خدارا خواتین کی تربیت پر توجہ دیں!
ایک بار جب میں شہر سے اپنی جائے قیام کو لوٹ رہا تھا، اس درمیان ایک خاتون کا فون آیاوہ اپنا مدعا پیش کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، وہ کہہ رہی تھیں : ’’ آپ لوگ جمعہ میں بیان کرتے ہیں اور اُن کو صرف مرد سنتے ہیں، عورتیں محروم رہتی ہیں، عیدین کے موقع سے عیدگاہ میں دین کی بات پیش کی جاتی ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ایک بار جب میں شہر سے اپنی جائے قیام کو لوٹ رہا تھا، اس درمیان ایک خاتون کا فون آیاوہ اپنا مدعا پیش کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، وہ کہہ رہی تھیں : ’’ آپ لوگ جمعہ میں بیان کرتے ہیں اور اُن کو صرف مرد سنتے ہیں، عورتیں محروم رہتی ہیں، عیدین کے موقع سے عیدگاہ میں دین کی بات پیش کی جاتی ہے؛
لیکن عورتوں کے لئے اس سے استفادہ کی کوئی صورت نہیں ہوتی، آپ حضرات مدارس کے جلسے کراتے ہیں؛ لیکن سامعین صرف مرد ہوتے ہیں، سیرت کے جلسے ہوتے ہیں تو وہ بھی مردوں کے لئے، دعوت وتبلیغ کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں، ان میں بھی عورتوں کی شرکت نہیں ہو سکتی، غرض کہ دینی نقطۂ نظر سے جتنے اجتماعات ہوتے ہیں، ان سے خواتین محروم رہتی ہیں، اگر کوئی ایسا پروگرام ہو، جس میں پیچھے کی طرف عورتوں کا انتظام ہو، تب بھی مقررین کی ساری گفتگو مردوں کو سامنے رکھ کر ہوتی ہے،
خواتین کے مسائل اور اُن کی ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی، اس کے برخلاف خواتین چوں کہ تنہا گھر میں ہوتی ہیں اور ان کا وقت فارغ ہوتا ہے؛ اس لئے وہ مردوں سے زیادہ ٹی وی سیریل دیکھتی ہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والے پروگراموں کو سنتی ہیں، جس میں اسی نوے فیصد غیر اخلاقی باتیں ہوتی ہیں، ایسی فلمیں دکھائی جاتی ہیں کہ بیوی کے اندر شوہر کے خلاف اور بہو کے اندر ساس سسر کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہوں،
یہ پروگرام ازدواجی زندگی میں تلخی کا سبب بنتے ہیں، لڑکیاں خاندان کو جوڑنے کے بجائے خاندان کو توڑنے کا ذریعہ بن رہی ہیں؛ اس لئے کہ خواتین دین کی باتوں سے واقف نہیں ہیں، اور ایسے ایسے گناہوں میں مبتلا ہیں کہ جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا، آخر آپ لوگ اپنی بہنوں کے بارے میں بھی تو کچھ سوچیں؛ ورنہ قیامت کے دن ہم آپ لوگوں کا دامن پکڑیں گے‘‘ یہ ان کی طویل گفتگو کا خلاصہ تھا، وہ بہت جذبات میں گفتگو کر رہی تھیں، میں نے عرض کیا : مختلف دینی جماعتوں اور تنظیموں سے میرا بھی کچھ تعلق ہے، میں ان کے ذمہ داروں کے سامنے آپ کی بات رکھوں گا، اور ان شاء اللہ اس کی طرف توجہ کی جائے گی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے ایسی کسی بھی شکل سے منع کیا ہے، جس میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو، یہ ممانعت فطرتِ انسانی کا تقاضہ اور سماج میں اخلاقی قدروں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کو پوری طرح دینی باتوں سے محروم رکھا جائے، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہ کیا جائے، انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے ناواقف رکھا جائے، صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اجتماعات میں ماں کے حقوق اوراس کے فرائض ان مردوں کے درمیان بیان کئے جاتے ہیں، جو باپ ہوتے ہیں، بیٹیوں کے حقوق وفرائض بیٹوں کے درمیان ذکر کئے جاتے ہیں، بہوؤں کی ذمہ داریاں داماد کے سامنے ذکر کی جاتی ہیں،
نکاح وطلاق کے احکام کا بڑا حصہ عورتوں سے متعلق ہوتا ہے؛ لیکن ساری گفتگو مردوں کے مجمع میں ہوتی ہے، عبادات کے بہت سے احکام خواتین کے لئے مردوں سے الگ ہیں؛ لیکن مسائل صرف مردوں کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں، ازواج مطہرات، بنات طاہرات اور وفا شعار اور جاں نثار صحابیات کے بغیر سیرت نبوی کا مضمون مکمل نہیں ہو سکتا؛ لیکن خواتین کے لئے سیرت کے جلسے نہیں کئے جاتے کہ عورتیں سنیں اور سمجھیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ کا سلوک خواتین کے ساتھ کس قدر کریمانہ تھا، علماء کو، مسلم تنظیموں کو اورجماعتوں نیز دیگر مذہبی اداروں کو اس پر گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں یقینی طور پر ایسی تدبیر اختیار کرنی چاہئے کہ انسانیت کے نصف حصہ (جس کوآج کل نصف بہتر کہا جاتا ہے) تک ہم اسلامی تعلیمات کو پہنچانے کی کوشش کریں ۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خواتین مسجدوں میں نماز ادا کیا کرتی تھیں؛ کیوں کہ آج کی طرح فتنہ وفساد کا اندیشہ نہیں تھا، عورتوں کے لباس ڈھکے چھپے ہوتے تھے، لوگ نگاہوں ہی کی نہیں دلوں کو بھی بُرائی سے محفوظ رہتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا، آپ وقتاً فوقتاً نازل ہونے والی آیات کو نمازوں کے بعد پیش فرماتے تھے، ظاہر ہے کہ اللہ کی کتاب مردوں کے لئے بھی ہے اور عورتوں کے لئے بھی؛
اس لئے نمازوں میں ان کی شرکت کا انتظام کیا جاتا تھا، بعد کو اخلاقی بگاڑ اور بے حیائی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے عورتوں کے مسجد میں نماز ادا کرنے کو حرام اور ناجائز تو نہیں قرار دیا؛ لیکن کہا کہ یہ بہتر نہیں ہے، اور ان کا یہ اجتہاد پوری طرح منشاء نبوی کے مطابق تھا، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شب و روز کی رفیق اور مزاج شناس اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ اگر آپ ﷺ نے آج کی عورتوں کو دیکھا ہوتا تو ان کو مسجد میں آنے سے منع کر دیا ہوتا ۔
عہد نبوی میں عیدین کے موقع پر خواتین بھی عیدگاہ جاتی تھیں، اور آپ ﷺ الگ سے ان کے درمیان وعظ فرماتے تھے، یہاں تک کہ عورتیں خیمہ لگا کر مسجد نبوی میں معتکف بھی ہوتی تھیں، آپ کا معمول مبارک روزانہ مغرب کے بعد اُن اُم المؤمنین کے یہاں قیام کا تھا، جن کے یہاں آپ کی باری ہوتی تھی، یہیں دوسری ازواج مطہرات، صاحبزادیاں اور گھر کی خواتین جمع ہو جاتی تھیں، حسب ِضرورت مہاجر اور انصاری خواتین بھی آیا کرتی تھیں اور کبھی براہ راست اور کبھی ازواج مطہرات کے واسطے سے اپنی ضرورت کے مسائل دریافت کرتی تھیں، خواتین بھی آپ کی مجلسوں سے استفادہ کیا کرتی تھیں، شاید اس لئے کہ آگے مرد ہوتے تھے، پیچھے عورتیں ہوتی تھیں، یا اس بناء پر کہ مرد شرکاء کی تعداد زیادہ ہوتی تھی، یا اس وجہ سے کہ مردوں کی آواز اونچی رہا کرتی ہوگی اور عورتوں کی آواز دب جاتی ہوگی، یا شاید یہ سبب ہو کہ خواتین سے متعلق بعض مسائل کا مردوں کی مجلس میں پوچھنا مناسب نہیں ہوتا، بہر حال جو بھی سبب ہو،
عورتوں نے اس صورت حال کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ مرد ہم پر غالب آجاتے ہیں؛ اس لئے ہمیں ایک دن کا خصوصی وقت ملنا چاہئے؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ان کے لئے جمعرات کا دن متعین فرما دیا، اس میں خواتین کا اجتماع ہوتا، آپ ﷺ ان سے خطاب فرماتے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے، یوں بھی رسول اللہ ﷺ کا دربار ہر ایک کے لئے کھلا رہتا تھا، جہاںمرد حضرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، مسائل پوچھتے، اپنے اشکالات حل کرتے، وہیں خواتین بھی حاضری کی سعادت حاصل کرتیں؛
اسی لئے حدیث میں بہت سے ایسے سوالات کا ذکر ملتا ہے، جو عورتوں نے کئے ہیں، اور آپ ﷺ نے پوری توجہ کے ساتھ ان کا جواب عطا فرمایا ہے، اسی طرح کسی خاتون کو اپنے شوہر سے یا والد سے شکایت ہوتی تو وہ بے تکلف آپ ﷺ کے سامنے اپنا دکھ رکھتی اور آپ ان کے مسائل کو حل کرتے، ایک لڑکی کی شادی اس کی پسند کے بغیر اس کے والد نے کر دی، وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اس نکاح کو رد فرما دیا، حضرت ابو سفیانؓ کی بیوی نے اپنے شوہر کے بخل کی شکایت کی، اور آپ سے استفسار کیا کہ کیا میں ان کے مال میں سے چھپا کر کچھ لے سکتی ہوں ؟
آپ ﷺ نے ضروری حد تک لینے کی اجازت دی، یہاں تک کہ خواتین آپ ﷺ سے اپنے رشتہ کے بارے میں بھی مشورہ کیا کرتی تھیں، حضرت فاطمہ بنت قیس ؓکے پاس کئی رشتے آئے، انھوں نے آپ سے مشورہ کیا، آپ ﷺ نے اپنی طرف سے حضرت اُسامہؓ کا رشتہ پیش کیا اور ان ہی سے نکاح ہوا، ایسا بھی ہوا کہ بعض خواتین کو ان کے شوہر پسند نہیں تھے، انھوں نے آپ کے سامنے اپنا معاملہ رکھا اور آپ ﷺ کی مدد سے خلع حاصل کیا، غرض کہ خواتین آپ کے مواعظ سے بھی استفادہ کرتی تھیں، آپ سے مسائل بھی دریافت کرتی تھیں، اپنی گھریلو زندگی کے سلسلہ میں بھی مشورہ کیا کرتی تھیں، آپ ﷺ بھی ان سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ہر ضرورت میں ان کی مدد فرماتے تھے ۔
اس لئے خواتین اُمت کے سلسلہ میں اسی توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ احتیاط بھی ہو، اختلاط سے اجتناب بھی ہو، شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو؛ لیکن اُن تک دین کی باتیں پہنچائی جائیں، ان کے لئے خطبات ومواعظ رکھے جائیں، اور ان کے لئے ایسا موقع بھی فراہم کیا جائے کہ وہ علماء کے سامنے اپنے مسائل کو پیش کر یں اور حسب ضرورت ان سے مشورے لے سکیں، وہ محسوس کریں کہ سماج کا نصف حصہ جو مردوں پر مشتمل ہے، جیسے ان پر توجہ دی جاتی ہے، دوسرے نصف پر بھی اسی طرح توجہ دی جاتی ہے؛ کیوں کہ عمومی طور پر جو فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات مرد سے متعلق ہیں، عورتوں سے بھی متعلق ہیں؛
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کے لئے علم حاصل کرنے کو ضروری قرار دیا : ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ اس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے، اسی طرح دین کی دعوت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم پوری اُمت کے لئے ہے، اس میں عورتیں بھی شامل ہیں؛ بلکہ آپ ﷺ نے تو خواتین کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی ہے، آپ نے فرمایا :
جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی تربیت کرے، ان کا نکاح کر دے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے، اس کا ٹھکانہ جنت ہے : ’’من عال ثلاث بنات فأدبھن وزوجھن وأحسن الیھن فلہ الجنۃ‘‘ (۱۔سنن ابی داؤد: ۷؍۴۵۹) بیٹی تو بیٹی ہے، آپ نے تو باندی کی بھی تعلیم و تربیت کا حکم دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کوئی باندی ہو، وہ اس کو تعلیم دے اور بہتر طور پر تعلیم دے، اس کی تربیت کرے اور بہتر طور پر تربیت کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا : ’’أیما رجل کانت عندہ ولیدۃ فعلمھا فأحسن تعلیمھا وأدبھا فأحسن تأدیبھا، فلہ أجران ‘‘ ۔ (۲۔بخاری، عن ابی موسیٰ اشعری، حدیث نمبر: ۴۷۹۵)
دین کے بہت سے ادارے جو سادہ طریقہ پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قائم تھے، بعد کے ادوار مین اصل مقصد کو قائم رکھتے ہوئے اس کے لئے مناسب ِحال شکلیں اختیار کی گئیں، آپ کے عہد میں مسجد ِنبوی ہی میں تعلیم ہوتی تھی؛ لیکن بعد کے زمانے میں الگ سے مدرسے قائم کئے گئے اور غالباً عباسی دور سے مدرسوں کی الگ عمارتیں بننے لگیں، عہد نبوی میں مسجد ہی میں مقدمات کے فیصلے بھی کئے جاتے تھے، بعد میں محاکم شرعیہ کی مستقل عمارتیں بنائی گئیں، آپ کے عہد میں مسجد ہی میں قیدیوں کو ستونوں سے باندھ کر قید کی سزا دی جاتی تھی ۔
حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں باضابطہ جیلیں بنائی گئیں؛ اس لئے اس پر غور کیا جاسکتا ہے کہ عورتوں کے لئے مسجدوں کا متبادل فراہم کیا جائے، ہر مسلم محلہ میں ایک ایسا سینٹر ہو جو خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے مخصوص ہو ۔
موجودہ دور میں ہم بہنوں کے مسائل کو حل کرنے اور ان تک دین کا پیغام پہنچانے کے لئے درج ذیل تدبیریں اختیار کر سکتے ہیں :
۱- ان مراکز میں عورتوں کے لئے ہفتہ وار درس قرآن اور درس حدیث کا انتظام کیا جائے، شرعی مسائل کا درس بھی رکھا جائے، جس میں ضروری مسائل بیان کئے جائیں، اب تو ماشاء اللہ لڑکیوں کے مدرسوں میں بھی افتاء کے شعبے قائم ہیں، ان کی فارغات کی بھی خدمات حاصل کی جائیں؛ تاکہ عورتیں بے تکلف اپنے مسائل ان کے سامنے رکھ سکیں، موجودہ حالات میں اتوار کا دن اس کے لئے زیادہ مناسب ہوگا ۔
۲- رمضان المبارک، عیدین، شب قدر کی مناسبتوں سے خواتین کے لئے دن کے وقت پروگرام رکھے جائیں اور ان مذہبی تقریبات کی روح ان پر پیش کی جائے ۔
۳- سیرت کے خصوصی جلسے خواتین کے لئے کئے جائیں ۔
۴- اسی سینٹر میں خاندانی تنازعات کے لئے کاؤنسلنگ سینٹر رکھا جائے، اور کاؤنسلنگ میں تجربہ کار تعلیم یافتہ خواتین کو بھی شامل کیا جائے ۔
۵- گرما کی تعطیلات میں خواتین کے لئے خصوصی گرمائی کلاسس اور مذاکرات رکھے جائیں اور ان کلاسزکو ناظرۂ قرآن اور دُعاؤں کے یاد کرنے تک محدود نہ کیا جائے؛ بلکہ عقائد، عبادات، معاشرت اور اخلاق چاروں شعبوں کی تعلیم دی جائے ۔
یوں تو ویسے بھی خواتین اُمت کا نصف حصہ ہیں؛ اس لئے ہر سطح پر ان کے لئے تعلیم وتربیت اور پندو موعظت کا پروگرام ہونا چاہئے؛ لیکن موجودہ حالات میں چوں کہ خواتین کے نام سے اور ان کے حقوق کے حوالے سے اسلام کو بدنام کرنے اور شریعت کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں؛ اس لئے اس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے ۔
٭٭٭