سیاستمضامین

راہول گاندھی آر ایس ایس پر اس قدر حملہ آور کیوں ہیں؟

پنکج شریواستو

گزشتہ دنوں پنجاب میں آر ایس ایس کے تعلق سے راہول گاندھی کا بیان صدیوں تک گونجے گا۔ راہول نے یہ کہہ کر کہ ’’ آر ایس ایس کے دفتر لے جانے کے لیے ان کا گلا کاٹنا پڑے گا‘‘ بتادیا کہ وہ مبینہ تہذیبی تنظیم کی جانب سے موجودہ دستور کو تباہ کرنے کی کوششوں کے خلاف بغیر کسی سمجھوتے کے جدوجہد کے لیے پابند عہد ہیں۔ ان کا بیان کانگریس اور کانگریسیوں کو نئی نظریاتی دھار سے لیس کررہا ہے۔
ویسے تو راہول گاندھی نے یہ بیان بی جے پی ایم پی اور اپنے چچازاد بھائی ورون گاندھی کے کانگریس میں داخلے کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں دیا تھا لیکن ان کے لہجے میں جس آسانی سے اس مبینہ عہد کا اظہار کیا وہ ان کی ذہنی ساخت اور اس مسئلہ پر کیے گئے گہرے غور و خوص کو ظاہر کرتا ہے۔
یوں تو بھارت جوڑو یاترا کی شروعات سے ہی راہول گاندھی آر ایس ایس پر حملہ آور ہیں لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ اس بابت اتنی سخت بات کہیں گے، خاص کر جب وہ کسی کو بھی ’’غیر‘‘ نہ ماننے کے نظریہ کی تبلیغ کررہے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس اور اس کے نظریہ کو ’’غیر‘‘ ماننے کی وہی وجہ ہے جس کی وجہ سے کبھی ایڈولف ہٹلر پوری دنیا کے لیے برا خواب بن گیا تھا اور آج جرمنی میں بھی لوگ اس کا نام لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ اتفاق نہیں کہ آر ایس ایس نے ایک زمانے میں کھل کر ہٹلر کی ستائش کی تھی اور جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا وہی وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔
راہول گاندھی نے یہ بیان ایسے وقت دیا ہے جب آر ایس ایس کے ایک سابق پرچارک یعنی نریندر مودی کی قیادت میں آٹھ سال سے قابض بی جے پی کی حکومت سپریم کورٹ کو بھی اپنے قبضے میں لینے کے لیے گھوڑے کھول رہی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے دبائومیں ہونے کی بات پہلے سے کی جارہی ہے لیکن یہی وہ آخری محاذ ہے جس کو فتح کرنے کے بعد آر ایس ایس کا سب سے بڑا خواب پورا ہونے کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یعنی دستور کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی ہوگی جو ہندوستان کو ایک سیکولر اور اشتراکی جمہوریت بناتا ہے۔
ہمارا دستور مہاتما گاندھی، نہرو، پٹیل، امبیڈکر اور سبھاش چندر بوس جیسے ہیروز کے اس خواب کا نتیجہ ہے جس میں ہندوستان کو ہر مذہب کے لوگوں کے لیے محفوط مقام ہونا تھا۔ جس میں ریاست کا یہ فرض مقرر کیا گیا تھا کہ وہ کسی مذہب کے حق میں نہیں ہوگی اور سب کو اپنی عقیدت کے مطابق جینے کا حق ہوگا۔ یہ محمد علی جناح کے اس خواب کے برعکس تھا جس کے تحت کبھی پاکستان بنا تھا۔
راہول گاندھی اس خطرے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آر ایس ایس پہلے دن سے ترنگے اور دستور کی مخالفت کرتی آرہی ہے جسے وہ بیرونی نظریات سے متاثر مانتی ہے۔ جب ملک میں دستور نافذ ہوا تو وہ یہ بات کھل کر کہتی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ پہلے جن سنگھ اور بعد میں بی جے پی کے ذریعہ سامنے آئی اس کی سیاسی کوششوں نے اپنے کمزور موقف کی وجہ سے بنیادی نظریہ پر زیادہ زور نہ دینے کے لیے اسے مجبور کردیا، لیکن اقتدار کی چوٹی پر پہنچتے ہی اس نے اصلی رنگ دکھانا شروع کیا۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جب اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیراعظم تھے تب بھی دستور پر نظرثانی کی رسمی کوشش کی گئی تھی جو اس وقت سیاسی جماعتوں ہی نہیں عدلیہ کی جانب سے بھی آئے ردعمل کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ اس بار وہ اور طاقت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہے تو اپنے ادھورے ایجنڈے کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ اگر اس معاملے میں اسے کامیابی ملی تو ہندوستان کی تحریک آزادی اور اس کی تمام حصولیابیاں بے معنی ہوجائیں گی جو ایک طرح سے کانگریس کی بطور تنظیم شخصی حصولیابی بھی ہے۔
آخر آر ایس ایس اس دستور کو کیوں بدلنا چاہتی ہے جو آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے بنیادی جذبہ سے چلتا ہے؟ کیا یہ بیرونی جذبہ ہے؟ ہاں یہ بات سچ ہے کہ آر ایس ایس جس قدیم ہندوستان کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اسے سنہرا دور بتاتی ہے، اس میں ایسا کوئی قانون و دستور نہیں بنا تھا جس میں انسان کو بلالحاظ مذہب، ذات، علاقہ، نسل یا جنس برابر ہونے کا درجہ دیا گیا ہو۔ یہ کرشمہ تو اس دستور کے ذریعہ ہی ہوسکا جو کانگریس کی قیادت میں چلی تحریک آزادی کا حاصل تھا۔ اس میں درج اقدار کی گونج تحریک آزادی کے دوران مسلسل سنائی پڑتی رہی تھی اور یہی وہ خوف تھا جس نے آر ایس ایس کو تحریک آزادی سے دور ہی نہیں انگریزوں کے پالے میں کھڑا کردیا تھا۔
یعنی آر ایس ایس سے لڑنے کا مطلب ہندوستانی تحریک آزادی کی اقدار اور مساوات اور بھائی چارہ سے جڑی ان تاریخی حصولیابیوں کو بچانا ہے ۔ یہ ایک طرح سے آزادی کی جنگ جیسا ہی ہے۔ راہول گاندھی نے کانگریس کے باہر ہی نہیں، اس کے اندر بھی موجود تمام بھرموں کو دور کردیا ہے۔ یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کانگریس میں رہنا ہے تو آر ایس ایس اور اس کے نظریہ سے لوہا لینا پڑے گا۔ یہ وہی عہد ہے جس نے انگریز حکومت سے مسلسل جدوجہد کرتے رہنے کی تحریک دی تھی۔ 2022 میں کانگریسی‘ اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس راہول گاندھی جیسا ایک لیڈر ہے جس میں گاندھی کی روح، نہرو، سبھاش کا عہد اور ڈاکٹر امبیڈیکر سے حاصل کردہ نظریہ ہے۔ جو ملک کے ہر کونے میں پھیلے غم کو طاقت میں بدل کر ہندوستان نام کے نظریہ کو بچانے نکلا ہے اور پوری دنیا اس کی تپسیا کو بڑے تجسس سے دیکھ رہی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰