خواتین کیلئے محرم کے بغیرسفرحج
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوںپرجوعبادتیںفرض کی ہیں، اُن کوتین خانوںمیںتقسیم کیاجاتاہے، ایک وہ عبادت، جس کی ادائے گی انسانی اعضاء وجوارح سے کی جاتی ہے، جسے ’’جسمانی عبادت‘‘کہاجاتاہے، جیسے: نمازوروزہ، دوسری وہ عبادت، جس کی انجام دہی انسان اپنے کمائے ہوئے حلال مال سے کرتاہے، جسے ہم ’’مالی عبادت‘‘ کہتے ہیں۔
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوںپرجوعبادتیںفرض کی ہیں، اُن کوتین خانوںمیںتقسیم کیاجاتاہے، ایک وہ عبادت، جس کی ادائے گی انسانی اعضاء وجوارح سے کی جاتی ہے، جسے ’’جسمانی عبادت‘‘کہاجاتاہے، جیسے: نمازوروزہ، دوسری وہ عبادت، جس کی انجام دہی انسان اپنے کمائے ہوئے حلال مال سے کرتاہے، جسے ہم ’’مالی عبادت‘‘ کہتے ہیں، جیسے: زکوٰۃ وصدقہ اورتیسری وہ عبادت، جس کی بجاآوری میںمال بھی خرچ ہوتاہے اوراعضاء وجوارح بھی تھکتے ہیں، جسے’’مالی وجسمانی عبادت‘‘ کہاجاتاہے، جیسے: حج،یہی تین قسم کی عبادتیںاللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںپرفرض کی ہیں، جن کی ادائے گی ہر مکلف پرضروری ہے، عدمِ ادائے گی کی صورت میں مختلف قسم کی سزائیںتیارکی گئی ہیں، جوانسان کے مرنے کے بعد اسے دی جائیںگی۔
پھران میں سے ہرایک کی ادائے گی کے لئے کچھ حدود و قیود اورفرائض وشرائط ہیں، جن کے بغیران امورکوانجام نہیں دیا جاسکتا،اس مضمون میں خواتین پر’’حج ‘‘واجب ہونے کے لئے ’’محرم‘‘ کی شرط کاجائزہ لیاجائے گا؛ تاکہ مسئلہ کی وضاحت بھی ہوجائے، موجودہ زمانہ کے ساتھ موافقت بھی اورشریعت اسلامی پرعمل کرنے میں سہولت بھی، نیزیہ بھی معلوم ہوجائے کہ دین میں اللہ تعالیٰ نےبہت ساری آسانیاںرکھی ہیںاوربوقت ضرورت ان آسانیوں سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ نبی کریم ﷺ کاعمل اس بابت ہمارے لئے رہنماہے، آپ ﷺ کے بارے میں منقول ہے: ما خُيِّرَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بيْنَ أمْرَيْنِ قَطُّ إلَّا أخَذَ أيْسَرَهُمَا، ما لَمْ يَكُنْ إثْمًا، فإنْ كانَ إثْمًا كانَ أبْعَدَ النَّاسِ منه(صحیح البخاری، حدیث نمبر: (6126)، صحیح مسلم ، حدیث نمبر:(2327)’’جب بھی رسول اللہ ﷺ کوکسی دو معاملے میں اختیاردیاگیا تو آپ ﷺ نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا‘‘، نیز آپ ﷺ نےیہ تعلیم بھی دی ہے کہ آسانیاں پیدا کرنے والے بنو، سختیاںپیداکرنے والےنہیں، ارشاد ہے: إنمابعثتم میسرین، ولم تبعثوا معسرین (بخاری، حدیث نمبر: ۲۲۰) ’’تم لوگ نرمی کرنے والے بناکربھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے بناکرنہیںبھیجے گئے‘‘۔
اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئےکہ خاتون مکمل طور پر عورت (چھپاکررکھی جانے والی)ہے، اسی لئے اس کے تعلق سے عام حکم یہ ہے کہ بلاضرورت گھرسے باہر نہ نکلے؛ کیوںکہ جب عورت گھرسے باہرنکلتی ہے توشیاطین الانس والجن دونوں اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: المرأۃ عورۃ، فإذا خرجت استشرفہا الشیطان (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۱۱۷۳)’’خاتون سراپا عورت (چھپائی جانے والی چیز)ہے، جب وہ باہرنکلتی ہے توشیطان مردوں کی نظرمیں اسے پری پیکربناکرپیش کرتا ہے‘‘، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کاقول ہے: المرأۃ عورۃ، وأقرب ماتکون من ربہا إذا کانت فی قعربیتہا، فإذا خرجت استشرفہا الشیطان۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر:۷۶۹۰) ’’خاتون سراپا عورت (چھپائی جانے والی چیز)ہے،اوروہ اپنے رب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے، جب وہ گھرکے اندرون میں رہتی ہے، جب وہ باہرنکلتی ہے توشیطان مردوں کی نظرمیں اسے پری پیکر بناکر پیش کرتا ہے‘‘، اس کے باوجودمسجدوں اورعیدگاہوں میں جانے کی انھیں اجازت بھی دی گئی ہے؛ چنانچہ ایک موقع سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: لاتمنعوا إماء اللہ مساجد اللہ۔ (صحیح البخاری،حدیث نمبر: ۹۰۰، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۴۴۲)’’اللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجدوں سے نہ روکو‘‘؛ البتہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ایک اورلفظ کااضافہ ہے: ولیخرجن تَفِلات۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۹۶۴۳) ’’انھیں چاہئے کہ وہ بے زیب وزینت کے نکلیں‘‘، اس سے معلوم ہوا کہ مسجدوعیدگاہ کے لئے جانے میں تحفظ واحتیاط سے کام لے۔
مذکورہ احادیث سے دوباتیںخصوصیت کے ساتھ معلوم ہوئیں:
۱- خاتون سراپاعورت(چھپائی جانے والی چیز)ہے، اسے بلاضرورت گھرسے باہر نہیں جاناچاہئے۔
۲- ضرورت اورخاص موقعوںسے وہ باہرجاسکتی ہے؛ لیکن ایسی صورت میں زیب وزینت کے بغیرتحفظ واحتیاط کے ساتھ جائے۔
ایساہی حکم سفرکے تعلق سے بھی ہے؛ چنانچہ عام حکم یہ ہے کہ عورت بغیرمحرم کے سفرپرنہ جائے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: لاتسافر المرأۃ إلامع ذی محرم۔ (صحیح البخاری،باب حج النساء، حدیث نمبر: ۱۸۶۲)’’عورت کوچاہئے کے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے‘‘،عمومی حکم یہی ہے اوراسی پرعمل بھی کرنا چاہئے؛ لیکن کیاخاص سفرمثلاً ’’حج‘‘ بھی بغیرمحرم کے وہ نہیں کرسکتیں؟ اس سلسلہ میں علماء کی دورائیں ہیں:
۱- شوہریامحرم کے بغیرعورت حج نہیں کرسکتی، جب کہ وہ مکہ سے مسافت قصرپرہو، اس کے قائلین احناف وحنابلہ ہیں، ان حضرات کے دلائل اوپرمذکوراحادیث ہیں، جن میں عورت کوتنہاسفرکرنے سے منع کیاگیاہے۔
۲- مامون خواتین رفقاء کے ساتھ سفرحج کی گنجائش ہے، یہ شوافع اورمالکیہ کی رائے ہے؛ البتہ شوافع کے یہاںان کی تعداددویااس سے زیادہ ہونی چاہئے، جب کہ مالکیہ کے یہاں خواتین کی پوری ایک جماعت ہونی چاہئے(الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱۷؍۳۵-۳۶)، ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہیں:
عن عمرۃ أن عائشۃ أخبرت أن أباسعید الخدری یفتی أن المرأۃ لاتسافر إلامع محرم، فقالت: ماکلہن من ذوات محرم۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب المرأۃ یلزمہا الحج بوجود السبیل إلیہ۔۔۔، حدیث نمبر: ۹۹۱۳) ’’حضرت عمرہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کوبتایاگیاکہ حضرت ابوسعیدخدریؓ فتوی دیتے ہیں کہ عورت بغیرمحرم کے سفرنہیں کرسکتی توانھوں نے فرمایا: ہرخاتون محرم والی نہیںہوتی‘‘۔
عن نافع قال: کان یسافر مع عبداللہ بن عمر موالیات لہ، لیس معہن ذومحرم۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی، حدیث نمبر: ۳۵۱۴، المحلی لابن حزم، کتاب الحج، مسئلہ نمبر:۸۱۳: ۷؍۴۸) ’’نافع کہتے ہیںکہ حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ ان کی آزادکردہ باندیاںبھی سفر میں ہوتی تھیں؛ حالاں کہ ان کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دارنہیں ہوتا تھا‘‘۔
شوافع اورمالکیہ کے ساتھ بہت سارے تابعین اورائمۂ مجتہدین کابھی اس پر عمل ہے؛ چنانچہ علامہ ابن حزم لکھتے ہیں:
وھو قول ابن سیرین، وعطاء، وھو ظاہر قول الزہری، وقتادۃ، والحکم بن عتیبۃ، وہوقول الأوزاعی، ومالک، والشافعی، وأبی سلیمان وجمیع أصحابہم۔ (المحلی لابن حزم، کتاب الحج، مسئلہ نمبر: ۸۱۳: ۷؍۴۸ط:ادارۃالطباعۃ المنبریۃ۱۳۴۹ھ)’’یہی قول ابن سیرین اورعطاء کاہے اوریہی زہری، قتادہ اورحکم بن عتیبہ کاقول ظاہرہے اوریہی اوزاعی، مالک، شافعی، ابوسلیما ن اوران حضرات کے تمام اصحاب کاہے‘‘۔
راقم حروف کاخیال یہ ہے کہ عام حالت میں توخواتین کوشوہریامحرم کے ساتھ ہی سفرحج کرناچاہئے؛ کیوں کہ سفر کو ’’قطعۃ من النار‘‘ کہاگیاہے، جس میں مختلف کی قسم کی پریشانیاں اور تکالیف لاحق ہوتی ہیں، ایسے میںکسی مردکے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے، خصوصیت کے ساتھ آج کل کے اژدحام میں اورزیادہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، نیززمانہ فتنہ وفساد کاہے اورتنہاسفرسے روکنے کی وجہ بھی یہی فتنہ وفساد ہے؛ لیکن کوئی خاتون صاحب حیثیت ہو اورمحرم یا شوہر اس کانہ ہوتواسے حج سے محروم کرنے کی بجائے دوسری رائے کو اختیارکرنے کی گنجائش ہے؛ اس لئے کہ یہ قول بھی بے اصل نہیں ہے،
نیزحکومت کی طرف سے اس کی اجازت بھی دیدی گئی ہے توعین ممکن ہے کہ آپ کے فتوی پرعمل کی بجائے بہت ساری خواتین حکومتی قانون کاآڑ لے کر سفر حج طے کریں، ایسی صورت میں فتوی کااحترام باقی نہیں رہے گا؛ اس لئے بہترہے کہ گنجائش کی رائے عمل کرلیا جائے، نیزیہ قاعدہ بھی ذہن میں رہناچاہئے کہ ’’إن ما حرم لذاته لا يباح إلا للضرورة، أما ما حرم لسد الذريعة فيباح للحاجة‘‘ (جوچیزحرام لذاتہ ہے، وہ ضرورت کے وقت ہی مباح ہوسکتی ہے؛ لیکن جوچیز سدذریعہ کے طورپرحرام ہو، حاجت کے وقت وہ مباح ہوجاتی ہے) اوراس بات میںکوئی دورائے نہیںکہ خواتین کے لئے بغیرمحرم کے سفرکی ممانعت سدذریعہ کے طورپرہے، نیزآج کل کاسفرماضی کے اسفارسے کافی مختلف بھی ہے، جس میں امن کازیادہ امکان ہوتا ہے، ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭