مضامین

ریاستوں کے انتخابات لوک سبھا الیکشن پر اثرانداز ہوں گے؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں اس وقت انتخابی ماحول کافی گرم ہو چکا ہے۔ ملک کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن ان انتخابات کو آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن کا سیمی فائنل قرار دیا جا رہا ہے۔ ان پانچ ریاستوں میں راجستھان ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ شامل ہے۔ میزورم کے تمام 40 اسمبلی حلقوں کی رائے دہی ایک ہی مرحلہ میں 7 نومبر کو مکمل ہو چکی ہے۔ میزورم میں چار اہم سیاسی پارٹیوں ،بر سراقتدار میزو نیشنل فرنٹ، انڈین نیشنل کانگریس، زاورام پیوپلس موومنٹ اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ اگرچکہ عام آدمی پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے ۔ چھتیس گڑھ ریاستی اسمبلی کے انتخابات دو مرحلوں میں ہورہے ہیں جہاں اسمبلی کی 90 نشستیں ہیں۔ پہلا مر حلہ میزورم کے ساتھ 7 نومبر کو مکمل ہو چکا ہے ۔ اس میں 20نشستوں کے لیے رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ چھتیس گڑھ کی بقیہ 70نشستوں کے لیے ووٹنگ 17 نومبر کو ہوگی۔ چھتیس گڑھ میں نکسلائیٹس کی سرگرمیاں اب بھی جا ری ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے 90رکنی اسمبلی کے لیے دو مرحلوں میں رائے دہی کے عمل کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن سے پہلے ریاست میںتشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ چھتیس گڑھ میں اصل مقابلہ حکمران کانگریس اور اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے درمیان ہے۔17 نومبر کو ہندی بیلٹ کی اہم ریاست مدھیہ پردیش ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔ مدھیہ پردیش میں حکمران پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کانگریس سے ہونے جا رہا ہے۔ ملک کی ایک اور اہم ریاست راجستھان میں 25 نومبر کو ریاستی اسمبلی کے لیے رائے دہی ہو گی۔ یہاں کانگریس اس وقت بر سر اقتدار ہے۔ بی جے پی سے اس کا راست مقابلہ ہے۔ 30 نومبر کو جنوبی ہند کی گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ریاست ،تلنگانہ میں تیسری مر تبہ ریاست کے عوام ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ تلنگانہ میں حکمراں بی آر ایس ( سابق ٹی آر ایس ) ، کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہو گا۔ تلنگانہ ریاستی اسمبلی کی 119نشستیں ہیں۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین شہر حیدرآباد سے 9اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کر رہی ہے۔ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد ہونے والے دونوں اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کا میاب رہی۔ اب تیسری مرتبہ بی آر ایس حکومت بنانے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس میں بھی راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور کرناٹک الیکشن میں کامیابی کے بعد نئی توانائی آئی ہے۔ بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر ہی انحصار کیے ہوئے ہے۔ ان پانچوں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی 3 دسمبر 2023 ءکو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ عوام کا فیصلہ3 دسمبر کو ہی منظر عام پر آئے گا۔ عوام حکمرانی کا حق کس پارٹی کو دیں گے یہ بات تو نتائج کے اعلان کے بعد ہی معلوم ہوگی۔ ملک کے عوام بڑی حد تک با شعور ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں الیکشن کے دوران اپنے رائے دہندوں کو ہتھیلی میں جنت دکھانے میں ماہر ہو گئی ہیں۔ اس لیے ان کی ہر بات پر بھروسہ کر کے ان کو ووٹ دینا اور ان سے امیدیں وابستہ رکھنا صرف معصومیت کے زمرے میں آتا ہے۔ رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کا استعمال پورے سیاسی شعورکے ساتھ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت میں اصل مقتدراعلیٰ عوام ہو تے ہیں۔ ان کی جانب سے غلط عوامی نمائندوں کا انتخاب ملک کی جمہوری قدروں کو ختم کر دیتا ہے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کس حد تک آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن پر اثر انداز ہوں گے، یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ان پانچ ریاستوں میں اگر سیکولر پارٹیاں کامیاب ہوں گی تو 2024میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن کا بیانیہ بالکل جداگانہ نو عیت کا ہوگا۔ بالفرض محال ہندوتوا طاقتیں ان ریاستوں میں بر سرِ اقتدار آنے یا اپنے ووٹوں کے فیصد کو بڑھانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو اس سے قومی سطح کی سیاست کا رُخ کچھ اور ہی ہوجائے گا۔ اسی لیے سیاسی تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ پانچ ریاستوں کے یہ انتخابات ، لوک سبھا الیکشن کے لیے سیمی فائنل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر راجستھان، مدھیہ پردیش ، تلنگانہ اور چھتیں گڑھ کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اثر ان ریاستوں کی حد تک محدود نہیں رہے گا ۔ مجوزہ انتخابات کوسابق میں ہوئے اسمبلی الیکشن سے منفرد الیکشن قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ اسمبلی الیکشن اور لوک سبھا الیکشن کے درمیان بہت کم وقفہ ہے۔ چھ ماہ بعد لوک سبھا الیکشن ہونے والے ہیں۔ جو پارٹیاں اسمبلی الیکشن میں کا میاب ہوں گی ، ان کا لوک سبھا الیکشن میں بھی پلّہ بھاری ہو گا۔ راجستھان میں جہاں اس وقت کانگریس کی حکومت ہے، اگر وہ ریاستی اسمبلی الیکشن میں شکست سے دوچار ہوتی ہے تو لوک سبھا الیکشن میں وہ زیادہ پارلیمانی سیٹیں حاصل کرنے کے موقف میں نہیں رہے گی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں جہاں اس وقت بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار ہے ، وہ اگر اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے تو آئندہ سال لوک سبھا الیکشن میں وہ اپنی ساکھ کو باقی نہ رکھ سکے گی۔ یہی نکتہ تلنگانہ اور چھتیں گڑھ کی سیاست کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتیجہ کا سب سے زیادہ اثر کانگریس اور بی جے پی پر پڑے گا۔ کانگریس ، راجستھان میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، مدھیہ پردیش میں کانگریس ، بی جے پی سے اقتدار چھین لیتی ہے ، چھتیس گڑھ میں وہ اپنی حکومت بچالیتی ہے اور تلنگانہ میںبی آر ایس کو ہیٹ ٹرک بنانے کا موقع نہیں دیتی ہے تو اس کی اس سیمی فائنل میں کامیابی فائنل میں کا میاب ہونے کی ضامن ہو گی، لیکن کیا واقعی کانگریس کے لیے یہ جیت اتنی آسان ہے؟ راجستھان میں کانگریس قائدین کے درمیان ہی گروہ بندیاں ہیں۔ ریاست کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور سابق ڈپٹی چیف منسٹر و صدر ریاستی کانگریس راجیش پائلٹ کے درمیان ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی دونوں لیڈروں کو سمجھا مناکر ریاست میں کانگریس کی ساکھ کو بچائے رکھے ہیں۔ عوامی فیصلہ کانگریس کے حق میں آئے گا یا عوامی ناراضگی کا اظہار کانگریس کے خلاف ووٹ دے کر کیا جائے گا یہ تو 3 دسمبر کو معلوم ہوگا۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت سے عوام نالاں ہیں۔ جوڑ توڑ کے ذریعہ بنائی گئی حکومت نے ساڑھے تین سال کے دوران عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت بنانے میں کا میاب ہوجائے۔ چھتیں گڑھ اس وقت بھاری قرضوں میں ڈوبی ہوئی ریاست ہے۔ کانگریس نے عوام سے کیا ہوا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا یہ الزام عائد کرکے بی جے زور و شور کے ساتھ کانگریس کے خلاف انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ چھتیس گڑہ میں نکسلائیٹس کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں، بعض علاقوں میں پولیس اور فوج بھی داخل نہیں ہو سکتی۔ نکسلائیٹس کا دعویٰ ہے کہ ملک کا موجودہ سیاسی نظام ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس کے ذریعہ غریبوں کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے اس نظام کو ختم کر دینا ہی عوام کے حق میں بہتر ہے۔ اس لیے وہ الیکشن کے خلاف ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں ان کی سرگرمیاں کچھ کم ہوئیں ہیں لیکن چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں ان کی موجودگی سیاستدانوں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
کانگریس کے لیے پانچ ریاستوںکے مجوزہ انتخابات اس لئے اہم ہیں کہ اس کی قیادت میں I.N.D.I.A. اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ کانگریس اگر ان پانچ ریاستوں میں اپنی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کر تی ہے تو اس کی ہم خیال پارٹیوں کی جانب سے بنائے گئے اس محاذ میں اسے بر تری حاصل ہوجائے گی۔ آئندہ سال منعقد ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں اسے ان ریاستوں سے زیادہ سے زیادہ لوک سبھا کی نشستیں حاصل ہوں گی۔ حالیہ عرصہ میں کانگریس کو کرناٹک میں بڑی کا میابی حاصل ہوئی۔ وہاں بی جے پی اپنی ساری طاقت جھونکے کے باوجود اقتدار سے محروم ہو گئی۔ کرناٹک کو ہندوتوا کی دوسری تجربہ گاہ بنانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنے دورِ حکومت میں پوری ریاست میں جو فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے خاص طور پر مسلمانوں کو جس انداز میں پریشان کیا اس کا خمیازہ اسے اپنی شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ کرناٹک کے رائے دہندوں نے اپنے متحدہ ووٹ کے ذریعہ بی جے پی قائدین کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ یہی حال بی جے پی کا مجوزہ انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔ راجستھان ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہے۔ راجستھان میں کانگریس کے خلاف عدم کارکردگی کی بنیاد پر رائے دہندے اس کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی صورت حال مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ساتھ پیش آسکتی ہے۔ان دو ریاستوں میں مخالف حکومت ووٹوں کی تعداد بڑھ جائے گی تو پھر نتیجہ دونوں پارٹیوں کی توقع کے مطابق نہیں رہے گا۔ مدھیہ پردیش میں تو آثار بتا رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت سے عوام کافی ناراض ہیں اور وہ حکومت میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ مجوزہ الیکشن میں جہاں تک بی جے پی کی مجموعی کا میابی کا تعلق ہے۔ اس بارے میں خود بی جے پی کے قائدین کوئی زیادہ پُر امید نہیں ہیں۔ کرناٹک اور ہماچل پردیش میں شکست کے بعد بی جے پی کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ بی جے پی اس وقت ملک کی 11ریاستوں میں حکومت کر رہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف دو ریاستوں ، اتر پردیش اور گجرات میں اس نے الیکشن میں جیت کر حکومت بنائی ہے اور بقیہ 9ریاستوں میں جوڑ توڑ کی سیاست اپناکر حکومت بنانے میں کا میاب ہوئی ہے۔ اس وقت بی جے پی کا گراف نیچے اُترتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کی کرشماتی شخصیت کا جادو بھی ختم ہوگیا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ کرناٹک میں وزیراعظم نریندرمودی کی جارحانہ انتخابی مہم کے باوجود پارٹی کو ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ ان پانچ ریاستوں کی انتخابی مہم کی کمان بھی وزیراعظم کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ مسلسل انتخابی دورے کر تے ہوئے ریالیاں منعقد کر رہے ہیں۔ گزشتہ نو سال کے دوران بی جے پی ملک کے سیاسی نقشے پر چھائی رہی اور پورے ہندوستان کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بی جے پی قائدین نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فرقہ پر ستی کا کھل کا مظاہرہ کیا۔ انتہا یہ کہ ہر الیکشن کے موقع پر ملک کی ترقی کا ایجنڈا پیش کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرکے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان تمام حرکتوں کے باوجود بی جے پی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن میں بوکھلائی ہوئی ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کے یہ انتخابات ، رائے دہندوں کے لئے بھی ایک بہت بڑی آزمائش ہیں۔ ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ ان ریاستوں کے نتائج کا اثر 2024میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن پر پڑنے والا ہے۔ اس لیے سیکولر پارٹیوں کے حق میں متحدہ ووٹ کا استعمال وقت کا تقاضا ہے۔ورنہ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں فرقہ پرست طاقتوں کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔٭٭