حیدرآباد

ہندی کو مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی جائے گی،وزیر اعظم کو کے ٹی آر کا مکتوب

ٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے تاریک راما راؤ نے وزیر اعظم مودی کو ایک مکتوب تحریر کرتے ہوئے مرکزی یونیورسٹیوں کے بشمول فنی اور غیر فنی باوقار تمام تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم ہندی قرار دینے کے اقدام کی سخت مخالفت کی ہے۔

حیدرآباد: حکمراں جماعت ٹی آر ایس نے جسے حالیہ دنوں قومی جماعت بی آر ایس (بھارتیہ راشٹرا سمیتی) میں تبدیل کیا گیا ہے، پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات کی شدومد سے مخالفت کی جس میں کمیٹی نے ملک کے فنی وغیر فنی باوقار تعلیمی اداروں جیسے آئی آئی ٹیز میں ذریعہ تعلیم ہندی مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔

 تلنگانہ جذبات کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس نے پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات پر فوری شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ، ہندی کو مسلط کرنے کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گی۔ ٹی آ رایس نے پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات پر فوری شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ، ہندی کو مسلط کرنے کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گی۔

ٹی آر ایس کا ماننا ہے کہ ہندی، ملک کی قومی زبان نہیں ہے بلکہ ہندی، دیگر زبانوں کی طرح سرکاری زبان ہے۔ ٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے تاریک راما راؤ نے وزیر اعظم مودی کو ایک مکتوب تحریر کرتے ہوئے  مرکزی یونیورسٹیوں کے بشمول فنی اور غیر فنی باوقار تمام تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم ہندی قرار دینے کے اقدام کی سخت مخالفت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات کو غیر آہنی قرار دیتے ہوئے ان سفارشات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ان سفارشات کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے موجود اور آنے والی نسلوں پر بیانک اثرات مرتب ہوں گے۔

بالراست طریقہ سے ہندی مسلط کرنے کی کوشش سے کروڑہا نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوجائیں گی۔ انہوں نے اپنے تحریرکردہ مکتوب میں کہا کہ علاقائی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، مرکزی حکومت کی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ کیونکہ مرکزی حکومت کی جائیدادوں پر تقررات کے ٹسٹس میں پرچہ سوالات ہندی اور انگلش میں رہیں گے۔

 انہوں نے نشاندہی  کی کہ تقریباً20سنٹرل ریکروٹمنٹس ایجنسیاں، ہندی اور انگلش زبانوں میں تحریری امتحان منعقد کرتی ہیں۔ جبکہ یونین پبلک سرویس کمیشن،16 تقرراتی امتحانات دونوں زبانوں میں منعقد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی یہ پہلی علاقائی زبانوں میں زیر تعلیم کروڑ ہا نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے۔

 دنیا میں ہر معاملہ پر مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات، ملک کی ترقی کے عمل کو معکوس کرنے کے مماثل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ہندی زبان کو لازمی قرار دینے کے نتیجہ میں ملک سماجی، معاشی میں منقسم ہوجائے گا۔

ہندی کے مسئلہ پر تلنگانہ کاشدید ردعمل پہلا نہیں ہے بلکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کی بھی ٹی آر ایس نے شدید مخالفت کی تھی۔ کے ٹی آر نے کہا کہ زعفرانی پارٹی، کیا کھایا جائے، کیا پہنا جائے، کے بعد اب کس زبان میں بات کی جانی چاہئے۔ اس کا بھی فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔

حکومت گجرات نے ماہ فروری میں ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے ریاست میں تمام سائن بورڈ پر صرف گجراتی تحریر کرنے کی ہدایت دی تھی، بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت، ریاستوں پر ہندی کے چلن کو عام کرنے کی ہدایت دے رہی ہے جبکہ وہاں گجرات میں عوام گجراتی میں بات کرتے ہیں اور جنوبی ہند کی ریاستوں کو ہندی کے استعمال کا حکم دیا جارہا ہے۔

 اس طرح بی جے پی کی ڈوغلی پالیسی عیاں ہوتی ہے۔ اگر بی جے پی کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہے تو اسے سب سے پہلے گجرات سے ہندی مسلط کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مودی میں اگر ہمت ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ گجرات سے ہندی مسلط کرنے کی مساعی شروع کرنی چاہئے۔