سیاستمضامین

تقاریر و نعروں کی نہیں عملی مثالوں کی ضرورت

مدرسہ کے طلباء نے جدو جہد آزادی ہند میں جام شہادت نوش کرنے والے شہید اشفاق اللہ کے حوالے سے ایک پُر اثر اسٹیج شو پیش کیا۔ حب الوطنی کے گیتوں کے پس منظر میں جب یہ شور مدرسہ کے طلبہ نے پیش کیا تو حاضرین کی آنکھیں اشکبار اور دل وطن کی محبت سے سرشار تھا اور ہر ایک نے طلبہ اور اساتذہ کی محنت کی ستائش کی کہ دینی مدارس کے طلبہ نے ثابت کیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے متعلق روایاتی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ محرم کے مہینے میں مدارس کے طلبہ مساجد کے باہر اپنے مدرسے کے کیلنڈر فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ بقرعید کے دوران چمڑوں کی وصولی کرتے ہیں اور رمضان کے دوران زکوٰۃ کے لیے فارغین اپیلیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

محمد مصطفی علی سروری

یہ 15؍ اگست 2022ء سے چند دن پہلے کی بات ہے نعمان نے اپنے والد سے فرمائش کی۔ اس کو ایک اسٹیج شو میں حصہ لینا ہے جس کے لیے اس کو فوجی لباس چاہیے۔ نعمان کے والدین تو تعجب میں پڑگئے ان کا لڑکا تو ایک دینی مدرسہ کا طالب علم ہے پھر دینی مدرسہ میں یہ اسٹیج شو کیسا اور پھر بچوں کو فوجی لباس کیوں؟ جب والد نے نعمان سے پوچھا تو انہیں پتہ چلا کہ 15؍ اگست کے دن جب دنیا بھر میں ہندوستانی جشن آزادی ہند کی 75 ویں سالگرہ منارہے ہیں تو اسی دن کی مناسبت سے نعمان کے مدرسہ میں بھی ایک پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے۔
اس پروگرام میں مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان پر ایک معلوماتی شو پیش کیا جارہاہے۔ اسی شو میں نعمان شہید اشفاق اللہ کا رول ادا کرنے جارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسے فوجی لباس لانے کو کہا گیا ہے۔ 15؍ اگست سے پہلے نعمان نے اپنے ٹرینر اور اساتذہ کے ہمراہ مل کر خوب پریکٹس کی اور بالآخر 15؍ اگست 2022کے دن نعمان اپنا فوجی لباس پہنے اپنے والدین کے ہمراہ اپنے مدرسہ کو روانہ ہوا۔
والدین بھی یہ جان کر خوش تھے کہ ان کا لڑکا اگرچہ ایک دینی مدرسہ میں زیر تعلیم اور حفظ قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن اس مدرسہ میں عصری اسکولس کے طلبہ کی طرح ہر طرح کی زائد از نصابی تعلیمی اور صحت مند تفریحی سرگرمیوں پر بھی توجہ مبذول کی جاتی ہے۔
قارئین ملک بھر میں یوں تو بہت سارے دینی مدارس طلبہ کو حفظ قرآن مجید و دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ شہر حیدرآباد میں ایسا ہی ایک منفرد مدرسہ حضرت مولانا حافظ شاہ محمد بن عبدالرحمن الحمومی سابق خطیب شاہی مسجد باغ عامہ نے سال 1988ء میں شروع کیا تھا۔ اس ہمہ وقتی مدرسۃ الحمومی التحفیظ القرآن میں عام دینی مدارس سے ہٹ کر طلباء کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔ فی الحال اس مدرسہ کے نگران مولانا حافظ ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی خطیب شاہی مسجد باغِ عامہ ہیں۔ اس مدرسہ میں ہر برس یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ ہند کے موقعوں پر پرچم کشائی کی جاتی ہے۔ لیکن اس برس آزادی کے 75 ویں جشن کے حوالے سے مدرسہ کے طلباء کا ایک خاص پروگرام منعقد ہوا۔ باغ عامہ، شاہی مسجد کے روبرو منعقد ہوئے اس پروگرام میں اسسٹنٹ کمشنر پولیس سیف آباد سی وینو گوپال ریڈی، کے علاوہ حیدرآباد ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیئر آفیسر کے علاوہ کارپوریٹر ریڈ ہلز بھی شریک تھے۔
مدرسہ کے طلباء نے جدو جہد آزادی ہند میں جام شہادت نوش کرنے والے شہید اشفاق اللہ کے حوالے سے ایک پُر اثر اسٹیج شو پیش کیا۔ حب الوطنی کے گیتوں کے پس منظر میں جب یہ شور مدرسہ کے طلبہ نے پیش کیا تو حاضرین کی آنکھیں اشکبار اور دل وطن کی محبت سے سرشار تھا اور ہر ایک نے طلبہ اور اساتذہ کی محنت کی ستائش کی کہ دینی مدارس کے طلبہ نے ثابت کیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے متعلق روایاتی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ محرم کے مہینے میں مدارس کے طلبہ مساجد کے باہر اپنے مدرسے کے کیلنڈر فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ بقرعید کے دوران چمڑوں کی وصولی کرتے ہیں اور رمضان کے دوران زکوٰۃ کے لیے فارغین اپیلیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لیکن مدرسۃ الحمومی التحفیظ القرآن روایاتی مدارس سے الگ ہے اس مدرسہ کا آغاز صبح بعد فجر ہوتا ہے۔ مدرسہ کے طلباء ٹریک سوٹ یا ڈھیلے کپڑوں کے ساتھ نماز کے بعد باغ عامہ میں ایک تا دیڑھ گھنٹے پہلے تو چہل قدمی اور دوڑ لگانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے بعد مدرسہ کو لوٹ کر کپڑے تبدیل کر کے ناشتہ کرتے ہیں اور پھر ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو نمازِ ظہر تک جاری رہتا ہے۔ جس میں قرآن اور دینیات و حفظ کی تعلیم شامل ہے۔ جبکہ ظہرانہ کے بعد مدرسہ کے انہی طلبہ کو عصری مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے اور یوں عصر کے ساتھ یہ مدرسہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور طلبہ کو چھٹی دی جاتی ہے۔
مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی خطیب شاہی مسجد باغ عامہ کے مطابق دینی مدارس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ابتداء سے مدرسہ میں توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اور اس کے نتائج کیسے رہے اس حوالے سے مولانا نے مدرسہ کے فارغ طلبہ کے ایک گروپ کی نشاندہی کی ۔ حفاظ گروپ کے جن تین حفاظ سے میرا تعارف ہوا ان میں حافظ اسمٰعیل بیگ جو حفظ قرآن کے بعد گریجویشن کر رہے ہیں۔ حافظ سیدخالد بلال جو حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ بی بی اے کر رہے ہیں اور تیسرے حافظ محمد اسد الدین ہیں جو حفظ کی تکمیل کے بعد عصری تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام یہ تینوں حفاظ مدرسۃ التحفیظ القرآن سے فراغت کے بعد نبی کریم ﷺ کی ایک سنت کو زندہ کرنے میں لگ گئے اور اپنے بل پر اپنے گھر والوں کے تعاون سے تجارت کا آغاز کیا۔ ایک جانب اپنی عصری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، دوسری جانب نبی ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقے پر تجارت کا آغاز کیا اور دیسی طور پر مونگ پھلی کا تیل بنانے کاروبار شروع کیا۔
حافظ اسمٰعیل کے مطابق دینی مدرسہ کے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی عصری تعلیم کو جاری رکھا اور پھر حافظ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے کی ٹھانی۔ کافی ہوم ورک کرنے، اساتذہ اور ماہرین سے مشوروں کے بعد انہوں نے مونگ پھلی سے تیل تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں 40 فیصدی مونگ پھلی کی کاشت برصغیر ہند و پاک میں ہوتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے نام پر بازار میں جو تیل ریفائنڈ کر کے فروغ کیا جارہا ہے اس کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بعد مشورے اور تحقیق کے یہ بات نوٹ کی کہ لوگ مونگ پھلی کا خالص تیل استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن مارکٹ میں صرف ریفائنڈ آئیل عام دستیاب ہے۔ اس پس منظر میں حافظ گروپ کے تین طلبہ نے مونگ پھلی کا تیل نکالنے کا کاروبار شروع کیا اور گذشتہ 6 مہینوں کے دوران ان حفاظ نے کئی ایک تجربات کیے اور آج ماشاء اللہ ماہانہ ایک ہزار لیٹر تیل مارکٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔
حفاظ گروپ کے تحت تجارت کو فروغ دینے کا مقصد کیا ہے اس سوال کے جواب میں مولانا حافظ ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی نے بتلایا کہ آج کے ماحول میں ہر عام و خاص کی یہ شکایت عام ہے کہ ناپ تول میں کمی کی جاتی ہے۔ کاروبار میں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ مصنوعات کے معیار پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ تاجرین اکثر دھوکہ دیتے ہیں یا منافع کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔ سماج کی ان برائیوں پر علمائے کرام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دین اسلام نے تجارت کے اصول بھی بتائے۔ تجارت کا طریقہ بھی بتلایا ہے اور خود نبی کریم ﷺ نے عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ اس پس منظر میں ضرورت ہے کہ آج کا مسلمان (اور وہ کسی مدرسہ کا فارغ ہو تو سونے پہ سہاگہ) عملی طور پر دینی تعلیمات کی روشنی میں تجارت کا نمونہ پیش کرے تو وہ کسی کو دھوکہ نہیں دے گا۔ ناپ تول میں کمی نہیں کرے گا۔ مصنوعات کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ منافع کے نام پر لوٹ کھسوٹ نہیں کرے گا۔ مدرسۃ الحمومی التحفیظ القرآن کی مثال دینے کا مقصد آج تقاریر، سمینار، مذاکروں سے آگے بڑھ کر عملی طور پر دین اسلام کی تعلیمات کے عملی نمونے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
دینی مدارس کے طلبہ کو جو سوال سب سے زیادہ ستاتا ہے وہ یہ کہ بعدفراغت کہاں جائیں، کیا کریں؟ اپنے روزگار کے لیے کونسی مصروفیات کو اختیار کریں۔ دوسری جانب سے آج مسلمان زندگی کے ہر شعبہ حیات میں وجہ چاہے کچھ بھی ہو بدنام ہے۔ مسلمان کے ساتھ معاملہ کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ مسلمان وعدہ پورا نہیں کرنے کے حوالے سے بدنام ہوگئے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں حفاظ تاجر سے معاملہ کرنے پر ایک عام آدمی اس طرح کے بیشتر مسائل سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ حافظ ڈاکٹر عوام کا اعتماد دوبارہ بحال کرسکتا ہے۔ دینی مدارس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جدید چیالنجس کا سامنا کرنے کے لیے بہت سارے پروگرام اور منصوبوں پر مختلف افراد، انجمنیں اور ادارے کام کر رہے ہیں اور شہر حیدرآباد کی تاریخی مسجد سے ملحقہ یہ مدرسہ بھی اس سمت اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے جس سے بہت سارے امیدیں جڑی ہوئی ہیں۔
مسلمان تو ماشاء اللہ آج ہر طرح کے حلال کاروبار میں موجود ہیں۔ جب حفاظ کرام زندگی کے مختلف شعبہ حیات کے ساتھ ساتھ کاروباری میدان میں بھی اپنی شناخت کے ساتھ آگے آئیں گے اور دین اسلام میں موجود تجارت کا کاروبار کا عملی نمونہ پیش کریں گے تو یہ ایک بہترین خدمت ہوگی اور عملی مثال کے ذریعہ ہی بہترین تبلیغ کی جاسکتی ہے کہ دین اسلام نے کاروبار کے نام پر دھوکہ، جھوٹ اور لوٹ کو ہر طرح سے منع کیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے مکہ وہ ہمارے دینی مدارس کو اور وہاں کے طلبہ کو ہر دو جہانوں میں سرخروئی عطا فرمائے اور دینی مدارس چلانے والوں کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین یارب العالمین ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com