بھارت

بریکنگ: جئے پور (2008) دھماکے، سزائے موت یافتہ چار ملزمین کو ہائیکورٹ نے بری کردیا

ملزمین پر الزام تھا کہ وہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے رکن ہیں اور انہوں نے ہی یہ سلسلہ وار بم دھماکے کئے تھے۔ ان بم دھماکوں میں 80 لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 176 لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

نئی دہلی: راجستھان کے شہر جئے پور میں 13 مئی 2008کو سلسلہ واربم دھماکوں کے مقدمہ میں نچلی عدالت کی جانب سے جن چار ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، انہیں جئے پور ہائی کورٹ نے باعزت بری کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ جبکہ پھانسی کی سزا کی تصدیق کے لئے ریاستی حکومت کی جانب سے داخل کردہ درخواست کو خارج کردیا۔

متعلقہ خبریں
تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ پالیسی”مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑانہ ہونے دو“۔مولانا ارشدمدنی
پارلیمانی انتخابات کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت: ریاستی جمعیتہ علماء کا مشاورتی اجلاس
نفرت انگیز مظالم کے خلاف قانون بنایا جائے: مولانا سید محمود اسعد مدنی
نوح فساد معاملہ:مزید پانچ مسلم نوجوانوں کو سیشن عدالت نے ضمانت پر رہاکرنے کا حکم جاری کیا

جمعیۃ علمائے ہند (ارشد مدنی) کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق جئے پور سیشن عدالت نے 5 میں سے 4 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا تھا جبکہ ایک ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا۔

ملزمین پر الزام تھا کہ وہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے رکن ہیں اور انہوں نے ہی یہ سلسلہ وار بم دھماکے کئے تھے۔ ان بم دھماکوں میں 80 لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 176 لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

اس مقدمہ کا سامنا کرنے والے ملزمین محمد سیف، محمد سرور اعظمی، سیف الرحمن اور محمد سلمان کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی جبکہ ملزم شہباز حسین کوناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر بری کردیا گیا تھا۔

ایک جانب جہاں پھانسی کی سزا پانے والے چاروں ملزمین نے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل داخل کی تھی، وہیں ریاستی حکومت نے بری ہونے والے شہباز احمد کے خلاف اپیل داخل کی تھی۔

جئے پورہائی کورٹ کی دورکنی بینچ کے جسٹس پنکج بھنڈاری اور جسٹس سمیر جین نے تمام اپیلوں پر یکجا سماعت کی، تقریباً ساڑھے تین مہینوں تک ہائی کورٹ میں بحث چلی، عدالت نے گذشتہ برس 3/ نومبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ آج عدالت نے اپنے زبانی حکم نامہ میں تمام ملزمین کو جیل سے فوراً رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ تفصیلی فیصلہ عدالت بعد میں جاری کرے گی۔

واضح رہے کہ اس اہم فیصلہ پر اپنے اطمینان ومسرت کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ قانون وانصاف کی جیت ہے اور ان متعصب ایجنسیوں کے منھ پر ایک طمانچہ ہے، جو غیر جانبدارانہ تفتیش کی جگہ بے گناہوں کو جیلوں میں ڈال کر نہ صرف اپنی پیٹھ تھپتھپاتی ہیں بلکہ بے ساختہ سے یہ دعویٰ کردیتی ہے کہ ہم نے اصل مجرموں کو پکڑلیا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے کہ جس میں ان ایجنسیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد معاملوں میں ان متعصب ایجنسیوں کا دہرا کردار اجاگر ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اول دن سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ جب تک پولیس اورتفتیشی ایجنسیوں کی جواب دہی طے نہیں کی جائے گی، اسی طرح بے گناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑہوتا رہے گا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ متعصب انتظامیہ کی ظلم وزیادتیوں کے خلاف امیدکی کوئی کرن نظرآتی ہے توعدالتیں ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیاردیا ہوا ہے وہ کیسے نااہل فرقہ پرست اورمتعصب ہیں کہ وہ صرف مذہب کی بنیاد پر بے قصور لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دوسری جانب عدالتیں بے گناہ افراد کو باعزت بری کرکے فرقہ پرست طاقتوں اوران کے دباؤمیں کام کرنے والی ایجنسیوں کو یہ باورکرارہی ہیں کہ وہ جھوٹے مقدمات میں پھنساکر بے قصورلوگوں کی زندگیوں کو برباد کرنے سے بازآئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی کا معاملہ بھی ہے، لیکن افسوس اس پر حکومتی اداروں کوچھوڑیئے، انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے لوگ بھی چپ ہیں اور جھوٹے الزام میں بندو مسلم نوجوانوں کی تباہی وبربادی پر کوئی ایک لفظ نہیں کہتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایجنسیوں کی جواب دہی کا مطالبہ ہوتا ہے تودلیل دی جاتی ہے کہ ایسا کیا گیا تو پولیس اورتفتیشی ایجنسیوں کا مورال ڈاؤن ہوگا۔

مولانا مدنی نے سخت لفظوں میں کہا کہ کیا پولیس اورایجنسیوں کا مورال انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے، چونکہ اس طرح کے معاملے ایک مخصوص فرقہ سے جڑے ہوتے ہیں، اس لئے جب گرفتاریاں ہوتی ہیں توملک کا فرقہ پرست میڈیا سنسی خیزی کے ساتھ ان لوگوں کو دہشت گرد بناکر پیش کردیتا ہے اور جب یہی لوگ عدالتوں سے باعزت بری ہوتے ہیں تومیڈیا میں ایک لائن کی خبر بھی نہیں چلائی جاتی۔

یہ ہے فرقہ پرست میڈیا کا دہرامعیار۔ گرفتاری پر ڈھنڈورہ اوررہائی پر خاموشی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مذموم سلسلہ اسی وقت ختم ہوسکتاہے جب حکومت انصاف کا مظاہرہ کرے اوران خاطی افسران کی جواب دہی طے کرکے سزادے جو بے گناہوں کی زندگیوں سے مسلسل کھلواڑکرتے آرہے ہیں۔

پھانسی کی سزا پانے والے دو ملزمین محمد سیف اورسیف الرحمن کو قانونی امداد جمعیۃعلماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) نے فراہم کی تھی جبکہ مقدمہ سے بری ہونے والے شہباز حسین عرف شہباز احمد (لکھنؤ) کو بھی قانونی امداد فراہم کی گئی۔

پھانسی کی سزا پانے والے دو ملزمین کی اپیلوں پر سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بحث کی جبکہ شہباز احمد کے خلاف داخل اپیل پر ایڈوکیٹ نسانت ویاس اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے بحث کی۔

دسمبر 2019 کو جئے پور کی خصوصی سیشن عدالت نے چاروں ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی تھی جبکہ ایک ملزم کو مقدمہ سے بری کردیا تھا۔ سیشن عدالت نے 8 مقدمات میں ملزمین کو قصور وار ٹھہرایا تھا، چار مقدمات میں پھانسی اور چار مقدمات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جئے پور پولیس نے آٹھ ایف آئی آرس درج کی تھیں اور ملزمین پر آٹھ الگ الگ مقدمات قائم کئے گئے تھے لیکن دفاعی وکلاء کی کوششوں سے تمام مقدمات کو یکجا کرکے ان کی سماعت ہوئی جس میں 1296 سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

جئے پور کی خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ ظاہر ہونے کے بعد جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزا ر اعظمی نے ممبئی میں میڈیا کو بتایا کہ جے پور ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ملزمین کو ناصرف پھانسی کی سزا سے بری کردیا بلکہ ریاستی حکومت کی جانب سے سزا میں توسیع کی عرضداشتوں کو خارج کردیا۔

گلزار اعظمی نے بتایا کہ ملزمین کے دفاع میں سینئرایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن اور ان کے معاوین وکلاء نے بہت محنت کی، دہلی سے جئے پور کا درجنوں مرتبہ سفر کیا اور ملزمین کا دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ ریاستی حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے لہذا ہم سپریم کورٹ میں اگلے چند ایام میں ہی کیویٹ داخل کردیں گے۔

اس مقدمہ میں سینئر ایڈوکیٹ نتیار راما کرشنن کے علاوہ ایڈوکیٹ اشوک اگروال، ایڈوکیٹ تردیپ پائس، ایڈوکیٹ سرور بورا، ایڈوکیٹ رجت وی دیگر نے بھی ملزمین کے دفاع میں بحث کی۔