طنز و مزاحمضامین

شادی شدہ….گمشدہ….

نصرت فاطمہ

پچھلے دنوں منصف میں ایک خبر پڑھی تھی اور تب سے ہم بے چین ہیں کہ اُس خبر اور اُس بہادر خاتون کا ذکر ہو۔ خبر کچھ اس طرح تھی کہ شادی والے دن دولہا بنا کسی سے کچھ کہے فرار ہوگیا اور دولہن بے چاری نے کچھ دیر انتظار کے بعد دولہے کا تعاقب کیا اور اسے پکڑ کر منڈپ لے آئی اور اس طرح وہ مرد ناداں بچ تو پھر بھی نہ سکا، لیکن یہ ہوا کہ دولہن کی بہادری نے ایک خبر کی سرخی بنادی۔ شادی تو اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ خوشی کا موقع ہے، لیکن اس کے نام سے دھوکہ کھانے والے اور دل جلے کہہ گئے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ اردو کے پیپر میں لفظ ”شدہ“ سے چار لاحقے لکھنے کو کہا گیا۔ میں نے جواب میں لکھا:-
”شادی شدہ، گم شدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ“ اگلے روز استادِ محترم نے پیپرز چیک کر کے واپس دئیے تومجھے لاحقوں والے سوال میں چار میں سے آٹھ نمبرملے تھے۔
میں نے استاد صاحب سے فالتو نمبروں سے متعلق پوچھاتو مسکرا کر کہنے لگے:-
"پتر ” چار نمبر صحیح جواب کے ہیں اور چار صحیح ترتیب کے۔“
تو اس طرح بڑے بڑے دانشور حضرات بھی شادی کو لے کر ایک عام آدمی کے دل میں شکوک پیدا کرتے ہیں۔ شادیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک لو میرج یعنی محبت کی شادی، جس میں آدمی خود اپنے پیر پر کلہاڑی، اوہ ہمارا مطلب ہے کہ اپنی پسند کی شادی کرتا ہے۔
اور دوسری ارینج میرج۔ یعنی گھر والے طے کرتے ہیں کہ سرخ جوڑا پہن کر کون آپ کی زندگی میں رنگ لانے کا سبب بنتی ہے۔ اب یہ قسمت ہی طے کرتی ہے کہ رنگ خوشی کے ہیں یا غم کے۔ (کہیں کہیں تو رنگ اْڑ بھی جایا کرتے ہیں)
شادی کے تعلق سے کچھ سچائیاں آپ سے بیان کرتے چلیں۔
بیشتر لؤ میرج کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ صبح بیگم کا دھلا منہ دیکھ لینا بھی ہوا کرتی ہے۔(بیوٹی پارلر میں ہونے والی انہونی)
اکثر شادی شدہ لوگ اپنی لؤ میرج کو ارینجڈ اس لیے بتاتے ہیں کہ خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرسکیں۔
شادی شدہ مرد کے نزدیک محبوبہ سے مراد وہ لڑکی ہوتی ہے کہ جس سے شادی نہ ہوئی ہو۔
بعض لوگ پہلی شادی کرتے ہی اس لیے ہیں کہ اس کے بغیر دوسری شادی ممکن نہیں۔
خود سر و مغرور ہونے سے بچانے کے لیے ایک بیوی کاہونا بے حد ضروری ہے۔
کچھ بیویاں ایسے شوہروں پہ بھی شک کرتی ہیں کہ جن پہ کہیں سے بھی نظر لگنے کا خدشہ نہیں ہو سکتا۔
نہ جانے بیویوں کو یہ شک کیوں ہوتا ہے کہ شوہر جو رومانی گانا گنگنا رہا ہے اس کا ہدف وہ نہیں ہیں حالانکہ انہیں محض شک نہیں یقین ہونا چاہیے۔
شادی شدہ ہونے کے بعد سیاست میں آنا آسان رہتاہے، کیوں کہ بے عزتی جھیلنے کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے۔
ہر اداس و دکھی نظر آنے والے کا غم بانٹنے کی کوشش نہ کریں، وہ محض شادی شدہ بھی ہوسکتاہے۔
کئی لوگوں کو شادی کے بعد رقیب رو سیاہ خوش قسمت معلوم ہونے لگتا ہے۔
شادی کے ان تمام حقائق کے باوجود شادی کا لڈو کھا کر پچھتانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کا ثبوت ان دنوں شہر میں موسم گرما کے ساتھ ساتھ شادی سیزن بھی عروج پر ہے۔ اس کا تجربہ تو ہمیں رات کے بارہ بجے بھی ہوا کہ ٹریفک جام کیے کہ ایک دولہا میاں خراماں خراماں اپنے پیچھے بارات لیے عقد مسعود پڑھوانے کے لیے جارہے تھے۔اب کوئی انہیں بتائے کہ محترم آپ نے جو تاریخ اپنی شادی کے کارڈ پر لکھوائی ہے، وہ تو گزرچکی اور شاید مہمان بیچارے دولھا کے انتظار میں سوکھ چکے ہوں گے۔
اور جب شادی کے موقع پر پٹاخوں کی آوازیں آتی ہیں تو ہم دل میں کہتے ہیں کہ شروعات پٹاخوں سے کی ہے تو تیار رہو، زندگی بھرگونج سنتے رہوگے۔
شادی ایسا موضوع ہے کہ اس میں کچھ ہی عرصہ بعد جب تک بہو کی شکایتیں اور اس پر لعن طعن نہ ہو مکمل نہیں ہوتا۔ داماد کا کردار صرف نخرے دکھانے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے تک محدود ہے۔
آخر میں چلتے چلتے شادی کے تعلق سے ایک چٹکلا بھی سن لیجئے۔
ایک مرتبہ جارج برنارڈشا کسی محفل میں ایک خوبصورت سی اداکارہ کے ساتھ خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ اداکارہ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو رہی تھی اور آخر میں خواہش کر بیٹھی کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ برنارڈ شا مسکرا دئیے،سوال پوچھا۔
”مجھ سے ہی کیوں؟“
”کیونکہ میں چاہتی ہوں ہمارے بچے میری طرح خوبصورت اور آپ کی طرح ذہانت کا شاہکار ہوں“اداکارہ نے دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا…………
برنارڈ شا گلا کھنکھار کر بولے…… ”ہم شادی تو کرلیں لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہمارے بچے آپ کی خواہش کے مطابق ہوں گے؟
”یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے بچے میری طرح کم شکل اور آپ کی طرح بے وقوف اور احمق نکلے تو؟؟لہٰذا میں یہ رسک نہیں لے سکتا“!