مضامین

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز، چراغ مصطفوی ؐسے شرارِ بولہبی

رشید پروین

پچھلے کئی مہینوں سے ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت شان اقدسﷺ میں گستاخیاں اور قرآن پاک کی بے حرمتیاں کچھ مغربی ممالک میں مسلسل جاری ہیں، اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس طرح کا ایک واقعہ گوا میں حالیہ دنوں پیش آچکا ہے۔ مغربی دنیا میں جن میں ڈنمارک اور سویڈن آگے آگے ہے، اس طرح کی مذموم حرکتیں ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی منظم ایجنسی یا تنظیم ہے جو اپنے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے منظم طور کام کر رہی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے سویڈش سرکار کے تعاون سے قرآن حکیم کے نسخے جلاکر اور پھر اس کی بے حرمتی کر کے، دو ارب مسلمانوں کا جگر چیر کر رکھ دیا گیاتھا، اور یہ واقعہ سویڈش دارالحکومت ”اسٹاک ہوم میں پیش آیا تھا۔ اس کے لیے اس شخص جوکہ بظاہر عراقی نژاد اور جس کا نام ”سلوان مومیکا بتایا گیاتھا، نے خاص طور پر عید الاضحی کا دن اور جائے مقام بھی ایک بڑی مسجد کے سامنے چن کر سرکاری تعاون اور حمایت سے یہ گھناونی اور مذموم حرکت کر ڈالی۔
ظاہر ہے کہ ایسی مذموم حرکات کا منشا ہی یہ ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے دل مجروح ہوں، اور جب اس کا ردِ عمل سامنے آئے تو یہ ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ مسلم لوگ اور عوام دہشت گرد ہیں۔ پچھلی دہائی کے اندر اس طرح کی بے شمار گستاخانہ حرکتیں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے یاتوقرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے یا صاحب قرآن ﷺکی شان اقدس میں گستاخیاں ہوئی ہیں جو کہ ان مغربی ممالک کے اپنے قوانین کی رو سے بھی ایک ناقابل معافی جرم کا ارتکاب ہے، لیکن افسوس کہ یہ ممالک ان قوانین اور ساری دنیا میں تسلیم شدہ بہتر اقدار اور معیارات کی خلاف ورز یوں کے مواقع پر اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں اور ان تمام نازیبا اور دل آزار مکروہ منصوبہ بند سازشوں کو آزادی رائے سے تشبیہ دے کر مسلم دنیا کے خلاف میڈیا کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں بلکہ مسلسل ایک کے بعد ایک نیامحاذ کھولتے رہتے ہیں۔
در اصل نائن الیون کے بعد امریکی سر پرستی میں ایسے واقعات میں سبک رفتاری پیدا ہوچکی ہے۔ امریکی چینل فاکس نیوز پر ۱۸ ستمبر ۲۰۰۲ کو ایک جنونی مذہبی رہنما جیری فال فوئل نے انتہائی گستاخانہ الفاظ دہرائے تھے۔ اس کے بعد امریکی ریاست ہوسٹن میں ایک خصوصی فلم سینما گھروں میں دکھائی گئی تھی جو حضور دو عالم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر مبنی، توہین آمیز تھی۔ ۲۰۰۴ میں ہالینڈ کے ایک اور فلمساز تھیون واں گو نے دس منٹ کی ایک ڈاکو منٹری فلم کی نمائش کی جو شان رسول ﷺ میں گستاخی تھی اور اس فلمساز کو محمد بیوری ایک نوجوان نے ایمسٹرڈم میں کیفر کردار تک پہنچایا تھا۔
نائن الیون کے بعد سے اگر ان سارے واقعات کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی ضخیم کتاب بن جائے گی اور ان ملعونوں میں پچھلی دو دہائیوں میں نام نہاد مسلم نژاد کچھ نام بھی شامل ہوئے جن میں سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور کئی نام ہیں جنہیں مغرب نے سونے میں تولا ہے ۔
فرانس کے سموئل پیٹی ایک استاد نے شان رسولﷺ میں گستاخی کا ارتکاب کیا اوران گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کی جن پر ڈنمارک اور یوروپی حواریوں کے خلاف مسلم دنیا نے احتجاج کیا تھا۔ اس بار اس واقعے کی نوعیت اس بات نے بدل دی کہ اس گستاخِ رسولﷺ کا سر ایک مسلم لڑکے نے فی الفور قلم کیا اور اس طرح اس گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
بہر حال ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ سب کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے؟ ،در اصل یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اہل یہود یہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ نبی ”برحق“ ہیں اور یہی وہ آخری نبی ہیں جن کی بشارت تورات، انجیل اور بائبل میں واضح دی گئی ہے لیکن، حضرت اسحاق کی نسل سے ہی سارے نبی اور رسول آتے چلے گئے تھے، اس لیے یہ بات ان کے لیے ناقابل قبول تھی اور ہے کہ اتنی بڑی شان والا، آخری اور تمام نبیوں کا سردار اسماعیلی نسب سے پیدا ہو۔ دوسری بات یہ کہ اہل یہود شروع سے ہی نسلی امتیاز میں مبتلا ہیں اور اپنے آپ کو ایک بر گزیدہ اور اللہ کی چہیتی اور پسندیدہ قوم کے طور تسلیم کرتے اور مانتے ہیں۔ یہ دوباتیں آج بھی انہیں حق سمجھنے سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ آج بھی اہل یہود کے لیے یہی بات ناقابل قبول ہے جو چودہ سو برس پہلے تھی۔
یہ جو آج گستاخیاں ایک منصوبے ا ور مکمل منظم طور پر اہل یوروپ آزمارہے ہیں، وہی صدیوں پہلے کی سوچ و اپروچ ہے جو رسالت مآب ﷺ کی اصل سیرت کو چھپاکر نت نئی من گھڑت ا صطلاحیں جیسے جادو گر، مجنون اور اس جیسے دوسرے الفاظ کا استعمال کرکے نبی ﷺ کی شبیہہ بگاڑنے کی کوششیں دن رات کیا کرتے تھے اور آج اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہلانے والے یہ ممالک بالکل اسی سوچ و فکر اور وہی عزائم اور اہداف رکھتے ہوئے ان نئے طور و طریقوں سے وہی کارنامہ انجام دینے کی کوشش میں اللہ کی سزا کے مستحق ہورہے ہیں۔ اسی سیاق و سباق میں پہلے ہی اللہ نے واضح کر دیا تھا ”پس، آپ ﷺ اس ”قرآن“ کو کھول کر بیان کیجئے اور ان مشرکین کی پروا نہ کیجئے، ہم مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں“(الحجر ۹۴، ۹۵)۔
اہل یوروپ، صدیوں سے اس ایک ہدف کو پانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکا رہیں، اس کے لیے یوروپ اور ان کے ساتھ اہل مشرک و یوروپ بہت بڑے محاذ کھولے ہوئے اہل ایمان کی استقامت اور صبر کو آزمارہے ہیں۔ یہ لوگ اب تک اس منزل کو پانے کے لیے لاکھوں اور کروڑوں بے گناہوں کا لہو بہا چکے ہیں اور اپنے میڈیا، ٹیکنالوجی، عسکری قوت اور سرمایہ کی بنیادوں پر انہیں لگتا ہے کہ وہ اس سازش اور ناپاک منصوبے میں کامیاب ہوں گے۔ ان منصوبوں کے پیچھے جو عزائم ہیں انہیں اس دور کے مسلم نوجواں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ان مقاصد میں اولین یہ ہے کہ تعلیم کے لبادے میں مسلم دنیا کو قرآن حکیم کی تعلیمات سے دور رکھا جائے اور دوئم یہ کہ صاحب قرآن کی محبت اور ان کی ذات اقدس سے والہانہ عشق کو ختم کیا جائے۔ سوئم یہ کہ ’ پروپگنڈا اور میڈیا کی قوت کا استعمال کرکے اہل ایمان کے دل و دماغ کو برین واش کرکے ذات اقدس ﷺ کے قدو قامت کو گٹھایا جائے اور اس میں آخری یہ کہ اہل اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں پشت بہ دیوار کیا جائے۔
بظاہر اس دور کے حالات کا جائزہ لینے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوروپی اقوام، اہل یہود و اہل ہنود بڑی حد تک ان اہداف کو پانے میں کامیاب نظر آتے ہیں،کیوں کہ وہ اس نقطے پر متحد ہیں اور مسلم دنیا میں کوئی ایسی موثر آواز اور ایسا فورم یا ملک نہیں جو کفر کی ان اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرنے کا اہل ہو، لیکن اس کے باوجود اب بھی مسلم دنیا نہ صرف سراپا احتجاج بن جاتی ہے بلکہ اہل ایمان اور جن کے دلوں میں عشق رسول ﷺ موجزن ہے، اپنی جانوں کا نذرانہ شمع رسالت پر پروانہ وار نثار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ اورکسی تذبذب کا شکار نہیں۔ مسلم عوام کے سینوں میں اب بھی عشق رسول ﷺ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر موجود ہیں، لیکن مسلم دنیا کے سربراہان اور وقت کے حکمران اپنی مصلحت کوشی، اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہتوں کو بر قرار رکھنے کی تگ و دو میں ان بڑی طاقتوں کے سامنے غلامانہ طرز عمل کے لیے مجبور ہیں، جس کی وجہ سے یہ ممالک وقفے وقفے سے منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے شان اقدس ﷺ میں گستاخیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالم اسلام مراد یہ سارے نام نہاد اسلامی ممالک جن میں باطل اور کفری نظام رائج ہیں اشک شوئی اور مسلم عوام کے خوف سے چند مذمتی بیانات دے کرسمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرئض انجام دیے ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ یہ سارے لوگ اور سر براہان‘ مغربی اور اسرائیلی قوت کے سامنے سر بسجود ہیں۔
یہ اس بات کی غماز ہے کہ مسلم دنیا جو دنیا کی دوسری بڑی آبادی اور جس میں لگ بھگ ۵۷ ممالک شامل ہیں اور حد یہ ہے کہ اس میں ایک ایٹمی پاور بھی ہے، بہت سار ے قوانین اور آئین سازی صریحاً اسلامی تعلیمات اور نظام کے خلاف کر چکے ہیں،جس کے بدلے میں اللہ اپنی سنت کے عین مطابق انہیں ذلت و رسوائی مقدر کر رہا ہے اور اس آخری دور کے اختتام پر اس حدیث مبارکہ کی عملی تفسیر سامنے آئے گی جس میں فرمایاہے گیا ہے کہ ”یروشلم کے میدان کار زار میں سو میں سے نناوے قتل ہوں گے“، ”وہ منصوبے بناتے ہیں اور اللہ بھی اپنے منصوبے رکھتا ہے اور اللہ ہی کے منصوبے ہر حال میں کامیاب ہوتے ہیں“ (القرآن) لیکن ہم بحیثیت مسلم اپنی آزمائش اور متحان میں ناکا م ہیں، اور ایسے مسلموں کے لیے یہ حدیث مبارک چشم کشا ہونی چاہیے۔