جائیں گے؟ وہ رمضان کب آئے گا جس سے پہلے یہ کام مکمل ہوجائیں گے اور مصلی اطمینان بخش طور پر نمازوں کی ادائیگی عمل میں لاتے ہوئے سکون حاصل کرسکیں گے؟

میڈیا اور میڈیا رپورٹرس پر بکاؤ ہونے کا الزام لگتا ہے لیکن لوگوں کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ سوشیل میڈیا نے ہر فرد کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی آواز اٹھائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں کہیں ضرورت ہو، سوشیل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے مسائل پر آواز اٹھائیں اور ان کی فوری یکسوئی کا مطالبہ کریں۔ یہ آپ کا حق ہے۔