فُضلات سے تیار شدہ گیس
جو چیزیں ناپاک ہوں ، ان کا داخلی استعمال یعنی کھانا پینا ، اور خارجی استعمال یعنی جسم میں لگانا جائز نہیں ہے ؛ لیکن اگر اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی اور صورت ہوتو اس میں حرج نہیں:
سوال:- آج کل فضلات جو ڈرینج میں بہادیئے جاتے ہیں اور پانی وغیرہ کے ساتھ مل جاتے ہیں ، ان کو جمع کرکے ان سے گیس پیدا کی جاتی ہیں اور پھر اس گیس سے کھانے وغیرہ بھی پکائے جاسکتے ہیں ،
تو کیا اس گیس کی خرید و فروخت اور اس سے کھانا پکانا جائز ہوگا ؟ (بدرالاسلام، کوکٹ پلی)
جواب :- جو چیزیں ناپاک ہوں ، ان کا داخلی استعمال یعنی کھانا پینا ، اور خارجی استعمال یعنی جسم میں لگانا جائز نہیں ہے ؛ لیکن اگر اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی اور صورت ہوتو اس میں حرج نہیں:
’’ والصحیح عن ابی حنیفۃ أن الانتفاع بالعذرۃ الخاصۃ جائز‘‘ (تبیین الحقائق : ۶؍۲۶)
دوسرے : اگر کسی ناپاک چیز کی حقیقت بدل جائے اور وہ پوری طرح تبدیل ہوجائے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے ، اگر وہ چیز ناپاک تھی تو اب ناپاک باقی نہیں رہے گی ، اسی بنیاد پرفُضلات کو جلا دیا جائے اور وہ راکھ بن جائے تو اب اسے پاک سمجھا جائے گا :
’’ والسرقین والعذرۃ تحترق فتصیر رمادا تطھر عند محمد خلافا لأبی یوسف ، وضم إلی محمد ابا حنیفۃ فی المحیط ، وکثیر من المشائخ اختار واقول محمد ، وفی الخلاصۃ : وعلیہ الفتویٰ ، وفی فتح القدیر : أنہ المختار‘‘ (البحر الرائق : ۱؍۲۳۹)
لہٰذا جب غلاظت نے گیس کی شکل اختیار کرلی تو اب وہ ناپاک نجاست باقی نہیں رہی ، اب یہ گیس پاک ہوگئی ؛ لہٰذا اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور پکوان بھی —
اگر بالفرض گیس ناپاک بھی ہوتی ، تب بھی اس سے پکائے ہوئے کھانے میں ناپاکی منتقل نہیں ہوتی اور اسے پاک ہی سمجھاجاتا ؛
کیوںکہ کوئی پاک چیز اس وقت ناپاک ہوتی ہے ، جب کوئی ناپاک چیز اس میں ڈال دی گئی ہو ،
صرف اس بنیاد پر کہ ناپاک چیز اس کے قریب رکھی گئی ہو ، ناپاک نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اگر ناپاک ایندھن سے کھانا پکایا گیا تو کھانا ناپاک نہیں ہوگا ۔