طنز و مزاحمضامین

تم عید منانا اچھے سے …

حمید عادل

کسی شاعر نے عید کے چاند پر کیا خوب حق جتایا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
عید کے چاند کو دیکھے نہ کوئی میرے سوا
اس کے دیدار کو اِک سال گزارا میں نے
عید کے موقع پرہرسولوٹ کا بازار گرم ہوتا ہے اور اس گرمی کو دیکھ کرہمارے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔وہ لیموں جوچالیس روپئے میںپندرہ بیس فروخت ہوا کرتے ہیں ،عیدکو ملحوظ رکھتے ہی پندرہ روپئے میں دو فروخت ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بیس پچیس روپئے کلو فروخت ہونے والی ہری مرچ سو روپئے کیلو ہوجاتی ہے…ملاوٹی اشیاء بھی عید کے موقع پر بڑی ڈھٹائی سے فروخت کی جاتی ہیں۔ کسی ڈیری فارم پر اگر ہر روز سو لیٹر دودھ فروخت ہوتاہے تو عید کے موقع پر دو سو لیٹر دودھ فروخت ہوتا ہے… ایسے جیسے بھینسوں نے عید کی مناسبت سے یہ سوچ کرسو لیٹرایکسٹرادودھ دے دیا ہو کہ بیچارے مسلمانوں کوشیر خرما بنانا ہوتا ہے۔ سب سے برا حال ہمیں چکن سنٹرس پر نظر آتا ہے ، جہاں اتنا رش ہوتا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی مرغی کس کے ہاتھ لگ رہی ہے ۔پچھلی عید پر ہم نے چار کیلو زندہ مرغ کٹوایا تھا، جب گوشت ہمارے ہاتھ آیا تو صرف ایک کیلو تھا۔ ہم نے چکن سنٹر کے مالک سے اس کی شکایت کی تو اس نے یہ کہہ کر ہمیں چلتا کیا کہ چھلنے اور کٹنے کے بعد چکن کا وزن اتنا ہی ہوجاتا ہے…
حالیہ عید کے موقع پر ہمارے ساتھ بڑا عجیب معاملہ ہوا،عموماً ہم ’’ چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوکر آرام پر قطعی یقین نہیں رکھتے۔حتیٰ کہ آف کے دن بھی کچھ نہ کچھ مصروفیت ہمیں گھیرے رہتی ہے۔اس بار ہم نے ’’کچھ ہٹ کے‘‘ کے عنوان کے تحت آرام کرنا چاہا، چنانچہ دو ڈھائی بجے سل فون آف کرکے خواب خرگوش کے مزے لینے لگے،جب شام ساڑھے چھ ،سات بجے ہم گہری نیند سے بیدار ہوئے تو عید کی شام کو دوسرے دن کی صبح سمجھ بیٹھے ،اسی سوچ کے ساتھ فوری ماضی کے باتھ روم اور آج کے واش روم گئے، فریش ہوئے اور فرمان جاری کردیا کہ دستر خوان بچھایا جائے۔شکم سیر ہونے کے بعد ہم نے بیاگ گلے میں ڈالا اورپورے جوش و خروش کے ساتھ دفتر کے لیے روانہ ہوگئے۔ شیر خرما کا سرور ہم پر اس قدر چھایا ہوا تھا کہ ہم نے رات کی تاریکی کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ جانا لیکن جب بس اسٹاپ جانے والی راہ پرٹھیک سوا آٹھ بجے عشا کی اذان نے ہمارے کانوں میں رس گھولنا شروع کیا تو ہم پشیماں پشیماں سے گھر لوٹے اور اپنی اکلوتی شریک حیات پھول بانو پر بگڑے کہ انہوں نے ہمیں دفتر جاتے ہوئے روکا کیوں نہیں؟ پھول بانو نے مسکرا کر سادگی سے جواب دیا: میرے سرتاج ! میں نے آپ کو اس لیے نہیں روکا کیوںکہ آپ نے خود فرمایا تھا کہ باہر جاتے وقت آپ کو ہرگزنہ ٹوکا جائے اورپھر آپ سے میری محبت تو ’’ تم دن کو اگر رات کہو، رات کہیں گے ‘’ والی ہے‘‘
عید کے موقع پرخلوص و محبت کے عنوان سے بیشتر احباب گلے ملنے والے کو نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں ،ان کے اس طرز عمل کو ہم آج تک سمجھ نہیں سکے ہیں کہ آیا یہ ان کا ’’ خ ‘‘ سے خلوص ہے یاپھر ’’خ‘‘ سے خصومت… کیونکہ آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو گلے مل کربڑی صفائی سے گلا کاٹ دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ گلے ملنے سے گلے دور ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں ہم ایک دوسرے سے گلے تو ملتے ہیں لیکن پھر بھی گلے باقی ہی رہ جاتے ہیں۔عید ملنے والے بھی عجیب ہوتے ہیں، انہیں اس بات سے قطعی کوئی سروکارنہیں ہوتا کہ جس کے وہ گلے ملنا چاہ رہے ہیں وہ کس حال میں ہے ؟ کہاں جا رہا ہے؟ کیوں جارہا ہے ؟ اسے فرصت ہے بھی یا نہیں، انہیں تو بس گلے ملنا بلکہ گلے پڑنا ہوتا ہے ،چنانچہ عید کے ایک ہفتہ بلکہ ایک مہینے بعد بھی انہیںکہیںکوئی شناسائی دکھائی دے تو فوری اسے دبوچ لیتے ہیں۔ حالیہ عید کے موقع پر چمن بیگ نے تو حد ہی کردی، ہم سے مسجد میں عید کے گلے ملنے کے بعد شام کے وقت گھر آکر دوبارہ ہمیں گھیر کر بغلگیر ہوگئے۔ہم ان سے یہ کہتے ہی رہ گئے کہ ، صبح ہی تو ہم نے گلے ملے تھے۔ جب وہ ہم سے گلے مل چکے تو شان بے نیازی سے فرمانے لگے ’’ میں نے ابھی ابھی جو تم سے گلے ملے، وہ دراصل پچھلی عید کا بقیہ تھا۔‘‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ایک ہم ہی نہیں ، زمانے میں اور بھی سخن ور ہیں جن کی نیند چاند رات سے ہی اس بات کا جائزہ لیتے اڑ جاتی ہے کہ وہ آخر کس طرح اپنے خونخوار قسم کے دوستوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ عید کے گلے ملنے کے پس منظر میں معروف پاکستانی مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے کہا ہے :
’’عید مل مل کر وہی حال ہوتا ہے جو سو میٹر کی ہرڈل ریس جیتنے کے بعد ہوتا ہے۔‘‘
عید کوگزرے دو دن گزر چکے ہیں لیکن وہ آج بھی ہماری نس نس میں نہیں تو ہڈی پسلی میں ضرور سمائی ہوئی ہے۔ویسے یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات بھی نہیں ہے ، ہر عیدکے موقع پرہمارا یہی حال ہوتا ہے اور ہم دوڑے دوڑے شہر کے کسی ماہر آرتھوپیڈک ڈاکٹر سے رجوع ہوتے ہیں، تاکہ پتا لگا سکیں کہ عید ملتے ملتے ہماری پسلیاں صحیح سلامت ہیں بھی یا پھر ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ یہ وہ نازک وقت ہوتا ہے جب ہمارا کوئی دوست یا بہی خواہ ہم سے گلے ملنا چاہے تو ہم اسے اس حرکت سے باز رکھنے کی خاطر جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی معروف غزل کا مکھڑا معمولی سی تبدیلی کے ساتھ بے ساختہ گنگنااٹھتے ہیں:
اتنا ٹوٹا ہوں کہ چھونے سے بکھر جاؤں گا
اب اگر اور ’’دبا‘‘ دو گے تو مر جاؤں گا
ہم اپنی شخصیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے لباس پہننا قطعی گوارانہیں کرتے…پچھلی بار ہمارے ایک دوست نے ہمارے لاکھ انکار کے باوجود ہمیں پٹھانی سوٹ سلوادیا،جسے پہن کر جب ہم عید کے گلے ملنے لگے تو ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم نہیں ہمارا پٹھانی سوٹ دوست احباب سے عید کے گلے مل رہا ہے اور ہم اس کے اندربالکل محفوظ ہیں…اس بار عجب بات یہ ہوئی کہ عین عید کے موقع پر امریکی ریاست کیلی فورنیا کی یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق ہماری نظروں سے گزری، جس میں کہا گیا تھا کہ لوگوں سے گلے ملنا انسانی ہڈیوں اور پٹھوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے! چنانچہ ہم نے اس بار یار لوگوں سے کچھ زیادہ ہی گلے مل لیے،جس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتنا پڑا، عید کی رات کو جب ہم سونے کے لیے بستر پر لیٹے تو بس لیٹے ہی رہ گئے اورجب پھول بانو اور بچوں نے ہمیں کسی طرح بستر سے اٹھانا چاہا تو انہیں لگا جیسے وہ ہمیں نہیں بستر پر پڑی کوئی چھڑی اٹھا رہے ہیں…
عید کے موقع پر گلنے ملنے کی خاطر لوگ کیسی کیسی عظیم قربانیاں دیتے ہیں ،آپ کی دلچسپی کے لیے اس کا کچھ احوال پیش خدمت ہے:
چند برس قبل عید کے بعد احتیاط علی محتاط ہمیں پلاسٹر میں لپٹے نظر آئے تو ہم نے ان پرسوال داغا: یہ سب ہوا کیسے ؟ تو وہ بادیدہ نم کہنے لگے : کیا بتاؤں یار! میں اپنی اسکوٹر پر جمالی دروازہ سے محمدی لائن جارہا تھا، پیچھے سے آواز آئی ‘ عید مبارک‘‘ بس پھر کیا تھا، میں اس آواز دینے والے سے گلے ملنے مچل گیا اور اپنی اسکوٹر سائیڈ میں لے رہا تھا کہ توازن بگڑا اور دوسرے ہی لمحے میںخندق میں جاگرا، اس کے بعدمیراجو حشر ہوا، وہ تمہارے روبرو ہے!‘‘
چمن بیگ پرتو عید کے گلے ملنے کا خبط سوار رہتا ہے ،دراصل وہ گلے ملنے ہی کو عید تصور کرتے ہیں۔ پچھلی عید کے موقع پر وہ ہمیں نہایت مغموم دکھائی دئیے ، ہم نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے : میںصبح پڑوسی محلے سے گزررہا تھا تو دیکھاکہ لوگ آپس میں بڑی گرمجوشی سے عید کے گلے مل رہے ہیں ، یہ روح پرور نظارہ دیکھ کر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اس جم غفیر میں شامل ہوگیا۔ جب وہاں موجود ہر جانے انجانے شخص سے گلے مل کر گھر پہنچا تو پتا چلا کہ کسی نے میری پاکٹ اڑا لی ہے !
جہاں تک ہمارا سوال ہے ، عید کے موقع پر فربہ انداز حضرات کے گلے لگ کر ہمیںمحرومیوں کا احساس ستاتا ہے جبکہ بھاری بھرکم توندوالوں سے گلے ملنے کے نام پر ہمیںان کی توند سے محض تین بار ٹکرانا پڑتا ہے،البتہ ان حضرات کو گلے لگا کر ہمیں بے پناہ مسرت ہوتی ہے جو ہماری قبیل کے ہوں۔ جب مخالف کی ہڈیوں سے ہماری ہڈیاں ٹکراتی ہیں تو ہماری عید کی خوشیوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔
عید کے موقع پر گلے سے گلے تو خوب ملتے ہیں لیکن دل کہاں ملتے ہیں؟ سینوں میں بغض، حسد اور نفرت کے انبار ہوںاور ہم ایک دوسرے کو گلے بھی لگالیں تو کیا حاصل؟فی الحال عیدکے موقع پرایک دوسرے سے گلے ملناایک رسم بن کر رہ گیا ہے کہ جس سے نہ ہمارے گلے دور ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمارے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے … پچھلے کچھ سالوں سے محسوس ہو رہا ہے جیسے عید کی خوشیاں ہم سے آہستہ آہستہ رخصت ہورہی ہیں یا پھر ہم خود اسے اپنے طرز عمل سے رخصت کر رہے ہیں۔ اس بار عیدکی خوشی کے ساتھ ہمارے دلوں میں کہیں نہ کہیں مظلوم فلسطینیوں کا غم بھی پوشیدہ تھا …کسی نے ان کے درد کی کچھ اس طرح ترجمانی کی ہے….
تم عید منانا اچھے سے ،تم عید منانا اچھے سے
تم لوگ نئے کپڑے پہنو
ہم سرخ لباس ہی پہنیں گے
پانی سے وضو تم کرلینا
،ہم خون سے اپنے کرلیں گے
تم کرنا نماز عید ادا
ہم لوگ جنازہ پڑھ لیں گے
تم عید منانا اچھے سے ،تم عید منانا اچھے سے
تم لوگ گلے لگ کر ہنسنا
ہم تنہا تنہا رو لیں گے
تم لوٹنا اپنے اپنے گھر
ہم ٹوٹے مکاں کو دیکھیں گے
سوغات مٹھائی کھاؤ تم
ہم سبزہ ،چارہ کھائیں گے
تم عید منانا اچھے سے ،تم عید منانا اچھے سے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰