سیاست

ہندو قوم پرستی اور اکھنڈ بھارت

رام پنیانی

کیا ملکوں کے درمیان سرحدیں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہیں؟ یا وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں؟ بہت سے مواقع پر سلطنتوں۔بادشاہوں اور جدید قومی ریاستوں کی سرحدوں کے درمیان فرق کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کچھ ممالک حال ہی میں وجود میں آئے ہیں اور کچھ ممالک/سلطنت/قومی ریاستیں اپنے اپنے خطوں میں پیچیدہ اور طویل تاریخ رکھتی ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’ہم‘‘ یہاں حکومت کرتے تھے یا ’’ہماری‘‘ بادشاہت یہاں سے یہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ درحقیقت، لفظ ’’ہم‘‘ سماجی ترقی کے کسی بھی مرحلے میں لوگوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ سلطنتوں کے تابع ہوں یا جدید قومی ریاستوں کے شہری۔ ہماری سماجی فطرت بھی بدل رہی ہے۔ جب انسان پہلے جانوروں کا شکار کر کے اور کند اکٹھا کر کے زندگی گزارتے تھے اور پھر جانور پالتے تھے تو انہیں شاید ہی معلوم تھا کہ وہ کس علاقے میں رہ رہے ہیں۔ دیہی معاشروں اور قبائلی گروہوں میں لوگوں کا اپنی رہائشی علاقہ کے بارے میں تصور بہت مبہم ہوا کرتا تھا۔ انسانوں کے کھیتی باڑی شروع کرنے کے بعد ہی سلطنتیں بنیں اور سرحدیں زیادہ واضح طور پر متعین ہونے لگیں۔
سلطنتوں کی سرحدیں ہمیشہ بدلتی رہیں۔ چولا سلطنت اور اس کی حریف سلطنتیں زمین کے اس حصے پر حکومت کرتی تھیں۔ راجندر چولا کے زمانے میں، اگرچہ چولا سلطنت بہت بڑی ہو گئی تھی، لیکن پھر بھی یہ ملک کے جنوب تک محدود تھی۔ اہوم نے شمال مشرق میں حکومت کی اور ان کی سلطنت کی حدود کی واضح تصویر دستیاب نہیں ہے۔ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ان سلطنتوں کی حدود وقت کے ساتھ بدلتی رہیں اور کسی بادشاہ کے جانشین کو اپنے پیشرو کی طرح اس علاقے پر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ موریہ سلطنت رقبے کے لحاظ سے قدیم سلطنتوں میں سب سے بڑی سلطنت تھی، اور اس کے بعد آنے والے شونگا خاندان کے زیر انتظام علاقہ اس سے بہت مختلف تھا۔ یہاں تک کہ ’’غیر ملکی‘‘ مغل سلطنت کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جاتی ہے جو علاقائی طور پر مستحکم نہیں تھی۔ اورنگ زیب کے دور میں اس خاندان کی حکمرانی کا علاقہ سب سے بڑا تھا جب یہ جنوبی ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔
انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان کی سرحدیں زیادہ واضح طور پر متعین ہوگئیں اور یہاں تک کہ وہ ریاستیں جو اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوئیں وہ بھی انگریزوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ انہوں نے برطانوی طاقت کے ساتھ ملی بھگت سے حکومت کی۔ ان شاہی ریاستوں کو صرف رسمی خودمختاری حاصل تھی۔
انگریزوں نے میانمار پر بھی حکومت کی جو ان کی سلطنت کا حصہ تھا اور بعد میں ایک آزاد ملک بن گیا۔ یہی حال سیلون کا تھا جو آج سری لنکا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نو آباد کاری قوتوں کی کانگریس اور بھگت سنگھ، انڈمان جیل جانے سے پہلے ساورکر اور نیتا جی سبھاش کی آزاد ہند فوج جیسی قوم پرست طاقتوں نے مخالفت کی۔
انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا جس نے فرقہ وارانہ طاقتوں کو جنم دیا جو متوازی تھیں، لیکن ایک دوسرے کی مخالف تھیں۔ گاندھی جی کی قیادت میں قوم پرست قوتوں نے ایک متحدہ ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جو آج کے پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کا علاقہ ہے۔ تقسیم کے سانحہ نے قوم پرست قوتوں کا خواب چکنا چور کر دیا اور انگریزوں کی ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہو گئی۔ مسلم فرقہ پرست طاقتوں نے مطالبہ کیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں ضم کر دیا جائے اور ہندو فرقہ پرست قوتوں نے ایک متحدہ ہندوستان پر اصرار کیا جو ان کے مطابق زمانہ قدیم سے ایک ہندو ملک تھا!
جب کہ ہندو اور مسلم قوم پرستوں نے مذہب کا سہارا لیا اور ’’دوسری‘‘ برادری کے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلائی، قوم پرست قوتوں کو ہندوستان کو قبول کرنا پڑا جس کی حدود ریڈکلف نے طے کی تھیں۔
ہندوستان سیکولرازم کے راستے پر چل پڑا۔ سیکولرازم کی راہ میں بہت سی مشکلات تھیں کیونکہ معاشرہ مکمل طور پر سیکولر نہیں تھا اور حکمران کانگریس میں بہت سے ہندو فرقہ پرست عناصر موجود تھے۔ نہرو نے پارٹی کے اندر فرقہ وارانہ طاقتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں خبردار کیا، لیکن زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکا کیوں کہ ہندو فرقہ پرستوں نے، آر ایس ایس کی شاکھائوں میں تربیت حاصل کی، سماج اور سیاست پر اثر و رسوخ حاصل کر لیا، جو بالآخر آج کے حالات کا باعث بنے۔
ان فرقہ پرست طاقتوں نے نہ صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو پسماندہ کیا ہے بلکہ وہ ہندوستانی آئین کے خلاف پروپیگنڈا کر کے اپنی توسیع پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ بات نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح سے بھی ظاہر ہوتی ہے جہاں اکھنڈ بھارت کی ایک دیواری تصویر لگائی گئی۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کو ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے ٹویٹ کیا: ’’ہمارا واضح عزم اکھنڈ بھارت ہے‘‘۔ جوشی نے کہا ’’اکھنڈ بھارت کا تصور قدیم ہندوستانی ثقافت سے آیا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت ہندوستانی ثقافت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے، جو ہندوستان کے مختلف خطوں اور ان کی تمام جہتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک اور بی جے پی لیڈر منوج کوٹک نے ٹویٹ کیا ’’نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں دکھایا گیا اکھنڈ بھارت ایک طاقتور اور خود انحصار ہندوستان کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
حکومت ہند کے سرکاری ترجمان، ارندم باغچی نے کہا، ’’یہ دیواری تصویر ‘ اشوک کی سلطنت کی عکاسی کرتی ہے اور ان (اشوک) کے ذریعہ اختیار کردہ اور تشہیر کردہ ذمہ دار اور عوام پر مبنی طرز حکمرانی کے تصور کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
پاکستان اور نیپال کی حکومتوں نے بی جے پی لیڈروں کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے بارے میں بات کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ رہنما چین کے ذریعہ ہندوستانی زمین کے ایک بڑے ٹکڑے پر قبضے پر خاموش ہیں۔ اکھنڈ بھارت کا منصوبہ آر ایس ایس کے دماغ کی اختراع ہے۔ مہاتما گاندھی نے بالکل واضح کر دیا تھا کہ برما اور سری لنکا جیسے ممالک کے تعلق سے ہندوستان کے کوئی سامراجی عزائم نہیں ہیں۔ بھارت نے اپنی سرحدوں کو تسلیم کیا اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ اس سمت میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کا قیام عمل میں آیا اور ہندوستان نے اس کی سرگرمیوں میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ سارک کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان ثقافت، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافہ ہوا اور اندرون ملک سیاحت میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ چند سالوں سے سارک کی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔
کیا اکھنڈ بھارت کا یہ مطلب ہے کہ ہندوستان ان ملکوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرلے گا اور پھر دہلی میں بیٹھا بادشاہ (جو پہلے ہی بادشاہ کی طرح برتاؤ کر رہا ہے) ان پر حکومت کرے گا؟ اس قسم کی توسیع پسندی صرف تنگ ذہن قوم پرستی پر مبنی ممالک کے لیے موزوں ہے۔ ہٹلر کے دور میں جرمنی اس کی ایک مثال ہے۔ رام منوہر لوہیا اور دیگر نے ہندوستان اور پاکستان کے فیڈریشن کے قیام کی بات کی۔ اس تناظر میں سارک کا تجربہ بہت مثبت تھا، لیکن بھارت میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور پاکستان، سری لنکا اور میانمار جیسے ممالک میں بنیاد پرست قوتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے سارک مرجھا گیا ہے۔
اگر ہمیں متحد ہونا ہے تو علاقائی تعاون ہی واحد راستہ ہے۔ ہمیں سرحدوں کو پاٹنا ہے۔ یہ ایک خواب لگ سکتا ہے، لیکن یوروپی یونین اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ طویل عرصے سے جنگ میں رہنے والے ممالک متحد ہو سکتے ہیں۔ آج پورے یوروپ میں ایک کرنسی اور ایک ویزا ہے۔ ممالک کی سرحدیں کھلی ہیں اور تعلیم، صحت، سیاحت اور تقریباً ہر دوسرے شعبے میں یوروپ کے ممالک مل کر کام کر رہے ہیں اور ایک بہتر یوروپ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہاں اب کچھ عرصے سے کچھ سپر پاورز کے عزائم کی وجہ سے دنیا میں اتھل پتھل ضرور مچی ہوئی ہے۔
ہمیں اکھنڈ بھارت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں علاقائی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیا کے ممالک اپنی اپنی حکومتوں کو اجارہ داری کے رجحانات سے آزاد کر کے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کر سکیں۔ پارلیمنٹ میں موجود دیواری نقاشی کو اشوک کی سلطنت کی اعلیٰ اقدار کا نمائندہ سمجھا جانا چاہیے۔ اشوک کی سلطنت عوامی فلاحی تھی، توسیع پسند نہیں۔ توسیع پسند آمروں نے سوائے خود کو اور اپنے اردگرد کے ممالک کو برباد کرنے اور لاکھوں لوگوں کا خون بہانے کے کچھ حاصل نہیں کیا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰